"MIK" (space) message & send to 7575

ظاہر ہے کہ منہ پھیر لیا ہم سے خُدا نے

اللہ کو چھوڑ کر کسی اور سے لَو لگانے کا جو نتیجہ نکل سکتا ہے ‘وہی نکلتا ہے۔ معاملات انفرادی ہوں یا اجتماعی‘ اللہ پر بھروسا ترک کرکے ہما شُما سے کوئی امُّید رکھنا‘ جیسے گل کِھلا سکتا ہے‘ ویسے ہی گل تو کِھل رہے ہیں‘ جس سے لَو لگانے کا حق ہے ‘ہم اُسی کو بھول بیٹھے ہیں۔ معاملہ یہ ہو تو پھر انٹ شنٹ سجدے کرنا پڑتے ہیں۔ اور یہی ہو رہا ہے۔ 
1950ء کے عشرے میں ہمارے ہاں اقتدار کے ماخذ پر متصرّف طبقے اور پالیسی میکرز سے ایک بنیادی غلطی سرزد ہوئی جس کا خمیازہ ہمیں آج تک بھگتنا پڑ رہا ہے۔ یہ غلطی تھی اپنی صلاحیت و سکت پر بھروسا نہ کرنا اور غیروں کی چوکھٹ پر ماتھا ٹیکنا۔ مرعوبیت کے عالم میں ایسے ہی تماشے ہوا کرتے ہیں۔ نوزائیدہ پاکستان کی بیورو کریسی اور اسٹیبلشمنٹ میں واضح اکثریت اُن کی تھی‘ جو برطانوی عہد کے نظامِ تعلیم سے مستفید ہوتے رہے تھے۔ وہ نظامِ تعلیم غلاموں کے لیے تھا ‘یعنی مقصود زندگی کو وسیع تر مفہوم میں پروان چڑھانا نہیں‘ بلکہ ریاستی کے انتظامی کام کاج کے لیے حکم کے غلام تیار کرنا تھا۔ نصاب بھی اسی مقصد کے تحت تیار کیا جاتا تھا۔ غلام تیار کرنے کے لیے تیار کیے جانے والے نصاب کی کوکھ سے آزاد سوچ رکھنے والے پیدا ہوں یہ سوچنا حماقت کے درجے میں ہے۔ تعلیم‘ چونکہ ایسا عمل ہے جو انسان کو چھوٹی عمر سے ایک خاص سانچے میں ڈھالنے کا کام کرتا ہے‘ اس لیے یہ توقع عبث ہے کہ کسی خاص مقصد کے تحت کی جانے والی تعلیم سے کوئی اور نتیجہ برآمد ہو۔ عمومی سطح پر وہی کچھ ہوتا ہے‘ جس کی منصوبہ سازی کی گئی ہو‘ اگر چند ایک افراد کچھ ہٹ کر واقع ہوتے ہیں تو یہ اُن کی اپنی فکری افتادِ طبع اور سعیٔ پیہم کا نتیجہ ہوتا ہے۔ 
قیامِ پاکستان کے ابتدائی زمانے میں مرتب کی جانے والی پالیسیوں سے مرعوبیت صاف جھلکتی ہے۔ مغرب سے مرعوب اذہان نے یہ پالیسیاں مرتب کی تھیں ‘اس لیے ان پالیسیوں میں مغرب نواز عنصر کا پایا جانا فطری امر تھا۔ یہی سبب ہے کہ سابق سوویت یونین کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے اور انتہائی زمینی حقائق سے نظر پھیرتے ہوئے مغرب‘ یعنی امریکا و یورپ کی غلامی کا طوق قوم کے گلے میں ڈالنا گوارا کیا گیا اور یہ طوق ہم آج تک نہیں اُتار سکے ہیں‘جس نے ہمیں خلق کیا ہے اور پال بھی رہا ہے‘ اُس کی شانِ تخلیق و ربوبیت سے منہ موڑ کر جب ہم کسی اور سے مدد طلب کرتے ہیں تو در حقیقت اپنے وجود پر عظیم ظلم کر رہے ہوتے ہیں۔ ایسے میں بنتے کام بھی بگڑ جاتے ہیں اور بگڑے کام تو خیر ایسے بگڑتے ہیں کہ پھر اُن کے سنورنے کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی۔ المیہ یہ ہے کہ اپنے افکار و اعمال کا انجام اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے بھی ہم اصلاحِ احوال کی طرف مائل نہیں ہوتے۔ 
