"MIK" (space) message & send to 7575

’’غریبانہ‘‘ آئے، صدا کر چلے!

ایسا نہیں ہے کہ ہم پر ہمیشہ صرف بُرا وقت گزرا ہے‘ اِس قوم کے نصیب میں کبھی اچھا وقت بھی ہوا کرتا تھا۔ جن کی عمریں خاتمے کی منزل تک آ گئی ہیں وہ سوچتے ہیں کہ وہ بھی کیا زمانہ تھا جب پاکستان میں قیمتیں قابو میں رہا کرتی تھیں، بنیادی سہولتوں کی فراہمی کا نظام بھی کارگر تھا، بجلی ہوا کرتی تھی۔ لوڈ شیڈنگ کیا بلا ہوتی ہے؟ کسی کو کچھ معلوم نہ تھا۔ یقین سے کہا جا سکتا ہیے کہ وہ کوئی بہت پرانا زمانہ ہوگا جب بجلی ہوا کرتی تھی‘ تب اُس سے لگنے والے جھٹکے بھی ہوا کرتے تھے۔ بجلی نہ رہی تو وہ جھٹکے بھی نہ رہے۔ ہاں! بجلی کے نرخوں کو سُن کر اور بجلی کے بل دیکھ کر لگنے والے جھٹکے ضرور ہیں اور گام گام ہیں۔ جو معاملہ بجلی کا ہے کم و بیش ویسا ہی معاملہ پٹرولیم مصنوعات کا بھی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات آتش گیر ہوتی ہیں مگر سچ یہ ہے کہ اب اُن سے زیادہ تو اُن کے نرخ آتش گیر ہیں! پٹرولیم نرخ بھی خوب ہیں۔ جب یہ بڑھتے ہی تو ہر چیز کے دام بڑھ جاتے ہیں مگر جب ان میں کمی آتی ہے تب کچھ بھی سستا نہیں کیا جاتا۔ پٹرول کے بڑھتے ہوئے نرخوں نے موٹر سائیکل چلانے والوں کو تھوڑا بہت نہیں بلکہ اچھا خاصا ''سائیکولوجیکل‘‘ بنا ڈالا ہے۔ معاملہ کچھ یوں ہے کہ بہت سے لوگ جیب پر پڑنے والے بوجھ کے باعث موٹر سائیکل چھوڑ کر دوبارہ سائیکل یعنی بائیسکل کا آپشن اپنانے پر مجبور ہیں۔ مرزا تنقید بیگ کے خیال میں موٹر سائیکل سے سائیکل پر آنا کسی بھی اعتبار سے تنزلی نہیں بلکہ اچھی خاصی حد تک ترقی کی علامت ہے! مرزا کی بات سُن کر ہم زیادہ حیران نہیں ہوئے کیونکہ مرزا مارکیٹنگ کا ہنر بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ وہ عموماً ایسی ہی (یعنی اوٹ پٹانگ) باتیں کرتے ہیں جنہیں سُن کر لوگ خواہ مخواہ متوجہ ہوں! مجمع سوگواروں کا ہو یا کہیں باراتی جمع ہوں، مرزا اپنی مرضی کا راگ الاپتے ہیں اور بالعموم لوگوں کی توجہ پانے میں کامیاب رہتے ہیں۔ اب اِسے مرزا کی خوش نصیبی کہیے یا کچھ اور کہ ٹائم ہی کچھ ایسا ہے کہ لوگ ہر اوٹ پٹانگ بات کو نہ صرف پوری توجہ سے سُنتے ہیں بلکہ اُس پر غور بھی کرتے ہیں! 
معروف کامیڈین نے ایک تقریب میں بتایا تھا کہ ابتدائی دور میں (جو جدوجہد پر مبنی تھا) وہ اور جاوید شیخ ٹی وی سٹیشن کے چکر ساتھ ساتھ لگایا کرتے تھے۔ عمر شریف نے بتایا کہ اُن کی والدہ جاوید شیخ سے کہا کرتی تھیں ''بیٹا! دل چھوٹا نہ کرو۔ محنت رنگ لاتی ہے۔ تمہیں بھی پوچھا جائے گا، ایک دن بڑے منہ کا بھی فیشن آئے گا!‘‘ مرزا کے معاملے میں بھی یہی ہوا ہے۔ ہم سمجھتے تھے کہ اوٹ پٹانگ اور بے سَر و پا باتوں کو بھلا کون پوچھتا ہے۔ مگر صاحب، وقت نے ایسی کروٹ لی ہے کہ مرزا کے لیے بھی سامعین اور معتقدین پیدا ہوگئے ہیں! آپ سوچیں گے موٹر سائیکل چلانے میں ناکام رہنے پر سائیکل کو دوبارہ اپنانے میں ترقی کا کون سا اشارہ چھپا ہوا ہے؟ مرزا کہتے ہیں ''چین ایک ترقی یافتہ ملک ہے اور وہاں کروڑوں افراد سائیکل چلاتے ہیں۔ یورپ کے ترقی یافتہ ممالک میں بھی لوگ چھوٹے فاصلوں کے لیے سائیکل کے استعمال کو ترجیح دیتے ہیں۔ پڑوسی ملک بھارت ہی کی مثال لیجیے جہاں لوگ سائیکل کو آج بھی زندگی کا حصہ بنائے ہوئے ہیں‘‘۔
ہم نے عرض کیا کہ حکومت پٹرول کے نرخ بڑھاکر ہماری موٹر سائیکلوں کو ناکارہ بنانے اور ہمیں ''ری سائیکل‘‘ کرنے یعنی دوبارہ سائیکل کے زمانے میں بھیجنے پر تُلی ہوئی ہے اور آپ اِس اقدام کو ترقی کی علامت گرداننے پر کمربستہ ہیں۔ آپ کی یہ بات بھی ہماری سمجھ سے بالاتر ہے! 
مرزا پھر شروع ہوگئے ''ہمیں تو بس عادت پڑگئی ہے کہ حکومت جو کچھ بھی کرے اُس میں کیڑے ہی تلاش کریں۔ کبھی ہم نے یہ بھی سوچا ہے کہ حکومت کے بیشتر اقدامات کی کوکھ سے چند ایک آسانیاں اور سہولتیں بھی جنم لیتی ہیں؟‘‘ ہم نے حیران ہوکر کوئی مثال چاہی تو مرزا نے کمال بے نیازی سے وضاحت فرمائی ''غریبوں کو روزانہ، نہ چاہتے ہوئے بھی، دو وقت کی روٹی کا اہتمام کرنا پڑتا ہے۔ حکومت کی مہربانی سے کھانے پینے کی اشیاء اب اُس مقام پر پہنچ گئی ہیں کہ اُن کے نرخ پوچھنے پر بھی پیٹ کچھ بھرا بھرا سا محسوس ہونے لگتا ہے! ایسے میں کوئی ایک وقت کی روٹی کا اہتمام بھی کر پائے تو بڑی بات ہے۔ حکومت نے غربیوں کو صرف ایک وقت پیٹ بھرنے کی فکر میں غلطاں رہنے کا راستہ سُجھایا ہے! اب اگر کوئی خواہ مخواہ دو یا تین وقت پیٹ بھرنے کا سوچے تو یہ اُس کے ذہن کا ٹیڑھا پن ہے!‘‘ 
ہم نے عرض کیا اگر یہی حال رہا تو لوگ ایک وقت کی روٹی کے بارے میں سوچنا چھوڑ دیں گے! مرزا بولے ''یہ بھی حکومت کی مہربانی ہی ہوگی کیونکہ روحانیت کا ایک بلند درجہ یہ بھی ہے کہ انسان کھانے پینے کی فکر سے بہت حد تک آزاد ہو جائے۔ حکومت ہمیں بلند روحانی درجات تک لے جانا چاہتی ہے مگر ہم ہیں کہ ناشکرے پن کا مظاہرہ کر رہے ہیں!‘‘ 
ہم نے عرض کیا محترم! یہ بھی مہنگائی ہی کا چمتکار ہے کہ لوگ خودکشی پر مجبور ہیں۔ زندگی ڈھنگ سے بسر کرنا ممکن نہ ہو تو موت ہی سب سے بڑی اُمید کے درجے پر فائز ہو جاتی ہے۔ جن کے گھر میں چولھا نہیں جل پا رہا وہ خود کو سُلگاکر موت کا چراغ روشن کرکے زندگی کا اندھیرا دور کر رہے ہیں!
