"MIK" (space) message & send to 7575

’’غلامانِ شب‘‘

میرٹھ (بھارت) کے عالمی شہرت یافتہ شاعر بشیر بدر نے شہری معاشرت کی پیچیدگیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کیا خوب کہا ہے۔ ؎ 
کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو ملو گے اِتنے تپاک سے 
یہ الگ مزاج کا شہر ہے‘ ذرا فاصلے سے ملا کرو 
ہر شہر کا ایک الگ‘ مخصوص مزاج ہوتا ہے۔ تمام بڑے شہر ایک سے دکھائی دیتے ہیں‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ ہر بڑا شہر اپنے آپ میں منفرد ہے۔ بے حِسی اور لاتعلقی کا چلن تو خیر اب شہری کلچر کا حصہ ہی بن گیا ہے ‘مگر اس سے ہٹ کر بھی بہت کچھ ہے ‘جو شہروں کے مزاج میں گُندھ گیا ہے۔ اس کے باوجود ہر بڑا شہر اپنا الگ مزاج رکھتا ہے اور اسی حوالے سے پہچانا بھی جاتا ہے۔ کراچی بھی اپنے آپ میں منفرد ہے۔ کراچی کو انفرادیت کی منزل تک پہنچانے والی کئی خصوصیات ہیں‘ جو خاصی نمایاں ہیں۔ ایک زمانے سے کراچی کو روشنیوں کا شہر کہا جارہا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب یہ شہر واقعی روشنیوں میں یوں نہایا ہوا ملتا تھا کہ شب پر دن کا گمان ہوتا تھا۔ اب‘ وہ کیفیت نہیں رہی۔ متعلقہ اداروں کو اب بجلی بچانے کا ایسا ہَوکا ہے کہ شہر کی بیشتر سڑکیں تاریکی میں ڈوبی رہتی ہیں۔ کراچی روشنیوں کا شہر نہیں رہا ‘بلکہ اُن کا نگر بن گیا ہے‘ جنہیں پیار بھری زبان میں رات کے راہی کہا جاتا ہے۔ 
کراچی کی راتیں جاگیں نہ جاگیں‘ اہلِ کراچی کو رات بھر جاگنے کی ایسی عادت پڑی ہے کہ چُھٹنے کا نام نہیں لے رہی۔ چاند تھک ہار کر چل دیتا ہے۔ ستارے چمکتے چمکتے ٹمٹمانے کی منزل سے گزرنے لگتے ہیں ‘مگر اہلِ کراچی ہیں کہ پلکیں بوجھل ہوجانے پر بھی شب بیداری ترک کرنے پر مائل نہیں ہوتے۔ دو ڈھائی عشروں کے دوران شب بیزاری ... معاف کیجیے گا‘ شب بیداری کا کلچر پوری توجہ کے ساتھ پروان چڑھایا گیا ہے۔ ہمارا اشارہ کسی سازش کی طرف نہیں۔ پوری توجہ اُن کی جو اس کلچر کے عادی ہوچکے ہیں۔ دنیا بھر میں چلن یہ ہے کہ لوگ دن بھر کام کرتے ہیں اور رات کو آرام کرتے ہیں۔ باقی پاکستان بھی اس معاملے میں دنیا کے ساتھ چل رہا ہے۔ لے دے کر بس کراچی ہے کہ عالمگیر معمول کو گلے لگانے کے لیے تیار نہیں۔ کیوں؟ تو جناب اس کیوں کا جواب کسی کے پاس نہیں۔
کسی رات کے راہی سے بھی پوچھیے کہ اس روش پر کیوں گامزن ہے تو کوئی جواب نہ دے پائے گا۔ کوئی جواب ہو تو دیا بھی جائے! ایک زمانہ تھا کہ کراچی کے باشندے بھی رات کا کھانا مغرب کی نماز کے فوراً بعد کھا لیتے تھے اور رات نو بجے پی ٹی وی کا خبرنامہ دیکھ کر سونے کی تیاری شروع کردیتے تھے۔ جلدی سونے کا نتیجہ یہ برآمد ہوتا تھا کہ فجر کی اذان سے بہت پہلے نیند پوری ہو جاتی تھی اور لوگ (آج کی طرح تھکن کے باعث بستر پر کسمسانے کی بجائے) بیدار ہوتے ہی الرٹ ہوکر بستر چھوڑ دیتے تھے۔ یوں دن نارمل طریقے سے شروع ہوتا تھا۔ 
اب ‘معاملہ یہ ہے کہ لوگ شام کو کام سے واپسی پر کچھ دیر اہلِ خانہ کو درشن کراتے ہیں‘ پھر تیار ہوکر گھر سے باہر آجاتے ہیں اور عوام‘ یعنی احباب میں گھل مل جاتے ہیں۔ اس معاملے میں بہت سوں کی طرزِ عمل تو ایسی پائی گئی ہے گویا گھر میں قدم قدم پر کانٹے بچھے ہوں اور اُن سے بچنے کے لیے گھر سے باہر آنا لازم ہو!گھر سے باہر آکر احباب میں بیٹھے تو پھر اٹھنا کہاں نصیب ہوتا ہے؟ ع
حضرتِ داغؔ جہاں بیٹھ گئے‘ بیٹھ گئے 