ہم پر اللہ کا حق یہ ہے کہ ہر طرح کے انفرادی و اجتماعی معاملات میں صرف اُس کی ذاتِ اقدس پر بھروسا رکھیں‘ اُسی سے راہ ِ نجات چاہیں‘ اُسی سے مدد مانگیں‘ اُسی کے آگے سجدہ ریز ہوں۔ جئیں تو اُس کے لیے‘ مریں تو اُس کے لیے۔ زندگی بسر کرنے کا کوئی اور انداز ہمارے لیے نجاتِ اُخروی کا وسیلہ نہیں بن سکتا۔ جب ہم اللہ پر اپنا بھروسا ختم کرکے اِدھر اُدھر دیکھتے ہیں تب زندگی ڈگر سے اُترنے لگتی ہے۔ ہمیں بہت کچھ کرنا ہوتا ہے‘ مگر جو کچھ بھی کرنا ہے ‘وہ اللہ کی بخشی ہوئی توفیق ہی سے کرنا ہوتا ہے۔ یہ توفیق بھی اللہ سے مانگنا پڑتی ہے۔ ہر معاملے میں اُسی کو اپنا بنانا پڑتا ہے۔ انفرادی سطح کی زندگی سے بلند ہوکر پورے معاشرے کی بات کیجیے تو ہمارے پالیسی میکرز نے ملک کے قیام کے ابتدائی ایام میں ایک بے راہ رَو تہذیب سے جس مرعوبیت کا مظاہرہ کیا تھا‘ اُس کا نتیجہ آج تک اس طور بھگتنا پڑ رہا ہے کہ نجات کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔ معاشرے کا نظم تباہ ہوچکا ہے۔ مغربی تہذیب کے حوالے مرعوبیت انفرادی اور اجتماعی سطح پر اس قدر عام ہے کہ معاملات کو درست کرنے کا کوئی راستہ سُجھائی دیتا ہے نہ ذوق و شوقِ عمل ہی کا معاملہ اُمید افزا ہے۔ کبھی کبھی دل گھبرا اُٹھتا ہے ع
سمجھ میں کچھ نہیں آتا سُکوں پانے کہاں جائیں؟ 
جب ہم اپنے خالق و رب کو چھوڑ کر دوسروں کے آستانوں پر جبیں سائی کرتے ہیں تب اصل خرابی پیدا ہوتی ہے۔ مانگنا بھی اللہ سے ہے‘ ڈرنا بھی اللہ سے ہے۔ دینے والی ذات بھی اُسی کی ہے اور لینے والی ذات بھی اُسی کی ہے۔ یہ عقیدہ اور نظریہ جب عملاً ترک ہوا تو سمجھ لیجیے سب کچھ ٹھکانے لگا۔ اس کے بعد تو نقصان ہی نقصان ہے ‘مگر المیہ‘ بلکہ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ ع
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا 
اہلِ مغرب نے کم و بیش تین صدیوں تک دنیا کی قیادت کی ہے۔ یہ قیادت باسعادت کبھی نہیں رہی۔ ایسا نہیں تھا کہ مغربی طاقتوں نے کسی خطے کو ترقی دینے کے بارے میں سوچا‘ بہتر زندگی یقینی بنانے کی خواہش کی اور اُسے عملی شکل بھی دی۔ کوئی بھی بڑی طاقت کمزوروں کو جس طور کھا جایا کرتی ہے ‘اہلِ مغرب نے بھی اُسی طور کمزور ریاستوں اور خطوں کو دبوچا ہے‘ ڈکارا ہے۔ محکوموں کے قدرتی وسائل کو مغربی طاقتیں شیرِ مادر کے مانند پی گئی ہیں۔ یہ تماشا ہم نے صرف دیکھا نہیں‘ بھگتا بھی ہے۔ ہم پر بھی مغربی طاقتیں ہی تو قابض و متصرّف رہی ہیں۔ پھر بھی ستم یہ ہے کہ بہت کچھ جھیل کر بھی ہم باز نہ آئے‘ اپنے مسائل کی تفہیم کا ارادہ نہ کیا اور آنکھوں دیکھی مکھیاں نگلتے رہے۔ گویا ؎ 
میرؔ کیا سادہ ہیں‘ بیمار ہوئے جس کے سبب 
اُسی عطّار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں! 
