"MIK" (space) message & send to 7575

آرزوؤں اور اُمیدوں کے گڑھے

حقیقت پسندی ایسا وصف ہے جس کی سنگت انسان کو خار زاروں سے نکال کر گل زاروں میں داخل کردیتی ہے۔ دنیا کا کارخانہ حقیقت پسندی کی بنیاد پر قائم ہے۔ ہر حقیقت اپنی طرف متوجہ ہونے کا تقاضا کرتی ہے۔ جو لوگ یہ تقاضا پورا کرتے ہیں وہ کامیاب رہتے ہیں۔ 
نفسی ساخت کا ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ اس میں بہت کچھ جمع ہوتا رہتا ہے۔ جو کچھ ہمارے لیے کارآمد ہو اُس کا ذہنی ساخت میں داخل ہونا خوش بختی ہے‘ مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنے ذہن میں ایسا بہت کچھ بھی داخل ہونے سے روک نہیں پاتے جو کسی بھی سطح پر ہمارے کسی کام کا نہیں ہوتا۔ فی زمانہ ہر انسان کے لیے ایک کام تو تقریباً لازم ہوکر رہ گیا ہے ... غیر متعلق اُمور میں الجھنے سے بچنے کی بھرپور کوشش کرنا۔ اور سچ تو یہ ہے کہ یہ کوشش اب ایک باضابطہ ہنر کا درجہ حاصل کرچکی ہے۔ 
ماحول کی بوالعجبی بڑھتی جارہی ہے۔ انہماک پر شدت کے ساتھ اثر انداز ہونے والے معاملات بڑھتے جارہے ہیں۔ خیالات میں انتشار کا تناسب بڑھتا جارہا ہے۔ اور اس کے نتیجے میں اعمال متاثر ہو رہے ہیں۔ یہ سب کچھ تقریباً ہر انسان کی زندگی پر شدید منفی اثرات مرتب کر رہا ہے۔ 
کسی بھی شعبے میں غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کرنا اب جُوئے شیر لانے کے مترادف ہوگیا ہے۔ مسابقت بڑھتی جا رہی ہے۔ اب ہر شعبہ صرف اُن کے لیے ہے جن میں محض صلاحیت و سکت ہی نہ ہو بلکہ کچھ کر دکھانے کا بھرپور جذبہ بھی پایا جاتا ہو۔ یہ جذبہ ہی طے کرتا ہے کہ کوئی کامیابی کی راہ پر کہاں تک جاسکے گا۔ کیریئر کے حوالے سے ایک بڑی الجھن یہ پائی جاتی ہے کہ لوگ ماحول سے متاثر ہوکر اُس جذبے سے محروم ہوتے جاتے ہیں جو صلاحیت و سکت کو بروئے کار لانے کے لیے لازم ہے۔ کام کرنے کی لگن برقرار رکھنا ہر اُس انسان کے لیے ایک بڑا مسئلہ ہے جو دوسروں سے بڑھ کر اور ہٹ کر کچھ کرنا چاہتا ہے۔ 
کسی بھی شعبے میں کچھ کر دکھانے کا معاملہ خواہش یا آرزو سے شروع ہوتا ہے۔ بیشتر افراد کا حوصلہ خواہش ہی کی منزل میں دم توڑ دیتا ہے۔ کچھ کرنے کی آرزو کو پروان چڑھانا اُسی وقت ممکن ہے جب ہم حالات پر نظر رکھیں اور اُن سے مطابقت رکھنے والی عادات کو بھی پروان چڑھائیں۔ ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ کوئی کچھ کر دکھانے کی خواہش رکھے اور غیر معمولی تیاری کیے بغیر کامیاب بھی ہو جائے۔ اگر کسی کو غیر معمولی محنت کے بغیر تھوڑی بہت کامیابی مل بھی جائے تو اُسے برقرار رکھنا بالعموم ممکن نہیں ہوتا۔ جب محنت سے حاصل شدہ کامیابی کا برقرار رکھنا ایک بڑا دردِ سر ہوتا ہے تو سوچیے کہ محنت کے بغیر‘ حالات کی مہربانی سے‘ مل جانے والی کامیابی کا برقرار رکھنا کتنا بڑا دردِ سر ثابت ہوتا ہوگا۔ 
دنیا کا ہر انسان بہت سی آرزوؤں کا حامل ہوتا ہے۔ وہ بہت کچھ پانا اور کرنا چاہتا ہے۔ ہر خواہش عمل کا تقاضا کرتی ہے۔ خواہش سے مطابقت رکھنے والی عمل پسندی یقینی بنانے کے لیے انسان کو اپنی ذات کی اصلاح کے مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہ سب کچھ انسان سے بڑے پیمانے پر قربانی اور ایثار کا طالب ہوتا ہے۔ اپنے آپ کو بدلنا ہر انسان کے لیے ایک جاں گُسل مرحلہ ہوتا ہے۔ کم ہی لوگ اس مرحلے سے بخوبی گزرنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ بہت سی آرزوئیں محض آرزوئیں ہی رہتی ہیں‘ ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ پاتیں۔ 