بزمِ یاراں سجی ہو تو کس میں ہمت ہے کہ اٹھے اور گھر کی راہ لے۔ دل پر رکھنے کے لیے اِتنی بڑی سِل کوئی کہاں سے لائے! رات گزرتی جاتی ہے اور محفل پر شباب آتا جاتا ہے۔ چھوٹی سی بات بڑھتے بڑھتے داستان بنتی جاتی ہے۔ بات سے بات نکلتی ہی چلی جاتی ہے اور پھر سلسلۂ گفتگو پوائنٹ آف نو ریٹرن کی منزل تک پہنچ کر دم لیتا ہے۔ 
رات کو گھومنے پھرنے اور ہوٹلوں‘ تھڑوں پر بیٹھنے کا نشا اہلِ کراچی پر ایسا چڑھا ہے کہ اُترنے کا نام نہیں لے رہا۔ جو اس نشے میں ڈوبے ہوئے ہیں اُن سے پوچھیے کہ بھائی‘ کچھ بتاؤ تو سہی یہ خمار کیا ہے تو اُن سے بولا نہیں جاتا‘ زبان گنگ ہو جاتی ہے۔ اس طلسمات میں جو گیا وہ سلامت واپس نہیں آیا۔ بہت سوں کا بیان ہے کہ گھر سے باہر نکلنا مجبوری بھی ہے ‘کیونکہ گھر میں اِتنی جگہ نہیں ہوتی کہ کسی دوست کو بٹھایا جاسکے‘ اگر کوئی کسی اور علاقے سے آیا ہوا ہو تو اُسے چند گھنٹے ہوٹل ہی پر بٹھایا جاسکتا ہے ‘تاکہ اہلِ خانہ پریشانی سے بچ سکیں۔ 40‘ 50 مربع گز کے مکان میں کوئی کسی ''غیر خاندانی‘‘ مہمان ‘یعنی دوست وغیرہ کو کس طور بٹھا سکتا ہے؟ رہائشی یونٹس کا معاملہ تو یہ ٹھہرا کہ ؎ 
زندگی تو نے مجھے قبر سے کم دی ہے جگہ 
پاؤں پھیلاؤں تو دیوار میں سَر لگتا ہے 
اگر کوئی اپنے دو چار دوستوں کے ساتھ ایک پورا کمرا گھیر لے گا تو گھر کے باقی افراد تین چار گھنٹے کیا مِرّیخ پر گزاریں گے! خیر‘ جگہ کی کمی یا تنگی تو ضِمنی نوعیت کا سبب ہے۔ اصل سبب یہ ہے کہ ع
دل پھر طوافِ کوئے ملامت کو جائے ہے 
رات کا نشا بھی گٹکے کے نشے کی قبیل سے ہے کہ پولیس بھی ''کُٹ‘‘ لگائے تو ع
چُھٹتا نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگا ہوا 
احباب پرور شب بیداری کا بھی یہ معاملہ ہے کہ جنہیں یہ لَت لگ جائے وہ گھر میں یومیہ بنیاد پر چِک چِک کے باوجود راہِ راست پر آنے کا نام نہیں لیتے!کراچی کے کئی علاقے رات کی رنگینیوں کے حوالے سے معروف ہیں۔ ہمارا اشارہ خدا ناخواستہ ریڈ لائٹ ایریاز کی طرف نہیں۔ اُن علاقوں کا تو محض ایک رنگ (سُرخ) ہوتا ہے۔ کراچی میں رات بھر جاگنے والے علاقے طرح طرح کے رنگوں اور خوشبوؤں سے مُزیّن رہتے ہیں۔ خوشبو کے ذکر سے پھر کچھ ایسا ویسا مت سوچیے‘ ہم اشیائے خور و نوش کی خوشبوؤں کی بات کر رہے ہیں! رات میں دن کا سماں رکھنے والے علاقوں میں لوگوں نے معمولات بھی مکمل بدل ڈالے ہیں۔ رات بھر گپ شپ اور مختلف الاقسام اشیائے خور و نوش سے ''پیٹ بھرائی‘‘ کے بعد لوگ فجر کے وقت گھر واپس آتے ہیں۔ دن چڑھے تک سوتے رہتے ہیں‘ دن کے بارہ بجے اٹھ کر ایک اور دو بجے کے درمیان دکان کھولتے ہیں۔ یہ تو ہوا کاروباری لوگوں کا معمول اور نوکری پیشہ؟ وہ رات کے پچھلے پہر گھر واپس آکر سوتے ہیں اور ڈھائی تین گھنٹے بعد اٹھ کر کام پر پہنچتے ہیں تو وہاں دن بھر ''عالمِ مخموری‘‘ میں جُھومتے رہتے ہیں! اور کارکردگی؟ دفتر کی حد تک تو گزارا ہو جاتا ہے‘ کیونکہ کچھ پتا نہیں چلتا کون کتنا کام کر رہا ہے۔ ہاں‘ کسی فیکٹری میں چین سسٹم پر کام کرنے والے بے نقاب ہو جاتے ہیں! 
ہمارے احباب میں حسن علی امام اور سہیل جمالی کا تعلق میڈیا سے ہے‘ یعنی پیٹی بند بھائی ہیں۔ عمران پرمار‘ عمران راجپوت‘ احد یار خان اور شعیب ''ہنی‘‘ وغیرہ مختلف شعبوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ شب بیداری کے معاملے میں یہ سب کے سب ایسے ''کہنہ مشق‘‘ واقع ہوئے ہیں کہ انہیں رات کے راہی کہتے ہوئے ایسا لگتا ہے ‘جیسے اُن کے درجہ و مقام کا حق ادا نہیں ہو پارہا‘ اسی لیے ہم ‘اگر انہیں ایک درجہ بلند کرکے ''غلامانِ شب‘‘ کہیں تو کسی بھی طور بے جا نہ ہوگا۔ ع
شب عطا تیری ہے اور شب کو عطا ہم ہو گئے! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں