ایک زمانے سے سکول کے بچوں میں ایک نظم بے حد مقبول رہی ہے‘ جس کے ابتدائی اشعار یہ ہیں ؎
اٹھو بیٹا‘ آنکھیں کھولو ... آنکھیں کھولو اور منہ دھولو
اتنا سونا ٹھیک نہیں ہے ... وقت کا کھونا ٹھیک نہیں ہے
سورج نکلا‘ تارے بھاگے ... دنیا والے سارے جاگے
بچوں کیلئے کہی جانے والی یہ نظم آج پاکستانیوں کی غالب اکثریت پر صادق آتی ہے۔ جاگنے کا وقت ہوچکا ہے اور ہم ہیں کہ گہری نیند کے مزے لُوٹ رہے ہیں۔ وقت کا کام تو گزرنا ہے‘ گزر جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے آخر کار ہمارے حصے میں کیا آئے گا۔ ایک زمانے سے وقت ہمارے دروازے پر دستک دے رہا ہے ‘مگر ہم جاگنے کے لیے تیار نہیں۔ دنیا بھر میں جتنے بھی معاشرے شدید مشکلات سے دوچار ہیں ‘اُن میں ہم بھی شامل ہیں اور خاصے نمایاں ہیں۔ پاکستانی معاشرہ تقسیم در تقسیم سے عبارت ہے۔ پاکستانی قوم میں بہت سی خوبیاں بھی ہیں اور خوبیاں بھی ایسی کہ دنیا دیکھے اور رشک کرے ‘مگر المیہ یہ ہے کہ خرابیوں‘ خامیوں اور کوتاہیوں نے تمام خوبیوں کی گردن دبوچ رکھی ہے۔ یہ اصول پوری دنیا میں مروّج ہے اور تسلیم شدہ ہے کہ خوبیاں کم اور خرابیاں زیادہ دیکھی جاتی ہیں۔ ہمارا بھی یہی معاملہ ہے۔ ہم نام نہاد قوم ہیں اور قوم کی حیثیت سے جو کچھ کرتے ہیں‘ اُس میں پائی جانے والی خرابیوں پر دنیا کی نظر زیادہ رہتی ہے۔
کورونا کی وبا کے وارد ہونے سے بہت پہلے ہی سے ہم گوناگوں مشکلات سے دوچار تھے۔ کورونا کی وبا نے ان مشکلات کا دائرہ وسیع کردیا ہے۔ بہت کچھ ہے جو اُلٹ‘ پلٹ گیا ہے۔ بعض معاملات اس قدر الجھ گئے ہیں کہ انہیں سلجھانے میں زمانہ لگے گا۔ معیشت کی خرابی نے پورے معاشرے کی کمر توڑ دی ہے۔ ایسا صرف ہمارے ساتھ نہیں ہوا۔ اپنے خطے پر نظر ڈالیے یا دوسرے خطوں پر‘ ہر طرف خرابی ہی خرابی دکھائی دے رہی ہے۔ ایسے میں پریشانی کے باوجود بددل یا مایوس ہو رہنا معقول رویہ نہیں۔ بحرانی کیفیت ہی کچھ کرنے کی تحریک بھی تو دیتی ہے۔ بقول شاعر: ؎
در اِسی دیوار میں کرنا پڑے گا
زندہ رہنے کے لیے مرنا پڑے گا
کورونا کی وباکے پُھوٹنے سے بہت پہلے ہم نے اپنے بہت سے معاملات اس حد تک بگاڑ لیے تھے کہ دنیا ہمیں مکمل ناکام ریاست کا درجہ دینے کی تیاری کرتی دکھائی دے رہی تھی۔ پاکستان مخالف قوتیں اس حوالے سے خاصی فعال تھیں۔ اندرونی خرابیوں اور بیرونی خطرات و خدشات نے ہمارے لیے پنپنے اور ڈھنگ سے جینے کی گنجائش کم ہی چھوڑی تھی۔ رہی سہی کسر کورونا کی وباء پر قابو پانے کے نام پر نافذ کیے جانے والے لاک ڈاؤن نے پوری کردی۔ ''ایس او پیز‘‘ کو ''مرے کو مارے شاہ مدار‘‘ کا مصداق سمجھیے۔ چار پانچ عشروں کے دوران دنیا مکمل طور پر بدل چکی ہے۔ انسان نے ڈھائی تین ہزار سال کے ذہنی سفر میں جو کچھ بھی پایا تھا‘ وہ سب کچھ یکجا ہوکر ہمارے سامنے ہے۔ مادّی ترقی اس قدر ہے کہ عقل نے اب دنگ ہونا چھوڑ دیا ہے‘ جن چیزوں کو دو تین صدی پہلے کے انسان دیکھیں تو چکرا جائیں ‘وہ ہماری زندگی کا حصہ ہیں۔ اتنے بڑے پیمانے پر رونما ہونے والی ماحولی تبدیلیاں بھی ہمیں فکری اور اخلاقی اعتبار سے تبدیل ہونے کی تحریک دینے میں ناکام رہی ہیں۔
دل و دماغ اور ضمیر کو جھنجھوڑ دینے والے حالات و واقعات کی بھرمار ہے۔ کئی بحران ہماری انفرادی و اجتماعی زندگی کا حصہ ہیں اور مزید کئی بحران ہماری دہلیز تک آچکے ہیں‘ جن چیزوں اور باتوں نے ساری دنیا کو الجھن میں ڈال رکھا ہے ‘وہی ہماری زندگی کو بھی تلپٹ کرنے پر تُلی ہوئی ہیں۔ ایسے میں اپنے گریبان میں جھانکنا‘ اپنی خامیوں اور کوتاہیوں کا جائزہ لینا انتہائی لازم ٹھہرا ہے۔ افسوس کہ اس لازمے کو اپنانے اور گلے لگانے کے لیے ہم اب تک تیار نہیں۔
بیسویں صدی میں جو کچھ ہوا تھا‘ اُس کی بنیاد پر کوئی بھی ذی شعور آسانی سے کہہ سکتا تھا کہ اکیسویں صدی بھی اچھی خاصی اُتھل پُتھل پیدا کرے گی‘ بہت کچھ بگڑ جائے گا‘ داؤ پر لگ جائے گا اور کئی معاشرے ہمہ گیر نوعیت کے بحرانوں سے دوچار ہوں گے۔ آج وہ گھڑی آچکی ہے۔ یہ سمجھ لیا جائے کہ ہم طوفان کی آنکھ میں جی رہے ہیں۔ اب صرف اور صرف تبدیلی کا آپشن بچا ہے اور وہ بھی اپنی مرضی کے مطابق نہیں‘ بلکہ حالات کی روشنی میں۔ دنیا جس مقام پر کھڑی ہے‘ اُس کا بھرپور ادراک ممکن بناتے ہوئے ہمیں اپنے لیے ایسی راہ منتخب کرنی ہے ‘جس پر گامزن ہوکر انفرادی و اجتماعی استحکام و خوش حالی کی منزل تک پہنچنا زیادہ دشوار نہ ہو۔اکیسویں صدی اپنے ساتھ صرف ایک آپشن لائی ہے ‘ یہ کہ ہم اپنے ماحول سے بے خبر رہنے کی ''تابندہ روایت‘‘ ترک کردیں‘ جن معاشروں نے فقید المثال ترقی یقینی بنائی ہے‘ اُن کے لیے بھی مشکلات کم نہیں۔ بحران اُن کی بھی تلاش میں رہتے ہیں۔ مغرب کے ترقی یافتہ معاشرے بھی الجھنوں کا شکار ہیں۔ سب کو اپنی بقاء کی فکر لاحق ہے۔ جب مضبوط معاشروں کو اپنی بقاء کی فکر لاحق ہے تو سوچا جاسکتا ہے کہ پاکستان جیسے معاشرے کہاں کھڑے ہیں۔ الغرض یہ جاگنے کی گھڑی ہے اوربیدار ہوکر پہلے مرحلے میں حقیقی اندرونی استحکام یقینی بنانا ہے۔