حالات کی روش کبھی کبھی ایسی شکل اختیار کرلیتی ہے کہ انسان کسی خواہش یا آرزو کو پروان چڑھانے کے بعد عمل کی طرف جانے کا سوچتا ہے تو مشکلات دیکھ کر حوصلہ ہار بیٹھتا ہے۔ اس مرحلے میں دل کی تسلّی و تشفّی کے لیے خوش فہمی اور خوش گمانی کی انٹری ہوتی ہے۔ جب انسان کچھ نہ کر پارہا ہو تو خوش فہمی کا سہارا لے کر کچھ دیر کے لیے دل بہلا لیتا ہے۔ یہ عمل رفتہ رفتہ عادات میں شامل ہو جاتا ہے۔ اگر ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ اکثریت کا چلن یہی ہے۔ فکر و عمل کی سطح پر جو کچھ کرنا چاہیے وہ کرنے کے بجائے ہم محض خوش فہمی کا سہارا لے کر کسی نہ کسی طور دل کو بہلانے میں مصروف رہتے ہیں۔ یہ سب کچھ جتنا آسان اور خوش کن لگتا ہے اُتنا ہی نقصان دہ ہے۔ 
جب ہم حقیقت پسندی کی راہ سے ہٹ جاتے ہیں تب غیر منطقی قسم کی خواہشات اور توقعات کے گڑھوں میں گر جاتے ہیں۔ ہمیں اس دنیا میں جو کچھ بھی ملتا ہے وہ صلاحیت و سکت اور لگن سے مطابقت رکھتا ہے۔ بالکل سامنے کی بات تو یہی ہے۔ ہاں‘ کبھی کبھی حالات پلٹا کھا جائیں تو کسی کو اُس کی صلاحیت و سکت سے بہت بڑھ کر بھی مل جاتا ہے مگر چونکہ ایسا چند ایک افراد کے ساتھ ہی ہوتا ہے اس لیے اسے اصول یا کلیے کے طور پر قبول نہیں کیا جاسکتا۔ ہر دور صرف اُن لوگوں کے لیے ہوتا ہے جو حقیقت پسندی کو نفسی ساخت کا حصہ بناتے ہیں۔ کسی بھی زمینی حقیقت کو نظر انداز کرنے یا چشم پوشی اختیار کرنے سے مشکلات میں صرف اضافہ ہوتا ہے۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں‘ کامیابی کے لیے لازم ہے کہ کسی بھی حقیقت (اور بالخصوص متعلقہ حقیقت) کو نظر انداز نہ کیا جائے۔ 
پاکستانی معاشرے میں ایسے لوگ بہ کثرت ہیں جنہیں بیداری کی حالت میں بھی خواب دیکھنے کی عادت ہے۔ جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھنا کسی کو راس نہیں آتا۔ کسی گوشۂ عافیت میں بیٹھ کر تصور کی آنکھ سے خود کو بہت کچھ کرتا ہوا دیکھنا بالکل آسان ہے کیونکہ اس کے لیے کچھ خرچ بھی نہیں کرنا پڑتا۔ یہ عادت رفتہ رفتہ پختہ ہوکر شدید اور تباہ کن بے عملی کی طرف لے جاتی ہے۔ کسی بھی شعبے میں بھرپور کامیابی محض خواہش کرنے اور سوچنے سے نہیں مل جاتی۔ اس کے لیے خود کو عمل کی کسوٹی پر پرکھنا پڑتا ہے۔ عمل کے میدان میں خود کو آزمانے سے قبل ذہن کو حقیقت پسندی کی راہ پر ڈالنا لازم ہے۔ کسی بھی بڑی اور بنیادی حقیقت کو نظر انداز کرنے سے ہمارا سفر کٹھن ہو جاتا ہے۔ 
انسان کے لیے کوئی بھی دور مشکلات سے خالی یا عاری نہیں ہوتا۔ ہر دور میں انسان کو بہتر زندگی کے حوالے سے چیلنجز کا سامنا رہا ہے۔ سب سے بڑا چیلنج ہے خود کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ رکھنا۔ اس کے لیے لازم ہے کہ انسان حقیقت پسند ہو اور محض افکار میں الجھے رہنے کے بجائے خود کو زیادہ سے زیادہ باعمل ثابت کرنے کے لیے کوشاں ہو۔ آرزوؤں اور اُمیدوں کے گڑھوں میں گرنے سے بچنے کی تگ و دَو ناگزیر ہے۔ حالات انسان کو سہل پسند بناتے ہیں اور ایک طرف بیٹھ کر سنہرے مواقع کا انتظار کرنے پر اکساتے ہیں۔ 
ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جو قدم قدم پر ہم سے محنت اور ایثار کا طالب ہے۔ آج کے انسان کو بہت کچھ اپنانا اور بہت کچھ ترک کرنا ہے۔ یاد رکھیے‘ محض آرزوؤں اور امیدوں کے دائرے میں گھومتے رہنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ حقیقت پسندی کو زندگی کی بنیادی قدر کے طور پر اپنائیے اور اپنے پورے وجود کو بھرپور جوش و خروش کے ساتھ بروئے کار لانے کی کوشش کیجیے۔ وقت آپ سے کسی بھی اور چیز سے کہیں بڑھ کر حقیقت پسندی کا تقاضا کرتا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں