ہماری نیتیں اور اعمال اپنی جگہ اور قدرت کے منصوبے اپنی جگہ۔ ہم بہت کچھ سوچتے اور کرتے ہیں۔ سارا جھگڑا سوچ ‘یعنی نیت ہی کا تو ہے۔ قدرت ہم سے خالص سوچ چاہتی ہے‘ لگی لپٹی رکھے بغیر اپنائی جانے والی نیت کی طالب ہے ‘مگر ہم ''متعلقات‘‘ سے آزاد ہو ہی نہیں پاتے اور ہوں بھی کیسے؟ اس کا ارادہ کیا جاتا ہے‘ نہ عمل کے میدان میں قدم رکھا جاتا ہے۔
اگر پوری دیانت اور غیر جانب داری سے جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ چار پانچ صدیوں سے انسان اپنے لیے غیر معمولی آسائشوں کا اہتمام کرنے میں کامیاب رہا ہے‘ مگر اس سے کہیں بڑھ کر اُس نے اپنے لیے مشکلات بھی تو یقینی بنائی ہیں۔ یہ چار پانچ صدیاں انسان کو خالص مادّہ پرست بناتی گئی ہیں۔ دُنیا کو پانے کی ہوس انسانی جبلت کے انتہائی بنیادی جُز کا درجہ رکھتی ہے۔ غار کے زمانے کا انسان بھی اپنی ذات سے آگے دیکھتا تھا نہ سوچتا تھا۔ آج کا انسان بھی ویسی ہی ذہنیت کا حامل ہے۔ تو کیا انسان نے فکری ارتقاء کے چار پانچ ہزار سال کے عمل میں اصلاً کچھ بھی نہیں سیکھا؟ آج کے انسان کو اس بنیادی سوال پر غور کرنا ہی چاہیے۔
فطری علوم و فنون میں تیز رفتار ترقی ممکن بنانے کا سلسلہ جب سے شروع ہوا ہے تب سے انسان کی زندگی میں سہولتوں کا گراف بلند ہوتا گیا ہے۔ یہ عمل دنیا بھر کے انسانوں کو بہتر زندگی کی طرف لے جاتا دکھائی دیا ہے۔ یہ بات بالکل درست ہے‘ مگر اس کے ساتھ یہ بھی تو درست ہے کہ انسان کیلئے زندگی کا غیر مادّی یا نفسی و روحانی پہلو کمزور ہوتا گیا ہے۔ یہ کمزوری اس لیے ہے کہ انسان نے اس حوالے سے سوچنے کو داغِ مفارقت دے دیا ہے۔ یہ المیہ نہیں تو کیا ہے کہ جن اقدار کو بھولنے یا ترک کرنے کے نتیجے میں ساری خرابیاں پیدا ہوئی ہیں اُنہی اقدار کے بارے میں سوچنے کی تحریک دیجیے تو آج کا انسان بدکنے لگتا ہے! جن خرابیوں نے زندگی کا پورا نظام تلپٹ اور چوپٹ کردیا ہے اُن خرابیوں کو خرابی کی حیثیت سے تسلیم کرنے ہی پر کوئی آمادہ نہیں! تقدیر نے ہمارے لیے پتا نہیں کیا کیا سوچ رکھا ہے‘ مگر ہم اب تک انتہائی بنیادی جبلّی تقاضوں کے دائرے میں گھوم رہے ہیں۔ حقیقت پسندی سے کسی کو جیسے کچھ علاقہ ہی نہیں رہا۔
خواہشات ہمیں یوں گھیرے ہوئے ہیں کہ زمینی حقیقتوں تک نظر جاتی ہی نہیں اور طرفہ تماشا یہ ہے کہ نظر کسی نہ کسی طور خواہشات کے دائرے سے نکل زمینی حقیقتوں تک چلی بھی جائے تو ہم دیکھے کو اَن دیکھا کرتے ہوئے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ آنکھیں اپنا کام کرتی ہیں‘مگر ہم وہ دیکھنا چاہتے ہیں ‘جو ذہن میں چل رہا ہوتا ہے۔ یہ تو آنکھوں کے لیے عذاب کی کیفیت ہوئی۔وقت نے ایک بار پھر ثابت کردیا ہے کہ فطری علوم و فنون میں پیش رفت کی کوئی بھی (بلند ترین) سطح ہمارے مسائل کو نا صرف یہ کہ حل نہیں کرتی‘ بلکہ (درست سوچ کے فقدان کے باعث) مزید الجھا دیتی ہے۔ فطری علوم و فنون کا ارتقا انسان کیلئے آسانیاں پیدا کرنے کی غرض سے ہوا کرتا ہے‘ مگر یہ کیا کہ اس ارتقا کے بطن سے‘ نفسی و روحانی سطح پر‘ محض الجھنیں ہویدا ہیں! چار پانچ صدیوں کے دوران مادّی ترقی کی امامت مغرب کے ہاتھ میں رہی ہے۔ آج ہماری زندگی میں آسائش اور سہولت پیدا کرنے والی جو اشیا بھی دکھائی دے رہی ہیں ‘انہوں نے انتہائی ارتقائی شکل مغرب کی محنت کے نتیجے میں پائی ہے۔ مغرب نے زندگی کا مادّی پہلو آسان بنانے پر توجہ ہی نہیں دی‘ محنت بھی کی ہے‘ مگر معاملہ یہیں تک تو ہے۔ زندگی کے مادّی پہلو کو زیادہ سے زیادہ پُر آسائش بنانے کی تگ و دَو میں مغرب نے زندگی کا روحانی پہلو مکمل طور پر نظر انداز کردیا ہے۔ ہر معاملے کی مِٹّی کو خالص مادّہ پرستی کے چاک پر گھماکر جو کچھ بنانے کی کوشش کی گئی ہے ‘وہ افادیت کے لحاظ سے بہت حد تک لاحاصل ہے اور زیادہ دیر ٹِکنے والا بھی نہیں۔
دنیا کو زیادہ سے زیادہ پانے کیلئے ہر دور کے انسانوں میں شرمناک حد تک کشمکش ہوتی رہی ہے۔ یہ دنیا کو پانے کی ہوس ہی تو ہے‘ جس نے جنگوں کو راہ دی۔ دنیا کو اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھالنے اور اپنے لیے زیادہ سے زیادہ آسائش یقینی بنانے کی خاطر معاشرے باہم متصادم و متحارب رہے ہیں‘ قتل و غارت کا بازار گرم رہا ہے۔
تاریخ کا ہر دور چند بڑی قوتوں کے درمیان تصادم سے عبارت رہا ہے۔ دنیا ایک بار پھر بڑی طاقتوں کے درمیان غیر معمولی نوعیت کی رسا کشی دیکھ رہی ہے۔ چند طاقتیں اپنی بالا دستی کو کسی نہ کسی طور حتمی اور دیرپا بنانے پر تُلی ہیں اور اس کشمکش نے باقی دنیا کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ ہر دور بڑی طاقتوں کے وضع کردہ ایسے نظام کا حامل رہا ہے‘ جس کے تحت دنیا کو چلایا جاتا ہے‘ اسی کو عالمی نظام کہتے ہیں۔ کم و بیش چار صدیوں تک یورپی طاقتوں نے دنیا کو اپنی مرضی کے تحت چلایا۔ جب قدرت کے قانون کے مطابق یورپی طاقتوں میں مطلوب حد تک دم خم نہ رہا تب دنیا کو چلانے کا موقع قدرت نے امریکا کو دیا۔ اُس نے دوسری جنگ عظیم کے بعد سے اب تک دنیا کو اپنی مرضی کے مطابق چلایا‘ عالمی نظام طاقتوں کی مرضی ہی کا عکاس ہوتا ہے۔
اب طُرفہ تماشا یہ ہے کہ جس طور دھماکے کے نتیجے میں بہت دور تک تباہی واقع ہوتی ہے اور دھماکے کے اثرات ایک خاص دائرے میں لازمی پھیلتے ہیں بالکل اُسی طرح جدید ترین علوم و فنون میں پیش رفت بھی دھماکے سے مماثل ہے۔ مغرب نے یہ معاملہ چار پانچ صدیوں تک اپنے ہاتھ میں رکھا۔ اب‘ اُس کی اجارہ داری یا قطعی نوعیت کی بالا دستی ممکن نہیں رہی۔ چین اور بھارت نے خود کو مضبوط کیا ہے۔ روس بھی اپنی حیثیت دوبارہ منوانے کیلئے پَر تول رہا ہے۔
بڑوں کی لڑائی نے بہانے ڈھونڈنے کا عمل شروع کیا ہے۔ کورونا وائرس بھی ایک ایسا ہی جامع بہانہ ہے۔ لاک ڈاؤن کے ذریعے عالمی معیشت کا پہیہ روک کر بہت کچھ دیکھا‘ جانچا اور پرکھا گیا ہے۔ دنیا بھر میں جن کی بات کبھی سُنی اور سمجھی نہیں گئی اُن غریبوں کو اس لاک ڈاؤن نے مزید ڈاؤن کردیا ہے۔ اُن کی امیدوں کا سگنل گرگیا ہے۔ بڑی کی مخاصمت نے چھوٹوں کو ایک بار پھر تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ حالات ایک بار پھر دانش اور وسیع النظری کا تقاضا کر رہے ہیں۔ دیکھیں بڑوں میں اس تقاضے کے مطابق ‘جینے کی توفیق کب تک پیدا ہوتی ہے۔