مرزا کب ماننے والے تھے (اور ہیں)۔ جب وہ کسی کی بات نہ ماننے پر تُل جائیں تو اُن کے منہ سے دلائل کا سیلاب اُمڈا آتا ہے! حکومت کے دفاع پر مزید کمر بستہ ہوکر فرمایا ''چند عاقبت نا اندیش لوگوں نے حکومت کو اِس مغالطے میں مبتلا کر دیا تھا کہ غربت ختم کرنے کا ایک اچھا طریقہ یہ بھی ہے کہ غریبوں ہی کو ختم کردیا جائے! (یہ سوچ شاید بھارت میں کسانوں کی خودکشی سے اخذ کی گئی تھی) حکومت کے اہلِ دانش کو جلد اندازہ ہوگیا کہ یہ کوئی مقبول و محبوب روش نہیں۔ اب حکومت چاہتی ہے کہ غریب خودکشی کا خیال اپنے دل سے نکال دیں۔ پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافے کی ایک غایت یہ بھی ہے کہ غریب خودکشی کا خیال تک دل میں نہ لائیں‘‘۔ ہم نے ایک بار پھر حیران ہوکر پوچھا کہ خودکشی کا سلسلہ روکنے سے پٹرولیم نرخوں میں اضافے کا کیا تعلق ہے؟ مرزا نے فخر سے تنی ہوئی گردن گھماکر ہمیں دیکھا اور ہماری ''سادگی‘‘ اور ''کم فہمی‘‘ پر (بے کہے) لعنت بھیجتے ہوئے وضاحت فرمائی ''مہنگائی کے ستائے ہوئے لوگ مٹی کا تیل یا پٹرول اپنے جسم پر چھڑک کر خودکشی کر لیا کرتے تھے۔ اُن کی یہ روش حکومت کو دنیا بھر میں بدنام کرتی تھی۔ اب یہ حل نکالا گیا ہے کہ مٹی کا تیل اِتنا مہنگا کر دیا جائے کہ غریب جل مرنے کا خیال بھی دل میں لاتے ہوئے خوف محسوس کرے اور صرف زندہ رہنے کے بارے میں سوچے! حکومت غریبوں کو زندگی دینا چاہتی ہے مگر سراہنا تو ایک طرف رہا، اِس معاملے میں بھی اُسے شک کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔‘‘ 
مرزا سے بحث فضول تھی۔ ہمیں اندازہ تھا کہ پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں حالیہ ریکارڈ اضافے کو بھی وہ کسی نہ کسی طرح مثبت قرار دے کر دم لیں گے۔ ہو سکتا ہے کہ اُن کے ذہن میں یہ بات ہو کہ حکومت پٹرولیم مصنوعات کو زیادہ سے زیادہ مہنگا کرکے لوگوں کو ''بائی واک‘‘ کرنا یعنی پیدل چلنے پر مجبور کرنا چاہتی ہے تاکہ صحت کا معیار بلند ہو! مرزا کو اِس بات کا ذرا بھی احساس نہیں کہ جب وہ اپنی کسی بھی (ظاہر ہے بے ڈھنگی!) بات کو درست ثابت کرنے کے لیے دلائل پر دلائل دیتے جاتے ہیں تو لوگ خود پر مٹی کا تیل چھڑکے بغیر ہی پورے وجود کو آگ کی لپٹوں میں گِھرا ہوا محسوس کرتے ہیں!
حکومت کی ''غریب پروری‘‘ کا یہی حال رہا تو وہ دن زیادہ دور نہیں جب حالات کی چکی میں پسنے والے جینے کے ہاتھوں مر چلیں گے اور دنیا سے رختِ سفر باندھتے ہوئے زبانِ بے زبانی سے کہیں گے ؎ 
''غریبانہ‘‘ آئے‘ صدا کر چلے 
میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں