"MIK" (space) message & send to 7575

بہانوں کو ’’قرنطینہ‘‘ کیجیے !

مملکتِ خدادادِ پاکستان کو اَن گنت نعمتوں سے نوازا گیا ہے۔ دریا بھی اللہ کی نعمت ہیں کہ پانی ہم تک پہنچاتے ہیں ‘جس کے نتیجے میں ہم کھیتی باڑی بھی کرتے ہیں اور پینے کا صاف پانی حاصل کرنے میں بھی آسانی سے کامیاب ہو پاتے ہیں۔ ہم بات کر رہے ہیں‘ اُن دریاؤں کی ‘جو اللہ کے بخشے ہوئے ہیں۔ ان دریاؤں میں پانی بہتا ہے۔ ملک میں خیر سے ایک ایسا دریا بھی ہے‘ جو ہر وقت بھرا رہتا ہے‘ مگر اُس میں پانی نہیں ہوتا ہے۔ یہ ہے بہانوں کا دریا! اس دریا کی روانی میں کبھی کمی نہیں آتی ہے۔ یہ دریا بھرا بھی رہتا ہے اور تیزی سے رواں بھی رہتا ہے‘ یعنی غوطے کھائیے‘بہتے جائیے۔ 
ایک زمانے سے ہم ہر اُس سرگرمی میں غیر معمولی دلچسپی لیتے آئے ہیں ‘جس کے نتیجے میں حاصل کچھ نہ ہوتا ہو اور صرف وقت ضائع ہوتا ہو۔ کوئی بھی غیر معمولی کام کرنے کے لیے غیر معمولی سنجیدگی درکار ہوتی ہے۔ کامیابی کا بھی یہی معاملہ ہے‘ اگر بڑی اور متاثر کن کامیابی حاصل کرنی ہو تو اُس کی مناسبت سے محنت بھی کرنی پڑتی ہے۔ اب معاملہ یہ ہے کہ لوگ محنت کرنا نہیں چاہتے اور مثالی کامیابی کے متمنی رہتے ہیں۔ ایسا ہو تو کیسے ہو؟ہم سوچتے ہی نہیں کہ دنیا کہاں تھی اور کہاں پہنچ گئی ہے۔ کل تک پس ماندہ کہلانے والی اقوام آج ستاروں پر کمند ڈالنے کی باتیں کر رہی ہیں۔ کئی خطے کسی شمار میں نہ تھے‘ مگر آج دنیا اُن کی طرف دیکھ رہی ہے۔ ایسا کیسے ہوگیا؟ کیا یہ سب کچھ خود بخود ہو رہا ہے؟ یقینا نہیں۔ بدلتا کچھ بھی نہیں‘ بدلنا پڑتا ہے۔ یہی دنیا کی ریت ہے‘ یہی کائنات کا اصول ہے۔ 
بہت کچھ ایسا ہے ‘جس سے ہم چھٹکارا پانے میں کامیاب نہیں ہو پارہے۔ بہانوں کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ لوگ دن دن بھر بیٹھے رہتے ہیں۔ کچھ کام کہیے تو جواب ملتا ہے کہ جناب وقت نہیں ! ممکن ہے کہ ہم آپ ہی غلط ہوں‘ ہوسکتا ہے وہ یہ کہنا چاہ رہے ہوں کہ کچھ کرنے کا وقت ابھی نہیں آیا! آگے جانے کے لیے بہت کچھ پیچھے چھوڑنا پڑتا ہے۔ بہت سی عادتیں ترک کرنی پڑتی ہیں۔ اپنے آپ کو بہت بدلنا پڑتا ہے اور ہم ہیں کہ کسی بھی سطح پر‘ کسی بھی درجے میں خود کو بدلنے کے لیے تیار نہیں۔ جب بھی کوئی کہیں اصلاحِ نفس کی بات کرتا ہے تو لوگوں کے پاس بہانہ تیار ہوتا ہے۔ محنت کرنے کا مشورہ دیجیے تو بیماری کا بہانہ۔ کچھ نیا سیکھنے کی بات کیجیے تو وقت نہ ہونے کا بہانہ۔ تساہل ترک کرنے کو کہیے تو یہ بہانہ کہ چھوڑیے صاحب‘ جو لوگ کچھ کرتے ہیں اُنہیں کیا مل گیا! آپ آزماکر دیکھیے‘ بہانے تیار ہیں۔ بہانے بنانے میں کوئی کسی سے کم نہیں اور ایک سے بڑھ کر ایک ہے۔ 
آئیے‘ علم و فن سے شروع کرتے ہیں۔ ہم سبھی بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ کسی بھی دور میں‘ کسی بھی معاشرے یا قوم کو آگے بڑھنے کا موقع صرف اُس وقت عطا کیا گیا ہے جب اُس نے اپنے آپ کو بدلنے کے بارے میں محض سوچا نہیں‘ بلکہ سوچے ہوئے پر عمل بھی کیا ہے۔ اس دنیا میں وہی قوم کچھ کر پائی ہے‘ جس نے اپنے آپ کو بدلنے کے بارے میں سوچا ہے‘ اگر ہم بھی کچھ کرنا چاہتے ہیں تو علم و فن کے محاذ پر ڈٹ کر کچھ کرنا پڑے گا۔ اس کے لیے تعلیم کا معیار بلند کرنے کے ساتھ عمومی مشاہدے کا معیار بھی بلند کرنا پڑے گا۔ باضابطہ تعلیم اور عادت کے طور پر اپنایا جانے والا مطالعہ انسان کو بلندی سے ہم کنار کرنے کے لیے لازم ہیں۔ ان دو بنیادی شرائط کو پورا کیے بغیر ہم بامقصد اور بارآور زندگی بسر کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ اب‘ ذرا کسی کو اس طرف لانے کی کوشش کیجیے اور پھر دیکھیے کہ بہانوں کے دریا میں کیسا تلاطم پیدا ہوتا ہے!مطالعہ نہ کرنے اور علمیت کا گراف بلند کرنے کی شعوری کوشش سے گریز کے حوالے سے چند عمومی بہانے ملاحظہ فرمائیے:۔ 
٭ یار! کریں تو کیا کریں۔ پڑھنا تو ہے ‘مگر معلومات کا بہاؤ زیادہ اور تیز ہے۔ بہت تیزی سے اتنا بہت کچھ سامنے آتا ہے کہ سمجھ ہی میں نہیں آتا کہ کیا پڑھیں اور کیا نہ پڑھیں۔٭ نئی کتابیں آتی ہی رہتی ہیں۔ ہر ہفتے اتنی کتابیں شائع ہوچکی ہوتی ہیں کہ انہیں پڑھنا تو ایک طرف رہا‘ نام یاد رکھنا بھی دردِ سر ثابت ہوتا ہے‘جو کتابیں پڑھنی ہیں ‘اگر اُن کی فہرست بنائیے تو وہ طویل ہوتی چلی جاتی ہے۔ ایسے میں کچھ اندازہ نہیں ہو پاتا کہ کون سی کتاب پڑھی جائے اور کون سی نہ پڑھی جائے۔ ٭ مجھے تو یہ بالکل پسند نہیں کہ میں کوئی کتاب پڑھنا شروع کروں اور جب کتاب نصف کی حد تک ختم ہوچکی ہو ‘تب اندازہ ہو کہ یہ کتاب میرے تو کسی کام کی نہیں! ٭ میں پڑھنے پر کم اور کچھ کرنے پر زیادہ وقت صرف کرنے پر یقین رکھتا ہوں۔ 
دیکھا آپ نے؟ اسے کہتے ہیں چورنگی سے گھوم کر گزر جانا‘ اگر انسان کچھ نہ کرنا چاہے تو پھر کچھ بھی کہہ کر جان چھڑا سکتا ہے۔ کوئی کمی کا رونا روتا ہے تو کوئی بہتات کا‘ اگر پڑھنے کو کم ملے تو پریشانی اور اگر بہت زیادہ ملے ‘تب بھی پریشانی۔ کم و بیش پانچ دہائی قبل میڈم نور جہاں نے فلم ''بہشت‘‘ کے لیے ایک شاہکار قسم کا گیت گایا تھا۔ بول تھے:'' کل تک جو کہتے تھے اپنا‘ آج وہی بیگانے ہیں‘‘۔نیز؎
میری کہانی سُننے والے بات نہ کر مجبوری کی 
ملنا ہو تو ملنے کے بھی لاکھوں اور بہانے ہیں 
یہاں بھی کچھ ایسی ہی کہانی چل رہی ہے۔ مجبوری کا رونا روتے رہنا عادت سے بڑھ کر اب مزاج میں تبدیل ہوچکا۔ کوئی اگر کسی سے ملنا چاہے تو ملنے کے لاکھ بہانے اور نہ ملنا چاہے تب بھی لاکھ بہانے۔ زندگی کا رخ متعین کرنے اور کامیابی کا ذہن بناکر آگے بڑھنے کی خواہش رکھنے والے اگر چاہیں تو بہت کچھ کرسکتے ہیں۔آج کی دنیا ہم سے غیر معمولی سنجیدگی کی طالب ہے۔ محض جینا کوئی کمال کی بات نہیں۔ سوال تو اعلیٰ معیار کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا ہے۔
ڈھنگ سے جینا ہی تو جینا ہوتا ہے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ ہم کچھ نیا سیکھیں‘ نیا کریں۔ کچھ بھی نیا سیکھنے اور نیا کرنے کے لیے مطالعہ ناگزیر ہے۔وقت آگیا ہے کہ معیاری انداز سے جینے کیلئے بنیادی کام کرلیا جائے۔ یہ بنیادی کام ہے بہانوں سے جان چھڑانے کا۔ اب کوئی بہانہ نہیں چلے گا۔ سوال صرف یہ ہے کہ ہم بہانوں کے دریا میں غوطہ زن رہنا چاہتے ہیں یا کنارے پر آکر اپنے لیے کچھ کرنے کے موڈ میں ہیں؟ اگر ہم واقعی کچھ کرنا چاہتے ہیں تو پھر کسی بھی بہانے کیلئے پنپنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ بہانوں سے گریز اور نجات ہی آگے بڑھنے کی راہ ہموار کرنے کا ایک معقول طریقہ ہے۔ لازم ہے کہ اب ہر بہانے کو ''قرنطینہ‘‘ میں ڈال دیا جائے! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں