ترکی کے صدررجب طیب اردوان بھی خوب ہیں۔ دنیا حیران ہے کہ مسلم دنیا کے قائدین میں یہ کون ہے‘ جو انجام کی پروا کیے بغیر بولنے کی صلاحیت کا حامل ہے۔ فلسطین کی بحری و اقتصادی ناکہ بندی کے معاملے پر اسرائیل کے خلاف جاکر ترک قائد نے ثابت کردیا تھا کہ وہ خود کو مسلم دنیا کے ایک بڑے قائد کے روپ میں پیش کرنا چاہتے ہیں۔
نصف عشرے کے دوران رجب طیب اردوان نے متعدد مواقع پر خاصی بے باک رائے دے کر یہ اشارہ دیا ہے کہ وہ ہر معاملے میں غیر ضروری طور پر لگی لپٹی رکھنے کے قائل نہیں۔ اُن کا مزاج ٹھنڈی ہوا کے جھونکے جیسا ہے۔ اس وقت مسلم دنیا پر انتہائی شرم ناک نوعیت کا جمود طاری ہے۔ بے حِسی ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ مسلم دنیا کے قائدین گھوم پھر کر اپنے ذاتی مفادات کی منزل پر آجاتے ہیں۔ اُنہیں اپنی اپنی اقوام یا پوری اُمتِ مسلمہ کے وسیع تر مفادات سے بظاہر کچھ رغبت نہیں۔ سب اقتدار بچانے کی تگ و دَو میں دکھائی دیتے ہیں۔
اس وقت مسلم دنیا کو ایسے قائدین کی اشد ضرورت ہے ‘جو پوری دنیا کے مسلمانوں سے عمومی طور پر برتی جانے والی جانب داری اور امتیاز پر بولنے کی صلاحیت‘ سکت اور لگن رکھتے ہوں۔ امریکا اور مغرب نے کم و بیش سات عشروں کے دوران جو کچھ کیا ہے‘ اُس کے منطقی نتیجے میں مسلم دنیا تماشا بن کر رہ گئی ہے۔ مسلم دنیا کے عوام احساسِ کمتری اور احساسِ محرومی کے ساتھ ساتھ اب‘ شدیدتر نوعیت کے احساسِ جرم سے بھی دوچار ہیں۔ حکمرانوں کی بے حِسی و نا اہلی اور غیروں کی معاندانہ پالیسیوں کے تسلسل کے باعث مسلم دنیا کے عوام ہر معاملے میں شدید تذبذب کا شکار ہیں۔ اُن کی سمجھ میں کچھ بھی نہیں آرہا کہ اب کریں ‘تو کیا کریں۔ ایسے میں کچھ کرنا ممکن دکھائی دے رہا ہو تو یقین ہی نہیں آتا!
رجب طیب اردوان نے چین اور روس کے ساتھ ساتھ اب ‘ایران کو بھی ساتھ لے کر چلنے کی پالیسی اپنائی ہے۔ ترک ایران تعلقات ایک زمانے سے کشیدہ چلے آرہے تھے۔ اب‘ اُن کے قائدین نے مل کر طے کیا ہے کہ معاملات کسی نہ کسی طور درست کیے جائیں ‘تاکہ بدلتے ہوئے علاقائی و عالمی حالات کا سامنا کرنے میں زیادہ الجھن کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
چین دفاعی صلاحیت کے اعتبار سے بھی ایسا نہیں کہ کوئی سنجیدگی سے نہ لے۔ مگر خیر‘ چینی قیادت ''نرم قوت‘‘ (علوم و فنون اور معاشی تفاعل) کے ذریعے آگے بڑھنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ دنیا بھر میں چین کی سرکاری و نجی سرمایہ کاری کا دائرہ دن بہ دن وسیع سے وسیع تر ہوتا جارہا ہے۔ اس حوالے سے امریکا اور یورپ بہت شور مچارہے ہیں۔ ڈھول پیٹا جارہا ہے کہ چین پس ماندہ ممالک کا بنیادی ڈھانچہ مضبوط بنانے کے نام پر اُنہیں قرضوں کے جال میں پھنسا رہا ہے۔ اس حوالے سے امریکا اور یورپ کو اپنے گریبان میں جھانکنے کی توفیق اب تک نصیب نہیں ہوئی۔
پاکستان چین کے ساتھ مل کر چلنا چاہتا ہے‘ مگر امریکا اور یورپ اُسے اِس کوچے میں آباد ہونے سے روک رہے ہیں۔ اور اب‘ اس مقصد کے لیے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو بروئے کار لایا جارہا ہے۔ اردوان نے کوالا لمپور سمٹ کے بعد ایک انٹرویو میں کہا کہ پاکستان نے سعودی عرب کے کہنے پر اس سربراہ کانفرنس میں شرکت سے گریز کیا۔ اُن کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ سعودی عرب نے اس طرف جانے کی صورت میں 40 لاکھ پاکستانی محنت کشوں کو نکالنے اور سٹیٹ بینک آف پاکستان میں رکھوائی جانے والی ڈپازٹس نکالنے کی دھمکی بھی دی تھی۔
