دوسرے بہت سے معاملات کی طرح عجلت پسندی میں بھی ہمارا کوئی جواب نہیں۔ ہمیں بہت کچھ نہیں‘ سب کچھ چاہیے اور وہ بھی راتوں رات۔ مگر کیوں؟ اِس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ بعض کا تو یہ معاملہ ہے کہ زندگی بھر اُس ایک پل کے منتظر رہتے ہیں جس میں سب کچھ بدل جائے۔ کوئی کتنا ہی چاہے‘ ایسا کبھی ہوا ہے نہ ہوسکتا ہے۔ ہم جس کائنات میں سانس لے رہے ہیں اُس میں سب کچھ ایک طے شدہ طریق کے مطابق ہوا کرتا ہے۔ آج کی زبان میں کہیے تو سبھی کچھ ایک خاص ''ایس او پی‘‘ کے تحت ہو رہا ہے۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں‘ یہ ایس او پی تبدیل نہیں ہوتا۔ ہمیں اپنی زندگی اِس ایس او پی کے مطابق بدلنا پڑتی ہے۔ اگر ہم کائنات کے خالق کے طے کردہ طریق کار یعنی ایس او پی کو ترک کرکے اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھلے ہوئے کسی طریق کو اپنائیں تو صرف بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ ہم اپنے لیے کوئی ایسا راستہ چُن ہی نہیں سکتے جو مکمل طور پر معقول اور ہمارے حق میں ہو۔ ہمیں اِس معاملے میں اپنے خالق و رب کی طرف ہی دیکھنا پڑتا ہے۔ ہمارے خالق و رب ہی کو معلوم ہے کہ ہمارے لیے کس چیز میں خیر ہی خیر ہے اور کس چیز میں شَر کے سوا کچھ بھی نہیں۔
کسی بھی معاشرے نے کبھی راتوں رات کچھ نہیں پایا۔ چند ایک افراد حالات کی مہربانی سے یا پھر اپنی چالاکیوں اور سازشوں کی مدد سے تھوڑا بہت مادّی فائدہ اپنے نام کرسکتے ہیں مگر یہ بھی کامیابی نہیں کہلاتا۔ کامیابی وہی ہے جو دیانت کے ساتھ کی جانے والی محنت کے نتیجے میں حاصل ہو۔ کسی بھی شعبے میں حقیقی اور دیرپا کامیابی یقینی بنانے کیلئے انسان کو اپنی صلاحیتیں پوری لگن اور محنت کے ساتھ بروئے کار لانا پڑتی ہیں۔ یہ عمل چند اصولوں کے تحت ہوتا ہے۔ ہر انسان کو کامیابی کے لیے صلاحیتیں نکھارنے کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس عمل سے گزرنے ہی پر مہارت کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ ہر دور کے انسان کے لیے قدرت کی طرف سے یہی ایس او پی رہا ہے۔ حقیقی اور دیرپا کامیابی کے لیے پورے من کے ساتھ محنت کرنا پڑتی ہے۔ پاکستانی معاشرے کا حال عجیب ہے۔ ہر پس ماندہ معاشرے کی طرح پاکستانی معاشرہ بھی تسلیم شدہ حقیقتوں کو نظر انداز کرنے کی راہ پر گامزن ہے۔ کائنات جن اصولوں کے تحت کام کر رہی ہے ہم اُنہیں تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ہمارے خالق و رب نے ہمارے لیے جو راستہ چُنا ہے اُس پر چلنے سے زیادہ ہم اس بات میں دلچسپی لیتے ہیں کہ اپنے لیے راستہ خود چُنیں اور صرف اُسی پر گامزن رہیں۔ عجلت پسندی انسانی مزاج کا ایک بنیادی وصف ہے۔ اِس وصف کو کنٹرول کرنے پر اچھی خاصی محنت کرنا پڑتی ہے۔ ہم زندگی بھر بہت کچھ پانے یا کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں مگر اس حوالے سے قدرت کے طے کردہ راستے پر گامزن ہونے سے گریزاں رہتے ہیں۔ قدرت ہمیں ایک خاص طریق اپنانے کی طرف بلاتی ہے۔ اُس طریق کو اپنانے سے ہم کائنات سے ہم آہنگ ہوسکتے ہیں۔ دنیا کے ہر انسان کیلئے کائنات سے ہم آہنگ ہونے کا آپشن موجود ہے مگر شرط یہ ہے کہ وہ اپنے خالق کو نظر انداز نہ کرے۔ہر دور کے انسان کی طرح آج کے انسان کا بھی ایک بنیادی المیہ یہ ہے کہ وہ بہت کچھ بہت تیزی سے حاصل کرنا چاہتا ہے۔ سُنتے آئے ہیں کہ جلدی کا کام شیطان کا۔ تو پھر جلد باز یا عجلت پسند انسانوں کو کس درجے میں رکھا جائے؟ اور ایک عجلت پسندی ہی پر کیا موقوف ہے‘ یہاں تو ہر معاملہ ہماری سوچ کی خامیوں کو مشتہر کر رہا ہے۔ کسی بھی معاملے میں عجلت دوسرے بہت سے معاملات کو بھی بگاڑ دیتی ہے۔ کسی یومیہ معمول یعنی عام سے معاملے میں بھی عجلت پسندی کوئی پسندیدہ عمل نہیں۔ ایسے میں سوچا جاسکتا ہے کہ پوری زندگی ہی کو عجلت پسندی کی نذر کردینا حماقت کے کس درجے میں رکھا جائے گا۔ پاکستانی معاشرے میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو ہر وقت اس خواہش کے اسیر رہتے ہیں کہ دیکھتے ہی دیکھتے منظر بدل جائے۔ وہ چاہتے ہیں کہ راتوں رات ایسی تبدیلی رونما ہو کہ دنیا ہی میں اُن کیلئے جنت کا ماحول پیدا ہو۔ زندگی کا ہر معاملہ ہم سے اُتنی ہی توجہ چاہتا ہے جتنی اُس معاملے کیلئے لازم ہو۔ کوئی بھی معاملہ توازن کے بغیر درست نہیں ہو پاتا۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں‘ کائنات جن اصولوں کی بنیاد پر قائم ہے اور چل رہی ہے وہ ہماری خواہشات کے تابع کبھی نہیں ہوسکتے۔ حقیقت کی دنیا میں خواہشات کی اہمیت برائے نام ہے۔ جس بازار میں عمل کا سِکّہ چلتا ہے اُس میں ہماری خواہشات کی کوئی وقعت نہیں۔ ایسے میں ہمارے لیے بہترین آپشن یہ ہے کہ کائنات کے اصولوں سے ہم آہنگی پیدا کریں۔ ایسا اُسی وقت ہوسکتا ہے جب ہم بہت تیزی سے بہت کچھ پانے کی خواہش کے دائرے میں گھومتے رہنے کے بجائے حقیقت پسندی کا دامن تھام کر اپنی صلاحیتوں کو پوری دیانت اور لگن کے ساتھ بروئے کار لانے کی کوشش کریں۔
ترقی یافتہ معاشروں کا جائزہ لینے اور اُنہیں سمجھنے کی کوشش کرنے پر ہمیں معلوم ہوسکتا ہے کہ اُن کی بھرپور ترقی راتوں رات واقع نہیں ہوئی۔ ہر ترقی یافتہ معاشرے نے کئی صدیوں تک محنت کی تب کہیں جاکر کچھ پایا۔سب کچھ بہت تیزی سے پانے کی خواہش بہت سی خرابیوں کو جنم دیتی ہے۔ نتائج فوری طور پر حاصل کرنے کی خواہش ہمیں تسلیم شدہ طریق کار سے دور رہنے پر اُکساتی ہے۔ کامیاب وہی ہوتے ہیں جو کائنات کے بنیادی اصولوں سے ہم آہنگ رہتے ہوئے مصروفِ عمل رہیں۔ جو کچھ ایک طویل مدت تک محنت کرتے رہنے کا نتیجہ ہو اُسے راتوں رات حاصل کرنے کی خواہش کسی بھی اعتبار سے معقول نہیں۔ ایسی ہر خواہش کو نفسی ساخت کا حصہ بنانے سے گریز ہی دانش کا مظہر ہے۔ کامیاب افراد اور معاشروں کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کی صورت میں ہم سمجھ سکتے ہیں کہ راتوں رات ملنے والی چیز اور کچھ ہو نہ ہو‘ کامیابی نہیں ہوسکتی۔