ہم بھی خیر سے پاکستانی ہیں اس لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ ہمارے حصے میں بھی طرح طرح کے دکھ اور جلاپے نہ آئے ہوں یا نہ آئیں؟ ہم اس معاملے میں سارا الزام دوستوں یا گھریلو زندگی کے سَر پر منڈھنے کے قائل نہیں۔ غیرت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم آپ کے سامنے ''بہ قلم خود‘‘ برملا اعتراف کریں کہ کالم نگاری اور شعر گوئی نے بھی ہمیں خون کے آنسو رلانے میں کبھی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ عین بھری جوانی میں ذہن پر شعر گوئی کا جُنون سوار ہوا تو ایسا بہت کچھ کہا ‘جس کا سَر‘ پَیر ڈھونڈنے کی کوشش میں ناکامی کا اعتراف کرکے لوگ اپنا کلیجہ ٹھنڈا کیا کرتے تھے! بدخواہوں کا بغض اپنی جگہ‘ ہمیں تو اپنا کہا ہوا‘ ہر شعر دل و جان سے پیارا ہوا کرتا تھا۔ ایک بار ریڈیو پاکستان کراچی کے مشاعرے میں پڑھنے کے لیے ایک غزل کہی‘ جس کا مطلع تھا: ؎
اس دور میں بے گھر کوئی انسان نہیں ہے
ہر شخص مکانِ غمِ دنیا کا مکیں ہے
یہاں تک تو معاملہ ٹھیک تھا‘اسی غزل کا ایک شعر تھا: ؎
گھر لَوٹ کے آیا ہوں تو کیا دیکھ رہا ہوں
جس چیز کو چھوڑا تھا جہاں پر‘ وہ وہیں ہے!
قدر شناس احباب نے پوچھا بھائی! آپ کیا چاہتے تھے؟ یہ کہ آپ گھر واپس آئیں تو سب کچھ اُلٹا‘ پَلٹا ملے؟ ہم نے پورے اخلاص کے ساتھ سمجھایا کہ اس شعر کا ایک تناظر ہے‘ تاریخ ہے۔ بات کچھ یوں تھی کہ ہمارے جاننے والوں میں ایک صاحب کمانے کے لیے بیرون ِ ملک گئے۔ جب وہ گئے تب گھر کے بڑے کمرے کے ایک کونے میں ٹیبل فین رکھا تھا۔ اس پنکھے میں سپرنگ سے دبنے والے بٹن لگے ہوئے تھے۔ چار میں سے دو بٹن ٹوٹ گئے‘ تو اُس بٹنز کے کھانچے دبانے کیلئے اینٹ رکھ دی گئی! جو صاحب بیرون ملک گئے تھے ‘وہ کما کماکر بھیجتے رہے اور اہلِ خانہ مزے سے زندگی بسر کرتے رہے۔ کم و بیش 6 سال بعد وہ صاحب حساب کتاب کرکے‘ بوریا بستر لپیٹ کر گھر لَوٹے۔ اب‘ اُن کا نصیب دیکھیے کہ ٹیبل فین وہیں تھا ‘جہاں اُسے چھوڑا تھا اور اینٹ بھی بہ نفسِ نفیس موجود تھی! ہمارا خیال ہے یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ باقی گھر کا حال کیا تھا۔
ہم سب طرح طرح کی تبدیلیاں چاہتے ہیں‘ مگر کچھ بھی‘ بلکہ ''ککھ‘‘ بھی نہیں بدلتا۔ صرف باتیں بنانے اور شیخیاں بگھارنے سے تو کچھ بھی نہیں بدلتا۔ پورے معاشرے پر جمود طاری ہے۔ ٹیکنالوجی کی ترقی نے ہماری زندگی میں بہت سی چیزیں داخل کردی ہیں۔ دُور سے دیکھنے پر لگتا ہے کہ سبھی تبدیل ہوگئے ہیں۔ قریب سے دیکھیے تو معلوم ہوتا ہے ‘لوگ جدید ترین آلات استعمال کرنے تک محدود ہیں۔ زندگی وہیں کی وہیں ہے۔ سوچ کہیں نہیں بدلی۔ باریک بینی راحت تو کیا بخشے گی‘ اُلٹا دکھ بڑھا دیتی ہے: ؎
دیکھا ہے زندگی کو کچھ اتنا قریب سے
چہرے تمام لگنے لگے ہیں عجیب سے
ہمارے بعض احباب کا شِکوہ یہ ہے کہ ہم نے چند موضوعات دانتوں سے پکڑ رکھے ہیں اور جس طور دھوبی گھاٹ پر دھوبی کپڑوں کو رگڑا دیتے ہیں ‘اسی طور ہم اپنے پسندیدہ موضوعات کو رگڑا دیئے جارہے ہیں۔ رشید آباد (تحصیل لیاقت پور‘ ضلع رحیم یار خان) میں ہمارے ایک قاری (اور مبصّر) عامر عباسی رہتے ہیں۔ اُنہوں نے جمعہ 14 دسمبر کو شائع ہونے والے ہمارے کالم ''غلامانِ شب‘‘ کو پڑھ کر ایس ایم ایس کیا ''راتوں کو جاگنے والے جب تک یہ روش ترک نہیں کریں گے‘ تب تک آپ اُن کے بارے میں لکھنا نہیں چھوڑیں گے!‘‘
کراچی میں ہمارے ایک ''پیٹی بند بھائی‘‘ یعنی ایک بڑے اخبار کی ویب سائٹ سے وابستہ فرحان خان بھی کچھ ایسی ہی رائے رکھتے ہیں۔ ایک بار ہمارا کالم پڑھ کر وہ معترض ہوئے کہ آپ ہڈ حرامی اور بے عملی کے بارے میں بہت لکھ چکے ۔ ہم نے اُن سے عرض کیا کہ آپ کا اعتراض درست ہے‘ اگر آپ کی دل آزاری ہوئی ہے تو ہم معذرت خواہ ہیں‘ مگر یہ بھی تو دیکھیے کہ لوگ ہڈ حرامی اور بے عملی ترک کرنے پر آمادہ و مائل نہیں ہوتے۔ وہ باز نہیں آتے اور ہم باز آجائیں! اُن سے تو کوئی کچھ نہیں کہتا اور ع
برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر
ہمارے پسند موضوعات میں بے ذہنی بھی نمایاں ہے۔ ہمارے معاشرے میں ذہن سے کام لینے کی روش آج تک پنپ نہیں سکی۔ کئی بار چاہا کہ اس موضوع کو مزید رگڑا نہ دیا جائے‘ مگر معاشرے کی بے ذہنی نمایاں کرنے والے ایسے ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں کہ اُن کی تفصیل پڑھ کر ہماری ''رگِ کالم نگاری‘‘ اُسی طرح پھڑک اٹھتی ہے‘ جس طور پر بہت سے لوگ ڈھول کی تھاپ سُنتے ہی تِھرکنے‘ ٹُھمکنے اور پُھدکنے لگتے ہیں! ایک دور تھا کہ جب ہم (شاید بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹرز کرنے کے زیر اثر) امریکا‘ یورپ اور فلسطین کے بامِ زرّیں سے نہیں اترتے تھے‘جہان بھر کے موضوعات پر لکھ لکھ کر تھک گئے ‘تب اندازہ ہوا کہ لوگوں کو ایران و طوران کی باتوں سے کیا غرض؟ وہ اپنے بارے میں پڑھنا چاہتے ہیں۔ دِل کے اندر سے ایک آواز ابھری کہ ؎
تم آسماں کی بلندی سے جلد لَوٹ آنا
مجھے زمیں کے مسائل پہ بات کرنی ہے
اس آواز پر لبیک کہتے ہوئے ہم نے خالص گھریلو اُمور سے متعلق لکھنا شروع کیا۔ کچھ ہی دنوں میں اندازہ ہوا کہ گھریلو اُمور کے نام پر ہم صرف مناقشوں اور قضیوں کی المناک داستانیں رقم کر رہے ہیں! یہ تو ہونا ہی تھا‘ کیونکہ اصل گھریلو اُمور یہی تو ہیں! ابتداء میں لوگوں نے یہ خیال کیا کہ ہم کالم کے پردے میں دل کے پھپھولے پھوڑ رہیں‘ اپنے ذاتی دکھ بیان کر رہے ہیں۔ معترضین کو ہم نے سمجھایا کہ یہ تو گھر گھر کی کہانی ہے! سب کے جی کا جنجال ملتا جلتا ہے اس لیے ؎
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اُس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
والی کیفیت پیدا ہوگئی ہے‘ مگر لوگ کہاں ماننے والے تھے۔ بعض نے تو یہ الزام بھی عائد کردیا کہ ہم کالم کے پردے میں خواتین کو مزاجاً تشدد پسند ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں! گزشتہ دنوں فیصل آباد کے نزدیک رسالہ والا روڈ پر سکونت پذیر ہمارے محبوب قاری عامر گجر نے اپنا گھر بسایا تو اس خوف میں مبتلا ہوئے کہ کہیں ہم اس حوالے سے کوئی کالم لکھ کر اُن کی گھریلو زندگی کے شہد میں زہر نہ گھول دیں۔ ہم نے اُنہیں دِلاسا دیا کہ بے فکر رہیں‘ گھریلو زندگی سے متعلق لکھنے کی پاداش میں ہمیں اپنے گھر میں ایسے سلوک کا سامنا کرنا پڑا ہے کہ اب‘ اس موضوع پر کچھ لکھتے ہوئے وہی کیفیت طاری ہوتی ہے ‘جو مرزا اسد اللہ خاں غالبؔ پر طاری ہوئی تھی: ؎
میں نے مجنوں پہ لڑکپن میں اسدؔ
سنگ اٹھایا تھا کہ سَر یاد آیا
خواتینِ خانہ ہوں یا خواتینِ بے خانہ ... دونوں کے بارے میں کچھ بھی لکھتے ہوئے اب ہم اِس لیے بھی ڈرتے ہیں کہ حقوقِ نسواں کے علم برداروں کی خاصی بڑی تعداد پائی جاتی ہیں۔واضح رہے کہ ہم پر چند پسندیدہ موضوعات کی چوکھٹ پر قربان ہو جانے کا الزام سراسر بے بنیاد ہے۔ ہم بھی ویسے ہی ہیں جیسا پورا معاشرہ ہے۔
بعض شعراء ایک ہی غزل کو تین عشروں سے رگڑ رگڑ کر اور بعض سینئر مزاح نگار پریکٹیکل کامیڈی کے نام پر آسانی کیلئے ''بولڈ‘‘ جملوں کا سہارا لے کر مزے سے پیٹ بھر رہے ہیں۔ اُنہیں کوئی کچھ نہیں کہتا۔ عامر عباسی کی تان بھی ٹوٹی ہے تو اس بات پر ہم کولھو کے بیل کی طرح ایک محدود سے ''گول دائرے‘‘ میں گھوم رہے ہیں۔