"MIK" (space) message & send to 7575

رُکی رُکی سی زندگی ‘ مگر کیوں؟

ایک زمانے سے پاکستان کے طول و عرض میں شدید بے عملی کا دور دورہ ہے۔ بے عملی اور بہت سے معاشروں میں بھی ہے اور جہاں بھی یہ کیفیت ہے ‘وہاں صرف تباہی اور بربادی کا راج ہے۔ کیا ہم دیکھ نہیں رہے کہ ہمارے ہاں بھی ہر طرف انحطاط اور زوال ہے؟ یہ سب کچھ بے ذہنی اور بے عملی کے ہاتھوں ہے۔ دوسرے بہت سے معاملات کی طرح ہم نے بے عملی کو بھی اس طور اپنالیا ہے کہ اب ‘اس سے الگ ہونے کا تصور بھی نہیں کرتے۔ 
کسی بھی معاشرے نے حقیقی مفہوم میں ترقی اور خوش حالی ہموار کرنے میں کامیابی صرف اُس وقت پائی ہے جب اُس نے عمل کی راہ پر گامزن ہونے کی ٹھانی ہے۔ ایک قوم کی حیثیت سے ہم نے عمل کو ٹھکانے لگادیا ہے۔ کام کرنے کی بھرپور لگن ہم سے ایسی روٹھی ہے کہ من کر نہیں دے رہی۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ آج ہر شعبہ شدید انحطاط کی زد میں ہے۔ ہر موڑ پر کسی نہ کسی حوالے سے زوال دکھائی دے رہا ہے۔ 
بہت سے معاشروں نے صدیوں تک شدید انحطاط اور زوال جھیلنے کے بعد اپنے آپ کو نئی زندگی بخشنے کی ٹھانی اور پھر عمل کی راہ پر ایسے گامزن ہوئے کہ پھر مڑ کر نہیں دیکھا۔ امریکا اور یورپ (یعنی مغرب) کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ یورپ نے جہل کی تاریکی میں ہزار سال سے زیادہ مدت گزاری۔ ایک دور تھا کہ یورپ ہی میں واقع یونان نے دنیا کو دانش کا خزانہ بخشا۔ جدید (فطری) علوم و فنون کی بنیاد بھی یونان کے اہلِ علم ہی نے رکھی‘ پھر دنیا نے اُن کی پیروی کی اور آگے بڑھی۔ اہلِ عرب نے یونان کی دانش سے اکتسابِ فیض کرتے ہوئے دنیا کو بہت کچھ دیا۔ علم اور تحقیق کے میدان میں بہت کچھ کیا۔ اس کے نتیجے میں عرب دنیا کو ایک خاص مدت کے لیے کسی حد تک دنیا کی امامت کا اعزاز بھی ملا۔ دنیا کی امامت کا برقرار رکھنا بہت سی قربانیاں مانگتا ہے۔ اس کے لیے نئے سانچے میں ڈھلنا پڑتا ہے۔ ہم ایسا نہ کرسکے۔ چشمِ فلک نے جن مسلمانوں کو ہر معاملے میں دنیا کی امامت کرتے ہوئے دیکھتا تھا‘ اُنہی مسلمانوں کو شرم ناک حد تک زوال سے دوچار بھی دیکھا ‘ بلکہ دیکھ رہی ہے! 
انسان کے چند بڑے المیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ سب کچھ دیکھنے کے باوجود آسانی سے کوئی سبق نہیں سیکھتا۔ ہر دور کے انسان نے بہت کچھ دیکھا ہے‘ مگر اُس میں سے بہت کچھ اَن دیکھا کیا ہے۔ جو کچھ سیکھنا چاہیے‘ وہ سیکھا نہیں جاتا اور ہر غیر متعلق معاملے میں دلچسپی لینے کو فرض کا درجہ دیا جاتا رہا ہے۔ 
جن معاشروں کو آج ہم کسی قابلِ ذکر مقام پر دیکھ رہے ہیں‘ اُنہیں بہت کچھ یونہی‘ کچھ کیے بغیر نہیں مل گیا۔ ترقی اور خوش حالی کی راہ صدیوں کی محنت ِ شاقہ کے نتیجے میں ہموار ہوتی ہے۔ یہ اصول ہر اُس قوم اور معاشرے کو اپنانا پڑتا ہے‘ جس نے کچھ کرنے کی ٹھان لی ہو۔ عشروں‘ بلکہ صدیوں کی محنت کے نتیجے میں عمل پسندی پروان چڑھتی ہے اور معاشرے پنپتیہیں۔ من حیث القوم ہماری خواہش یہ ہے کہ بہت کچھ ہاتھ پیر ہلائے بغیر ہی مل جائے۔ ایسا ہو نہیں سکتا‘ کیونکہ جس نے یہ کائنات خلق کی ہے ‘اُس کا یہ اصول ہے ہی نہیں۔ جو محنت کرتا ہے‘ پاتا ہے۔ جو محنت سے جی چراتا ہے‘ وہ پیچھے رہ جاتا ہے۔ 
آج کا پاکستانی معاشرہ تھم کر رہ گیا ہے۔ روز و شب گزر تو رہے ہیں‘ مگر معاملہ صرف گزرنے تک محدود ہے۔ کسی بھی حوالے سے ایسی کارکردگی سامنے نہیں آرہی‘ جسے حقیقی مفہوم میں پیش رفت قرار دیا جاسکے۔ پژمردگی ہے کہ جان نہیں چھوڑ رہی۔ زندگی کا ہر معاملہ‘ ہر پہلو بے حِسی کے گھیرے میں ہے۔ 
بے عملی‘ اگر معاشرے کے عمومی چلن کا درجہ حاصل کرچکی ہو تو بہت کچھ داؤ پر لگ جاتا ہے۔ ایسے میں بنتے کام بھی بگڑتے ہیں۔ جہاں عمل کو اولین ترجیح کا درجہ نہ دیا جاتا ہو‘ وہاں معاملات گہری کھائی میں گِرے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ 
بے عملی سے خوف اور تذبذب پروان چڑھتا ہے۔ جہاں شدید نوعیت کی بے عملی ہو‘ وہاں لوگ بیشتر معاملات میں اٹک کر رہ جاتے ہیں۔ کچھ نہ کرنے کا چلن ذہن کو بُری طرح الجھا دیتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ معاملات اپنے آپ میں بھی اور آپس میں بھی الجھتے ہی چلے جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ صرف ایک صورت میں ختم کیا جاسکتا ہے ۔ یہ کہ عمل کو زندگی کی بنیادی قدر کے طور پر اپنایا جائے‘ کچھ کر گزرنے کی ٹھانی جائے اور پھر اس عزم کو عملی جامہ پہنانے کی فکر کو حواس پر طاری کرلیا جائے۔ 
کسی بھی نوعیت اور سطح کے تذبذب اور خوف کو ہرانا ہے تو عمل کو جان و دل سے اپنائیے۔ عمل وہ وصف ہے‘ جس کی بدولت ہمت اور اعتماد دونوں کو بڑھاوا ملتا ہے۔ جب ہم کسی بھی حوالے سے عمل کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں تو کچھ کرنے کا حوصلہ پروان چڑھتا ہے۔ اس حوصلے کی بدولت ہچکچاہٹ دور ہوتی ہے اور ہم زیادہ سے زیادہ پُرعزم ہوکر آگے بڑھتے ہیں۔ 
بہت سے معاملات میں ہمارا خوفزدہ ہو جانا کسی بھی اعتبار سے غیر فطری کہا جاسکتا ہے‘ نہ حیرت انگیز۔ جن معاملات کے بارے میں ہم نہ جانتے ہوں اُن کے حوالے سے خوف میں مبتلا ہونا بالکل فطری امر ہے۔ خوف بجائے خود یکسر منفی حقیقت نہیں۔ یہ خوف ہی ہے جو ہمیں بہت سے معاملات میں کچھ نہ کچھ سیکھنے‘ سوچنے اور کرنے کی تحریک دیتا ہے۔ بہت سے مواقع پر ہم خوف میں مبتلا ہونے ہی پر خود کو عمل پسند ثابت کرنے کی طرف جاتے ہیں۔ خوف ہی ہمیں عمل کی راہ پر گامزن کرتا ہے اور آگے بڑھنے کی تحریک دیتا ہے۔ 
اگر آپ کسی بھی نوعیت کے خوف کو شکست دینا چاہتے ہیں تو سوچنا چھوڑیے‘ باہر نکلیے اور مصروف ہو جائیے۔ کسی بھی حوالے سے اپنائی جانے والی مصروفیت انسان کو نئی راہیں سُجھاتی ہے۔ مصروف رہنے کی صورت میں انسان غیر ضروری معاملات پر غور کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتا۔ غیر مصروف ذہن شیطان کا کارخانہ ہوتا ہے۔ جب انسان کچھ نہیں کر رہا ہوتا‘ تب غیر ضروری معاملات کے حوالے سے سوچتا رہتا ہے۔ ضروری معاملات انسان کو عمل کی طرف مائل ہونے کی تحریک دیتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ بہت سے لوگ ذہن کو غیر ضروری معاملات میں الجھاکر ایک طرف بیٹھ رہنا پسند کرتے ہیں۔ 
رکی رکی سی‘ تھمی تھمی سی‘ گوشہ نشینی اختیار کرلینے والی زندگی کو اگر کوئی نیا انداز بخشنا ہے اور اپنے آپ کو منوانا ہے تو لازم ہے کہ عمل پسندی کا وصف پورے جوش و خروش کے ساتھ اپنایا جائے۔ اس وقت پاکستانی قوم کو عمل پسند ذہنیت اپنانے کی اشد ضرورت ہے۔ عشروں کی بے ذہنی و بے عملی نے ہمیں کم و بیش ہر معاملے میں تباہی کے گڑھے تک پہنچا دیا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم اِس گڑھے میں جا گِریں اور پھر باہر نکلنے میں ایک زمانہ لگ جائے‘ اچھا ہے کہ ہم بے حِسی کی چادر اتار پھینکیں اور زندگی پر طاری جمود کو ختم کرنے کے لیے عمل کی راہ پر یوں گامزن ہوں کہ دنیا دیکھے بھی اور سراہے بھی۔ یہ سب کچھ ایسا آسان ہرگز نہیں جیسا دکھائی دیتا ہے۔ بے عملی چھوڑ کر عمل کی طرف آنے کے لیے ذہنی اور جسمانی دونوں طرح کی تیاری چاہیے۔ وقت آگیا ہے کہ ہم انفرادی اور اجتماعی زندگی پر چھائے ہوئے جمود سے شدید نفرت کریں ‘تاکہ عمل کی دنیا ہمیں اپنا بنائے‘ گلے سے لگائے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں