ہر زمانے اور ہر خطے کے فلسفی ''ابھی اور اِسی وقت‘‘ پر زور دیتے آئے ہیں۔ مذہبی تعلیمات کا ایک بڑا حصہ بھی انسان سے کہتا ہے کہ وہ جو کچھ بھی کرے‘ اُس پر پوری توجہ دے اور اگلے یا پچھلے زمانے کے بارے میں سوچنے سے گریز کرے۔ حقیقی سُکون کے حصول کا یہی ایک کارگر طریقہ ہے۔
انسان کا ایک بنیادی مسئلہ اور مخمصہ یہ ہے کہ وہ گزرے ہوئے یا آنے والے زمانوں میں رہنے کو ترجیح دیتا ہے۔ جو کچھ اس وقت ماحول میں ہو رہا ہے اور جو کچھ وہ خود بھی کر رہا ہوتا ہے‘ اُس پر خاطر خواہ توجہ مرکوز رکھنے سے کہیں بڑھ کر وہ ایسی باتوں کو اہمیت دیتا ہے ‘جن کا صورتِ حال سے بالکل یا کچھ خاص تعلق نہیں ہوتا۔
ہر دور کا انسان اپنے دور سے ہٹ کر جینے میں اِس لیے دلچسپی لیتا رہا ہے کہ اُس کی نظر میں یا تو وہ خوبصورت تھا جو ہوچکا ہے یا وہ خوبصورت ہوگا ‘جو کبھی ہوگا۔ جون ایلیا نے اِس بات کو یوں بیان کیا ہے: ؎
ہم نے جانا تو ہم نے یہ جانا
جو نہیں ہے وہ خوب صورت ہے!
ہارورڈ یونیورسٹی کے لیے ایک سٹڈی میں پروفیسر میتھو اے کلنگزورتھ اور ڈاکٹریٹ کے طالب علم ڈینیل ٹی گلبرٹ نے 2250 رضاکاروں کی مدد سے ثابت کیا ہے کہ انسان جب جاگ رہا ہوتا ہے‘ تب اپنے وقت کا 47 فیصد ایسی سرگرمیوں کے بارے میں سوچنے پر ضائع کرتا ہے ‘جو نہیں ہو رہی ہوتیں۔ ایسا اس لیے ہے کہ بھٹکنا انسانی ذہن کا بنیادی خاصہ ہے۔ یہی وہ خاصا ہے ‘جو بیشتر انسانوں کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنتا ہے۔ جو لوگ ذہن کے اس خاصے کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہتے ہیں ‘وہ زندگی بھر مسائل کا سامنا کرتے رہتے ہیں۔
میتھیو کلنگزورتھ اور ڈینیل گلبرٹ نے 2250 رضا کاروں کا انتخاب مختلف شعبوں سے کیا۔ اُن کی عمریں 18 سے 88 سال کے درمیان تھیں۔ کم و بیش 22 سرگرمیوں کا احاطہ کیا گیا۔ اس سٹڈی کے دوران مجموعی طور پر ڈھائی لاکھ سے زائد ڈیٹا پوائنٹس کا تجزیہ کیا گیا۔ دونوں محققین نے ''آئی فون ویب ایپ‘‘ کا سہارا لیا۔ محققین نے پایا کہ انسان کو سب سے زیادہ مسرّت خلوت کے لمحات میں‘ دلچسپ اور موضوع پر مرکوز گفتگو کے دوران یا پھر ورزش کرتے ہوئے محسوس ہوتی ہے اور انسان سب سے زیادہ ناخوش آرام‘ کام یا پھر ہوم کمپیوٹر کے استعمال کے دوران ہوتا ہے۔
بھٹکتا ہوا ذہن کسی بھی اعتبار سے پُرمسرّت قرار نہیں دیا جاسکتا۔ جاگتی آنکھوں سے دیکھنے والے خواب انسان کو کچھ نہیں دیتے۔ ''ڈے ڈریمنگ‘‘ کے سوئمنگ پول میں غوطہ خوری کرنے والے بالآخر بے عملی کے سمندر میں غرق ہو رہتے ہیں۔ عام آدمی کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ بیداری کی حالت میں کچھ کر رہا ہو‘ تب بھی اور نہ کر رہا ہو‘ تب بھی اُن سرگرمیوں کے بارے میں سوچتا رہتا ہے ‘جو ہوچکی ہیں‘ یا پھر اُن سرگرمیوں کا خیال اُسے ستاتا رہتا ہے ‘جو ہوں گی اور اِس سے بھی بڑھ کر یہ کہ انسان اُن واقعات کے بارے میں بھی سوچتا رہتا ہے ‘جن کے رونما ہونے کا سِرے سے امکان ہی نہیں!
میتھیو کلنگزورتھ اور ڈینیل گلبرٹ نے اپنی سٹڈی سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ذہن کا بھٹکنا مسرت سے محرومی کا نتیجہ نہیں‘ بلکہ سبب ہے! ہم زندگی بھر مسرت کے حصول کے خواہش مند رہتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ وہ سب کچھ بھی کرتے رہتے ہیں ‘جو ہمیں مسرت سے زیادہ سے زیادہ دور لے جاتا ہے۔ یہ تضاد زندگی کا حلیہ بگاڑ دیتا ہے۔ ہر معاشرے میں ایسی ہزاروں‘ لاکھوں مثالیں بکھری پڑی ہیں۔
کسی بھی انسان کو اگر حقیقی ترقی کرنی ہو تو لازم ہے کہ وہ لمحۂ موجود کو سب سے بڑھ کر جانے۔ جو کچھ ہم کر رہے ہوتے ہیں‘ وہ ہماری پوری توجہ کا طالب ہوتا ہے۔ اگر ہم خاطر خواہ توجہ مرکوز نہ کریں تو کام کا معیار بلند نہیں ہوتا اور ہمیں اپنی ہی کارکردگی سے بیزاری سے محسوس ہونے لگتی ہے۔ فی زمانہ ایسے بہت سے معاملات ہیں جو ذہن کو کہیں سے کہیں لے جاتے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے حوالے سے غیر معمولی‘ بلکہ عقل کو دنگ کردینے والی پیش رفت نے ایسا بہت کچھ ہمارے سامنے لا کھڑا کیا ہے‘ جو ذہن کو آسانی یکسو ہونے ہی نہیں دیتا۔ اس کے نتیجے میں کام کی باتیں ایک طرف پڑی رہ جاتی ہیں اور غیر متعلق یا غیر ضروری باتوں پر اچھا خاصا وقت ضائع ہو جاتا ہے۔
ذہن کا بھٹک جانا ہر دور میں ایک مسئلہ رہا ہے‘ مگر اب یہ ایک باضابطہ پیچیدہ مرض اور سنگین بحران کی شکل اختیار کرگیا ہے۔ آج کے انسان کو ذہن کی آوارہ گردی روکنے کے لیے خاصی تگ و دَو کرنا پڑتی ہے۔ دنیا بھر میں یکسوئی اور انہماک یقینی بنانے سے متعلق کی جانے والی کوششیں اب‘ ہنر کا درجہ اختیار کرچکی ہیں۔ ترقی یافتہ اور پس ماندہ ہر دو طرح کے معاشروں میں لوگوں کو یکسو رہنے کا ہنر سیکھنا پڑتا ہے۔ اس حوالے سے نصاب بھی تشکیل دیئے گئے ہیں اور ماہرین کی ایک فوجِ ظفر موج ہے جو ذہن کو بھٹکنے سے بچانے کی تگ و دَو میں مصروف افراد کی مدد کے لیے تیار رہتی ہے۔ دنیا بھر میں کروڑوں افراد یکسوئی سے محروم ہیں۔ ترقی پذیر اور پس ماندہ ممالک میں یہ مسئلہ زیادہ سنگین ہے۔ پس ماندہ اور ترقی پذیر معاشروں میں بہت سے معاشی اور معاشرتی عوامل انسان کو بھرپور یکسوئی کی منزل تک پہنچنے سے روکتے ہیں۔ عام آدمی کو زندگی کا توازن برقرار رکھنے اور کیریئر کے حوالے سے آگے بڑھنے میں غیر معمولی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ہر معاشرے میں مسابقت بڑھتی جارہی ہے۔ زندگی کی مجموعی پیچیدگی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ اب ‘کسی کے لیے بھی معیاری زندگی بسر کرنا کھیل نہیں رہا‘ جنہیں کچھ بننا ہو‘ کچھ کر دکھانا ہو ‘اُن کے ذہن پر غیر معمولی دباؤ ہوتا ہے۔ غیر متعلق باتوں اور سرگرمیوں میں الجھ کر وقت ضائع کرنے کی روش ترقی پذیر اور پس ماندہ معاشروں میں عام ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ معاملہ سنگین سے سنگین تر ہوتا جارہا ہے۔ ایسے میں ذہن کو بھٹکنے سے بچانے کا ہنر سیکھنا ہر اُس انسان کے لیے لازم ہے‘ جو اپنے وجود کو منوانا چاہتا ہے۔ ٹیکنالوجی کی پیش رفت قیامت خیز رفتار سے جاری ہے۔ آج ہماری زندگی میں ایسا بہت کچھ ہے ‘جو ہمیں طے کردہ سمت سے ہٹانے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ غیر متعلق اور یکسر غیر اہم سرگرمیوں اور باتوں میں ذہن کا الجھ جانا عام ہے۔ جو لوگ اس معاملے میں ذہن کو ڈھیلا چھوڑ دیتے ہیں‘ اُنہیں عام طور پر خسارے میں دیکھا گیا ہے۔
وقت کا تقاضا ہے کہ لمحۂ موجود میں زندہ رہنے کی عادت ڈالی جائے۔ بیداری کی حالت میں انسان کو زیادہ سے زیادہ وقت اُن سرگرمیوں پر متوجہ رہتے ہوئے صرف کرنا چاہیے ‘جن سے اُس کی کارکردگی کا گراف بلند ہوتا ہو۔ جو کچھ ہوچکا ہے یا ہوگا وہ ہمارے لیے کسی بھی اعتبار سے اولین ترجیح کا حامل نہیں ہوسکتا۔ یکسوئی ممکن بنانے کی ایک ہی صورت ہے ... یہ کہ انسان جو کچھ بھی کر رہا ہو‘ اُس پر خاطر خواہ توجہ دے اور باقی تمام معاملات کو کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھے۔ یکسو ذہن ہی ڈھنگ سے سوچ سکتا ہے۔ بھٹکا ہوا ذہن ہمیں مطلوب نتائج یقینی بنانے کی ڈگر سے بہت دُور لے جاکر ویرانوں میں چھوڑ دیتا ہے۔ اور کبھی کبھی اِن ویرانوں سے واپسی تقریباً ناممکن ہوتی ہے۔