تین ماہ قبل جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران وزیر اعظم عمران خان نے انتہائی پُرجوش انداز سے اسلامو فوبیا کی بات کی تھی اور اس حوالے سے دنیا بھر میں مسلمانوں کو درپیش مسائل کا ذکر کیا تھا۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ چار نمایاں مسلم ریاستیں مل کر اسلامو فوبیا کے تدارک کی خاطر موثر پلیٹ فارم قائم کریں گی۔ اُن کا اشارہ ممکنہ طور پر پاکستان کے علاوہ ترکی‘ ملائیشیا اور کسی عرب ریاست کی طرف تھا۔ سرِ دست یہ تصور بھی محال ہے کہ کوئی عرب ریاست امریکا اور مغرب کے خلاف جائے۔
مغرب کی بالا دستی اور مسلم دنیا سے اُس کے معاندانہ رویے کے خلاف ترکی‘ ملائیشیا اور ایران نے ڈٹ کر آواز بلند کی ہے۔ ''چودھری صاحب‘‘ کو للکارنا ہمارے کچھ برادر اسلامی ممالک کو بظاہر اچھا نہیں لگا۔ کوالا لمپور سمٹ سے چند روز قبل وزیر اعظم عمران خان کا سعودیہ اور آرمی چیف کا یو اے ای جانا کچھ اتنا ناقابلِ فہم بھی نہیں ہے۔ پاکستان کوالا لمپور سمٹ میں جانے کو تیار تھا‘ مگر جب مغرب نے دیکھا کہ وہاں تو اُس کے نظام کو چیلنج کیا جائے گا‘ تو اُس نے وزیر اعظم عمران خان کی شرکت رکوائی۔
کوالا لمپور سمٹ میں اسلامو فوبیا کے حوالے سے جو کچھ کہا گیا‘ وہ اُتنا خطرناک نہ تھا ‘جتنا خطرناک معاشی و مالیاتی نظام سے متعلق اعلان تھا۔ اس سربراہ کانفرنس میں تجویز پیش کی گئی کہ مسلم ممالک سونے کی اشرفیوں کے عوض یا پھر مال کے بدلے مال کی بنیاد پر تجارت کریں۔ اس تجویز پر عمل ڈالر‘ پاؤنڈ اور یورو پر انحصار کم کرنے کی راہ پر گامزن ہونے کے مترادف ہے۔
ایران‘ ایک زمانے سے مال کے بدلے مال کے اصول کی بنیاد پر بین الاقوامی تجارت کر رہا ہے۔ چین بھی چھوٹے اور کم ترقی یافتہ ممالک پر زور دیتا ہے کہ وہ دو طرفہ تجارت میں متعلقہ کرنسیوں کو بروئے کار لائیں۔ روس بھی مال کے بدلے مال کی بنیاد پر تجارت کو ترجیح دیتا ہے۔ یہ سب کچھ مغرب کو قبول نہیں۔
کوالا لمپور سمٹ میں شرکت نہ کرنے کا یہ جواز گھڑا گیا ہے کہ پاکستان مسلم اُمہ کو تقسیم سے بچانا چاہتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان دو‘ بلکہ تین چار کشتیوں میں سفر کر رہا ہے۔ مغرب چاہتا ہے کہ عالمی نظام پر اُس کی گرفت مضبوط رہے۔ وہ ترقی پذیر اور پس ماندہ ممالک کو چین کے کلیدی کردار کے ساتھ ابھرنے والے نئے بلاک کی طرف جانے سے روک رہا ہے۔ اس مقصد کا حصول یقینی بنانے کے لیے لالچ کے ساتھ ساتھ دھونس دھمکی سے بھی کام لیا جارہا ہے۔
ایک دور تھا کہ امریکا اور یورپ کے مقابل کوئی ایسی قوت نہ تھی‘ جسے قابلِ اعتماد قرار دیا جاسکے۔ اب‘ چین کے ساتھ ترکی ہی نہیں‘ روس بھی ہے۔ ایسے میں بہت سوچنے‘ تذبذب کی دلدل میں پھنسے رہنے اور پیچھے ہٹنے کی کیا ضرورت ہے؟ اس صورتِ حال نے ہمیں 1980 ء میں مُنی بیگم کی گائی ہوئی ایک غزل یاد دلادی‘جس کا مطلعے کا پہلا مصرعہ ہے: ع
ابھی تو میں جوان ہوں
پاکستان کے لیے بھی وقت کا یہی پیغام ہے کہ جب چین و ترکی کی مہربانی سے لوہا گرم ہو ہی چکا ہے تو بھرپور ضرب لگانے میں تاخیر و تساہل سے کام نہ لیا جائے۔ یہ صورتِ حال طلسمات کے مانند ہے۔ امریکا اور یورپ کی وحشت زدہ آوازیں پیچھا کرتی رہیں گی۔ ڈرنا منع ہے۔ اب ‘دل مضبوط کرکے چلنا ہے‘ مُڑ کر نہیں دیکھنا۔ حالات کی نوعیت ایسی ہے کہ مُڑ کر دیکھنے کی صورت میں پتھر کا ہو جانے کا احتمال ہے۔