کسی بھی کاروباری ادارے کے لیے جو اہمیت ویلیو ایڈیشن (قدر افزائی) کی ہے‘ وہی معاشرے کے لیے معیاری تعلیم کی ہے۔ تعلیم کا قابلِ رشک معیار یقینی بنائے بغیر کوئی بھی معاشرہ آگے نہیں جاسکتا۔ اس حوالے سے ہارورڈ یونیورسٹی کے ایک سابق صدر کا جملہ شاہکار کا درجہ رکھتا ہے۔ جامعات کے ایک اجلاس میں متعدد شرکا نے شکایت کی کہ (معیاری اعلیٰ) تعلیم بہت مہنگی ہے۔ یہ سن کر ڈیریک بوک نے کہا ''اگر آپ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ (اعلیٰ) تعلیم بہت مہنگا سَودا ہے تو پھر جہالت کو آزما دیکھیے!‘‘ اعلیٰ تعلیم اور اُس سے متعلق فنون ہی کسی بھی معاشرے کیلئے حقیقی ویلیو ایڈیشن یقینی بناتے ہیں۔ معاشرے کا کوئی بھی طبقہ تعلیم کے معاملے میں پیش رفت یقینی بنائے بغیر آگے جانے کا نہیں سوچ سکتا۔ کسی بھی معاشرے میں پس ماندہ یا کمزور طبقات کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ اُن کی ایسی حالت صرف اس لیے ہوئی کہ انہوں نے تعلیم کے حوالے سے پیش رفت کو نظر انداز کردیا یا بنیادی اہداف میں شامل نہیں کیا۔ گرنے کے شوقین ہر فرد اور معاشرے کو اگر اپنے لیے گڑھا کھودنا ہے تو لازم ہے کہ ویلیو ایڈیشن کو مکمل طور پر نظر انداز کردے! بات فرد کی ہو یا معاشرے کی‘ اس معاملے میں غفلت کہیں کا نہیں چھوڑتی۔ اگر کسی معاشرے میں اجتماعی طور پر یہ سوچ پروان چڑھ چکی ہو کہ وہ عصری علوم و فنون سے متعلق پیش رفت کے ذریعے ویلیو ایڈیشن کے بغیر بھی پنپ سکتا ہے تو اُسے حماقت کے چلتے پھرتے نمونے کا درجہ دیا جانا چاہیے! ہر ترقی یافتہ معاشرے نے عام سطح سے بلند ہونے کے لیے وہی کچھ کیا ہے‘ جو دانش کا تقاضا ہوا کرتا ہے‘ یعنی ویلیو ایڈیشن۔ کسی بھی معاشرے کے لیے حقیقی نمو کی صورت اُسی وقت پیدا ہوسکتی ہے جب عمومی تعلیم کا معیار قابلِ رشک حد تک بلند کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم پر توجہ دی جائے۔ عصری علوم میں غیر معمولی پیش رفت ہی کے ذریعے افکار و اعمال کو حالات سے ہم آہنگ کیا جاسکتا ہے۔
ترقی یافتہ دنیا میں ویلیو ایڈیشن کی اہمیت کو بھرپور طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ یورپ نے چار سو سال کے عمل میں اور اس کے بعد امریکا نے دو صدیوں کے دوران مادّی ترقی سے ہم کنار رہنے کیلئے جو جدوجہد کی ہے‘ اُس میں عمیق تحقیق اور اس کے نتیجے میں رونما ہونے والی ویلیو ایڈیشن کا کلیدی کردار رہا ہے۔ ویلیو ایڈیشن یا قدر افزائی کے تصور کو وسیع تر مفہوم میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہر انسان کیلئے لازم ہے کہ اپنی ذات کی توسیع کا عمل زندگی بھر جاری رکھے۔ ذات کی توسیع سے مراد یہ ہے کہ وہ اپنی خوبیوں کی تعداد بڑھائے اور خرابیوں‘ خامیوں کا گراف نیچے لائے۔ انفرادی سطح پر کچھ پانے کیلئے انسان کو بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ اس معاملے میں کسی بھی انسان کو فطرت کے بنیادی اصولوں سے استثنیٰ حاصل نہیں۔ ہر اُس انسان کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے‘ جس میں دوسروں سے کہیں زیادہ خوبیاں پائی جاتی ہوں۔ کسی بھی انسان میں خوبیوں کی تعداد اُسی وقت بڑھتی ہے ‘جب وہ پوری یعنی مطلوب سنجیدگی کے ساتھ عصری علوم و فنون کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔کسی بھی چیز کی قدر بڑھانے کیلئے اُس کے اوصاف بڑھائے جاتے ہیں‘ مثلاً: درخت سے کاٹی ہوئی لکڑی کو اُسی‘ ابتدائی حالت میں بیچا جائے تو کم قیمت ملتی ہے‘ اسی لکڑی کو کاٹ کر میز‘ کرسی‘ دروازہ وغیرہ بنانے میں سہولت دینے کے قابل بنایا جائے تو قیمت بڑھ جاتی ہے اور اگر یہ تمام اشیاء بناکر بیچی جائیں تو لکڑی کی قیمت کئی گنا ہو جاتی ہے۔ یہی معاملہ انسان کا بھی ہے۔ اگر کسی کو ایک زبان آتی ہو تو وہ زیادہ کام کا نہیں سمجھا جاتا۔ تین چار یا اِس سے زیادہ زبانیں جاننے والے میں علم بھی زیادہ ہوتا ہے اور کام کرنے کی استعداد بھی غیر معمولی ہوتی ہے۔ ایسے لوگ زیادہ قابلِ قبول ہوتے ہیں‘ اسی طور اگر کوئی شخص ایک سے زائد ہنر جانتا ہو یا کسی بھی شعبے کی تمام بنیادی مہارتوں کا حامل ہو تو اُس کے لیے معاشی امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو ملازمت بھی آسانی سے ملتی ہے اور اگر وہ اپنا کاروبار شروع کریں تو تیزی سے آگے بڑھنا بھی قدرے آسان ہوتا ہے۔ ویلیو ایڈیشن وہ عمل ہے‘ جس کے ذریعے انسان زیادہ سے زیادہ قابلِ قبول ہوتا جاتا ہے‘ جس میں علم زیادہ ہو‘ فن پروان چڑھ چکا ہو‘ کام کرنے کی لگن زندہ ہو اور استعدادِ کار کا گراف بھی بلند ہو وہ اپنی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرنے کی پوزیشن میں ہوتا ہے۔ معاشروں کا بھی یہی حال ہے‘ جس معاشرے نے خود کو عصری علوم و فنون کے حوالے سے بلند کرلیا ہو‘ وہ دوسروں کیلئے روشن مثال بن جاتے ہیں۔ اُن کی کامیابی دیکھ کر دنیا بہت کچھ سیکھتی ہے۔ ویسے تو خیر مغرب نے ہر شعبے میں غیر معمولی ترقی کے درشن کرائے ہیں‘ مگر اُس کے بڑے کاروباری اداروں نے ویلیو ایڈیشن کے حوالے سے ہمیں بہت کچھ سیکھنے کی تحریک دینے کا اہتمام کیا ہے۔ اشیا و خدمات سے متعلق اداروں کی اعلیٰ کارکردگی ویلیو ایڈیشن ہی کا نتیجہ ہے۔ کسی بھی برانڈ کو مارکیٹ میں زندہ رکھنے کے حوالے سے کلیدی کردار ویلیو ایڈیشن کا ہوتا ہے۔ الغرض کوئی ادارہ اگر ترقی سے ہم کنار رہنا چاہتا ہے تو اسے ویلیو ایڈیشن کا اہتمام کرتے رہنا چاہیے۔
پاکستان جیسے ممالک کو ترقی یافتہ ممالک سے بہت کچھ سیکھنا ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں نے دنیا کو بتایا ہے کہ پیش رفت یقینی بنانے کیلئے علوم و فنون سے متعلق پیش رفت کا گراف بلند کرتے رہنا ناگزیر ہے۔ ہر شعبے میں مسابقت کا ڈھنگ سے سامنا کرنے کیلئے ایسا کرنا ہی پڑے گا۔ دنیا بھر میں تحقیق کا بازار گرم ہے۔ ساری تگ و دَو صرف اس لیے ہے کہ ہر شعبے کا معیار بلند ہوتا جائے اور زندگی میں آسانیاں بڑھتی جائیں۔ اہلِ پاکستان کو اجتماعی طور پر علم دوست اور فن پرور سوچ اپنانی ہے۔ ہماری نئی نسل کو عصری تقاضوں کے مطابق علم و فن کی بلندی یقینی بنانی ہے۔ بچوں کو وہی کچھ سکھایا جائے‘ جس کی دنیا بھر میں طلب ہو۔ غیر متعلق نوعیت کی مہارت کسی کام کی نہیں۔ قصۂ پارینہ بن جانے والے علوم کے بارے میں صرف بنیادی معلومات کافی ہیں‘ اُنہیں گلے لگانے کی ضرورت نہیں۔