امریکا اور یورپ سے مرعوب رہتے ہوئے جینے سے کیا ملا ہے؟ کچھ بھی تو نہیں۔ ہر بحرانی کیفیت اُنہی کی پیدا کردہ ہوتی ہے اور ہم ہر بحرانی کیفیت سے نجات پانے لیے اُنہی کی طرف دیکھتے ہیں! ع
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا 
مسائل کے حل کی کوئی معقول صورت اس لیے دکھائی نہیں دے رہی کہ ہم نے اِس کے لیے غور و فکر کی خاطر خود کو تیار ہی نہیں کیا ہے۔ کسی نے خوب کہا ہے ؎ 
اِن بُتوں کو خدا سے مطلب 
توبہ توبہ‘ خدا خدا کیجے 
اور ہم ہیں کہ خدا کو چھوڑ کر بُتوں کی پوجا میں ایسے مصروف ہیں کہ فارغ ہی نہیں ہو پارہے۔ نقصان ہوتا ہے تو ہوتا رہے‘ ہم کب پروا کرتے ہیں؟ وقت کا تقاضا ہے کہ بُتوں سے لَو نہ لگائی جائے‘ خدا کا دامن تھاما جائے اور اُسی سے مدد چاہی و مانگی جائے‘ مگر صاحب‘ مت ایسی ماری گئی ہے کہ ہم بہت کچھ دیکھ بھی دیکھ نہیں پارہے‘ بہت کچھ سمجھ میں آچکا ہے ‘مگر پھر بھی بھولے بادشاہ بنے ہوئے ہیں ‘یعنی سمجھ کر بھی نہیں سمجھ رہے‘ آنکھوں دیکھی مکھیاں نگلنے کا شغل جاری ہے۔ پورے قومی وجود کو مغرب کی چوکھٹ پر یوں قربان کردیا گیا ہے کہ اب بچ نکلنے کی کوئی تدبیر نہیں بنتی۔ 
خالق و رب سے منہ موڑ کر جب نام نہاد ارضی خداؤں سے لَو لگائی جائے اور امیدیں وابستہ کی جائیں گی تو ایسا ہی ہوگا۔ مغربی قوتیں اپنے بوجھ تلے دبی ہوئی ہیں‘ مگر ہمیں اس کا ادراک ہی نہیں۔ مغربی تہذیب دم توڑتی جارہی ہے۔ اقدار کا جنازہ اٹھ چکا ہے‘ مگر مغرب کے کچرے کو نعمت ِغیر مترقبہ کا درجہ دے کر ماتھے سے لگا رہے ہیں‘ چُوم رہے ہیں۔ جب خدا کو چھوڑ کر بُتوں سے مرعوبیت کا یہ عالم ہے تو بُت بھی اپنی اوقات پر کیوں نہ آجائیں؟ بُت یہ کیوں نہ سوچیں کہ جو حقیقت ِ ازلی کا کچھ نہ کچھ فہم رکھتے ہوئے بھی خدا کا نہ ہوسکا وہ ہمارا کیسے ہو پائے گا! یہی سبب ہے کہ جب یہ بات طے ہو جاتی ہے کہ خدا کا خوف بھی تیاگ دیا گیا ہے اور اُس سے کوئی اُمّید بھی وابستہ نہیں تب بُتوں کی بے وفائی اور کج ادائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسے میں تِنکے بھی شہتیر ہو جاتے ہیں۔ میرؔ نے خوب کہا ہے:؎ 
کاہے کو یہ انداز ہو اعراضِ بُتاں کا 
ظاہر ہے کہ منہ پھیر لیا ہم سے خُدا نے 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں