"MIK" (space) message & send to 7575

… جذبات میں کیا رکھا ہے!

عمومی سطح پر ہم جس کیفیت کو اپنے لیے بہت کچھ سمجھ لیتے ہیں ‘وہ محض جذبات کی پیداوار ہوتی ہے اور جذبات بھی کون سے؟ خالص سطحی نوعیت کے۔ جب معاملات سطح تک محدود ہوں تو گوہرِ آب دار کے ملنے کی توقع عبث ہے۔ کچھ پانے کے لیے کچھ کھونا اور بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ یہ ہر معاشرے اور ہر عہد کا اصول ہے۔ 
نِری جذباتیت کی سطح پر زندگی بسر کرنا عمومی چلن اِس لیے ہے کہ یہ آسان معاملہ ہے۔ کچھ نہ کرنا ہی جب آپشن ٹھہرے تو بات کیسے بنے‘ زندگی میں کچھ نیا کہاں سے آئے؟ ہر انسان اِس بات کو اچھی طرح جانتا اور سمجھتا ہے کہ اگر کچھ پانا ہے تو بہت کچھ کرنا پڑے گا۔ بہت کچھ کرنے سے پہلے سے یہ طے کرنا پڑے گا کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ‘یعنی ذہن سازی کے مرحلے سے گزر کر منصوبہ سازی کے مرحلے تک پہنچنا پڑے گا۔ ہم زندگی بھر مختلف مراحل میں پھنسے رہتے ہیں۔ الجھنیں دامن گیر رہتی ہیں۔ ذہن میں پڑنے والے گِرہیں ہمیں سکون سے جینے کا موقع نہیں دیتیں۔ ایسا ممکن بھی کیسے ہو؟ ہم خود بھی تو نہیں چاہتے کہ ہماری راہ سے مشکلات کے کانٹے دور ہوں اور غنچہ و گل کا ساتھ نصیب ہو۔ ذہن میں پڑنے والی گِرہیں تادیر اس لیے برقرار رہتی ہیں کہ عمومی سطح پر ہم اِن گرہوں کو کھولنے کے حوالے سے سنجیدہ بھی نہیں ہوتے۔ 
پچیس تیس سال پہلے محمد رفیع مرحوم کا گایا ہوا ایک فلمی گیت سُنا تھا جس کا مکھڑا تھا ؎ 
ہم میں کیا ہے جو ہمیں کوئی حسینہ چاہے 
صرف جذبات ہیں‘ جذبات میں کیا رکّھا ہے! 
بات بالکل درست ہے۔ نِری جذباتیت ہمیں کچھ بھی نہیں دے پاتی۔ دے ہی نہیں سکتی۔ زندگی کا ہر معاملہ ہم سے کماحقہ سنجیدگی چاہتا ہے‘ اگر کسی بھی حوالے سے محض جذباتی ہو جانا کافی ہوتا تو دنیا کا ہر انسان فقید المثال کامیابی سے ہم کنار دکھائی دے رہا ہوتا۔ زندگی بھر ایسے لمحات آتے رہتے ہیں جب ہم بہت کچھ کرنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں اور کسی حد تک تحریک بھی پاتے ہیں۔ سوال یہ نہیں ہے کہ ہمیں کچھ کرنے کی تحریک دینے والے لمحات آتے ہیں یا نہیں۔ اہمیت اس بات کی ہے کہ ہم کچھ کرنے کا عزم کریں اور پھر خود کو عملی سطح پر تیار بھی کریں۔ 
کسی بھی بڑے کام کے لیے خود کو تیار کرنے کے مختلف مراحل ہوتے ہیں۔ پہلا مرحلہ ہے نِری سطحیت یا جذباتیت سے آگے جاکر سنجیدہ ہونا اور کچھ کرنے کے بارے میں واقعی سوچنا۔ سوچنا ایک وسیع اور وقیع عمل ہے۔ اس کی وقعت سے انکار کرنے والے اپنے سروں پر خسارے کا پوٹلا لادتے ہیں۔ ڈھنگ سے اور بروقت سوچنا ہی ہمیں کچھ کرنے کی تحریک دیتا ہے‘ عمل کے لیے تیار کرتا ہے۔ ڈھنگ سے جینا اُسی کو نصیب ہوا ہے‘ جس نے کچھ کرنے کا سوچا ہے‘ یعنی خاطر خواہ سنجیدگی سے معاملات پر غور کرکے اپنے لیے کوئی لائحۂ عمل مرتب کرنے میں دلچسپی لی ہے۔ 
ایک اہم سوال یہ ہے کہ فی زمانہ کسی بھی شعبے میں بڑی یا مثالی نوعیت کی کامیابی یقینی بنانے کے لیے کچھ کرنا ممکن ہے؟ عام آدمی کو یہ مرحلہ خاصا جاں گُسل دکھائی دیتا ہے۔ یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں۔ ہر دور میں دوسروں سے ہٹ کر کچھ کرنا دشوار ہی دکھائی دیتا رہا ہے۔ ہم بہت سے معاملات میں اپنے لیے آسانیاں تلاش کرتے رہتے ہیں۔ کیریئر کا بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔ یاد رکھے کی بات یہ ہے کہ کسی بھی حوالے سے بڑی کامیابی محنت کیے بغیر‘ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے سے نہیں مل جاتی۔ ہر دور کے کامیاب انسان صلاحیتوں کو بروئے کار لانے یعنی محنت کرنے کے حوالے سے روشن مثال بن کر سامنے آئے ہیں۔ آج بھی یہی معاملہ ہے۔ کسی بھی شعبے میں بھرپور کامیابی آج بھی پسینے میں نہلاتی ہے‘ خون نچوڑتی ہے۔ 
میڈیا کی غیر معمولی ترقی یا پیش رفت نے بہت سی آسانیاں پیدا کی ہیں۔ اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ انٹرنیٹ نے ہمیں بہت سے معاملات میں اپنی شخصیت کی توسیع کا موقع فراہم کیا ہے‘ کچھ کر گزرنے کی تحریک دینے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے؟ سوشل میڈیا کے ذریعے بہت کچھ کرنے کی تحریک ملتی ہے۔ ہم اگر فکر و عمل کے حوالے سے تھکن محسوس کر رہے ہوں تو سوشل میڈیا ہمیں مہمیز دینے اور عمل کے لیے تیار کرنے میں غیر معمولی کردار ادا کرتا ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ سوشل میڈیا سے ہم استفادہ کس طور کرتے ہیں‘ ہمارا سوچنے کا انداز کیا ہے۔ 
ایک زمانہ تھا کہ جب کسی کو اپنی پسند کے شعبے میں کچھ کرنا ہوتا تھا تو اچھی خاصی تیاری کرنا پڑتی تھی۔ بہت زیادہ مہارت تو درکار نہیں ہوا کرتی تھی مگر وسائل کی کمی کے باعث متعلقہ لوگوں سے ملنا‘ لازم سمجھی جانے والی معلومات کا حصول اور اُس سے مستفید ہونا بڑا دردِ سر ہوتا تھا۔ کسی بھی شعبے میں نام پیدا کرنے کے لیے سخت جاں گُسل مراحل سے گزرنا پڑتا تھا۔ لوگ بہت سی تکلیفیں بخوشی گوارا کرتے تھے۔ جب کچھ کرنے کی تحریک ملتی تھی تو اُس کے لیے خود کو ذہنی اور جسمانی طور پر تیار کرنا مرحلۂ جاں سے گزرنے جیسا معاملہ ہوا کرتا تھا ‘مگر لوگ پسپائی اختیار نہیں کرتے تھے۔ 
آج معاملہ بہت مختلف ہے۔ بہت سے شعبوں میں پیش رفت کا گراف بلند سے بلند تر ہوتا جارہا ہے۔ کم و بیش ہر شعبہ غیر معمولی توجہ چاہتا ہے۔ مسابقت بہت زیادہ ہے۔ اگر کسی نے کچھ کرنے کا سوچ لیا ہو تو عمل کی تیاری خاصا جاں گُسل مرحلہ ہے۔ مگر خیر‘ یہ مشکل تو ہر اُس انسان کے لیے ہے جو کچھ کرنا چاہتا ہو۔ 
گزشتہ ادوار میں چند شعبے پیش رفت کے اعتبار سے نمایاں تھے۔ اُن شعبوں میں کچھ کر دکھانے کی تمنا انسان کو نچوڑتی ضرور تھی مگر ادھ مُوا نہیں کرتی تھی۔ مسابقت تھی تو سہی مگر ''گلا کاٹ‘‘ نوعیت کی ہرگز نہیں تھی۔ مہارت کا دائرہ محدود تھا۔ لوگ کسی شعبے کو چُن کر تھوڑی بہت محنت سے کچھ نہ کچھ کرلیتے تھے۔ آج معاملہ یہ ہے کہ کسی بھی شعبے میں کچھ کرنے کے لیے پورے وجود کو کام اور داؤ پر لگانا پڑتا ہے۔ 
ہم میں سے بہت سوں کا یہ حال ہے کہ کم و بیش یومیہ بنیاد پر کسی نہ کسی بات سے تحریک پاتے ہیں اور کچھ کر دکھانے کا جذبہ برق رفتاری سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ تو بہت اچھی بات ہے‘ آپ یہی سوچیں گے۔ یقیناً‘مگر مسئلہ یہ ہے کہ کچھ کر دکھانے کا جذبہ جتنی تیزی سے پیدا ہوتا ہے اُتنی ہی تیزی سے دم بھی توڑ دیتا ہے‘ بجھے ہوئے چراغ کی سی شکل اختیار کرلیتا ہے! ایسا اس لیے ہے کہ لوگ عمومی سطح پر کچھ کرنے کا عزم پیدا ہوتے رہنے ہی کو زندگی کا حاصل یا مآحصل سمجھ کر خوش ہوتے رہتے ہیں! 
ایک دور تھا کہ کچھ بننے اور کرنے کی تحریک دینے والی کوئی بات ہوتی تھی تو لوگ تیزی سے متوجہ ہوتے تھے اور اپنے آپ کو تبدیل کرنے کے بارے میں سوچنے لگتے تھے۔ اب یومیہ بنیاد پر ایسی بہت سی باتیں انسان کے علم میں آتی رہتی ہیں ‘جو اُسے سوچنے پر مجبور کرتی ہیں‘ کچھ کرنے کی تحریک دیتی ہیں۔ اب‘ اصل مسئلہ تحریک پانا نہیں ‘بلکہ اُسے برقرار رکھنا ہے۔ 
جذبات کی سطح پر رہتے ہوئے یعنی جذباتیت کے ساتھ زندگی بسر کرنا بھی آپشن کا درجہ رکھتا ہے مگر اِسے کسی بھی اعتبار سے کوئی بہت اچھا یا قابلِ تقلید آپشن نہیں کہا جاسکتا۔ آج کے انسان کو جن چند مسائل نے حقیقی الجھن سے دوچار کر رکھا ہے اُن میں جذباتیت نمایاں ہے۔ یہ جذباتیت ہی ہے‘ جس نے مجموعی طور پر پوری زندگی کو سطحی بنا ڈالا ہے۔ آج کی زندگی ساحل پر کھڑے ہوکر تماشا دیکھنے جیسی ہے۔ گہرائی جانچنے کی خواہش تو بہت دور کی بات ٹھہری‘ اب لوگ پانی میں پاؤں ڈالنے سے بھی کتراتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جذباتیت بھی بڑھتی جارہی ہے۔ فکر و عمل کو اس چوکھٹ پر قربان کردیا گیا ہے۔ آج کے انسان کو محض جذبات کی سطح سے بلند ہوکر عمیق غور و فکر کی عادت اپنانی ہے‘ تاکہ واقعی کچھ کر دکھانے کی دیرپا تحریک پیدا ہو‘ زندگی معنویت سے ہم کنار ہو۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں