لکھنے والے جو کچھ بھی لکھتے ہیں وہ اول و آخر افتادِ طبع کا نتیجہ ہوتا ہے۔نظم اور نثر دونوں کے معاملے میں دو نظریات موجود رہے ہیں؛ ادب برائے ادب اور ادب برائے زندگی۔ ادب برائے ادب یہ ہے کہ انسان اپنے دل کی تسکین کے لیے لکھے۔ جو کچھ بھی ذہن کے پردے پر ابھرے‘ اُسے باضابطہ ادبی شکل دے کر دنیا کے سامنے پیش کرنا ہر لکھنے والے کی اولین ترجیح ہوا کرتا ہے۔ معاملہ سخن گوئی کا ہو یا نثر نگاری کا، بات ذاتی ذوق و شوق اور لگن سے شروع ہوکر دل کی تسکین پر ختم ہوتی ہے۔ ہر دور کے لکھنے والوں نے یہی طریق اپنایا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خیالات میں گہرائی اور گیرائی پیدا ہوتی گئی۔ سوچنے والوں نے جو کچھ بھی سوچا اُسے اِس طور پیش کرنا چاہا کہ دنیا اُن کی لیاقت اور افتادِ طبع کی قائل ہو۔ یہ فطری تقاضا اور عمل تھا۔ ہر انسان اپنے فن سے اول اول اپنی ہی تسکین چاہتا ہے۔ ہر دور کے شعرا اور نثر نگاروں نے قلم تھامنے کے بعد اپنے وجود ہی کو ترجیح دی ہے۔ یونان کے فلسفی ہوں یا قدیم ہندوستان کے مفکر، قرونِ وسطیٰ کے شعرا ہوں یا نشاۃِ ثانیہ عہد کے ناول نگار... سبھی اپنی تسکین کے خواہاں دکھائی دیتے ہیں۔ ایک دور تھا کہ لکھنے کا صرف ایک مطلب تھا؛ علمیت کا اظہار‘ تاکہ پڑھنے والے مرعوب ہوں۔ جب لکھنا آسان نہ تھا یعنی لکھنے کے لیے درکار سہولتیں عام نہ ہوئی تھیں تب سماعت سے کام لیا جاتا تھا۔ اہلِ علم کہیں جمع ہو جاتے تھے اور لوگ اُنہیں سنتے تھے۔ ایسے میں مسابقت کا ماحول خوب پنپتا تھا اور جسے بھی اجتماع سے خطاب کا موقع ملتا تھا وہ علم کے حوالے سے طبیعت کی جولانیاں خوب دکھاتا تھا۔ یہ دور ادب سے زیادہ علم کا تھا۔ کہانیاں سُنانے کی روایت توانا نہیں ہوئی تھی۔ عام آدمی جنہیں سننے جاتا تھا وہ اول و آخر اہلِ علم ہوا کرتے تھے اور ہر معاملے پر بحث کرنے کو اپنا فریضہ گردانا کرتے تھے۔ یہ نکتہ نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے کہ اُس دور کے اہلِ علم اپنی بات کو خالص علمی انداز سے بیان کرنے کے روادار تھے یعنی اِس بات سے کچھ خاص غرض نہیں ہوتی تھی کہ کس کی سمجھ میں کیا آیا۔ اور آیا بھی یا نہیں۔ کوشش یہ ہوتی تھی کہ ہر بات خالص علمیت کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہو اور لوگ محض لوگ نکتہ آفرینی کی داد نہ دیں بلکہ علمیت کو بھی سراہیں۔ علمیت کی بنیاد پر سراہے جانے کی خواہش کے توانا رہنے کا نتیجہ یہ نکلتا تھا کہ جو کچھ بھی کہا جاتا تھا‘ وہ خاصا دقیق ہوتا تھا، عام آدمی کی سمجھ میں مشکل سے آتا تھا۔ گویا اِس بات کی زیادہ اہمیت تھی کہ جو کچھ بھی کہا جائے وہ کم ہی لوگوں کی سمجھ میں آئے۔
جب علمیت کی انتہاء ہوگئی تب ردِعمل کے طور پر کچھ ایسا کہنے کا آغاز ہوا جو سہل ہو، لوگوں کی سمجھ میں آئے۔ شعراء جو کچھ بھی کہتے تھے وہ اُن کے اپنے مشاہدات اور افکار کی بنیاد پر کھڑی ہوئی عمارت کے مانند ہوتا تھا مگر وہ چاہتے تھے کہ بات دنیا کی سمجھ میں بھی آئے۔ اگر بات پڑھنے یا سننے والوں کے سَروں سے گزر جائے تو کہنے کا فائدہ؟ یوں قدرے آسان کہنے کی ابتداء ہوئی، مگر خیر یہ بھی کچھ ایسا آسان نہ تھا۔ علمیت کا دبدبہ قائم کرنے کی خواہش نے پوری طرح دم نہیں توڑا تھا۔ شعراء ایسے شعر کہنے لگے جن میں تھوڑی بہت ''عوامیت‘‘ بھی پائی جاتی تھی مگر خیر، مجموعی طور پر تخلیقات کا معیار (فکر اور اُسلوب کے اعتبار سے) اِتنا بلند رکھا جاتا تھا کہ عام آدمی کے لیے بات کو پوری طرح سمجھنا لوہے کے چنے چبانے کے مترادف ہوتا تھا۔
پندرہویں صدی عیسوی میں اہلِ یورپ نے ادب کے حوالے سے رویہ تبدیل کیا۔ دیگر خطوں میں بھی ایسا لکھنے کی ابتداء ہو چکی تھی جو بہت حد تک عوام کے لیے ہوں یعنی اُن کی سمجھ میں آئے اور وہ اچھی طرح مستفید ہوں۔ اہلِ یورپ نے اس معاملے میں انقلابی نوعیت کی سوچ اپنائی۔ شعوری کوششوں کا آغاز ہوا۔ اہلِ علم نے چاہا کہ عوام کو ذہن نشین رکھتے ہوئے لکھا جائے تاکہ لکھنے سے محض لکھنے والے کی تشفی نہ ہو بلکہ عوام بھی فیض یاب ہوں۔ گویا عوام کے مفاد کو ذہن میں رکھتے ہوئے لکھنے کی ابتدائی ہوئی۔ یہ ادب برائے زندگی کا رویہ تھا جسے لکھنے والوں نے شعوری طور پر اپنایا۔ صدیوں کے عمل سے افکار پر جو گرد جم گئی تھی اُسے دور کرنے کا سوچا گیا۔
یورپ اور اس کے بعد امریکا میں عوام کے لیے لکھنے کی تحریک سی شروع ہوئی۔ لکھنے والوں نے طے کیا کہ عوام کی فکری سطح بلند کرنے پر متوجہ ہوں گے یعنی ایسا لکھیں گے جس کے نتیجے میں لوگ کچھ سوچنے پر مائل ہوں، اپنی اصلاح کا خیال دل میں لائیں اور زندگی مجموعی طور پر کچھ نیا پن محسوس کرے۔ ابتداء مذہب کا سہارا لیتے ہوئے ہوئی۔ ''نیو تھاٹ‘‘ کے زیر عنوان جو تحریک شروع ہوئی اُس نے پڑھنے والوں کو اصلاحِ نفس پر مائل کیا اور اس معاملے میں مذہبی تعلیمات کو بنیاد بنایا۔ سودا کچھ زیادہ بُرا نہ تھا کیونکہ اصلاً تو یہ مقصود تھا کہ لوگ خود کو بدلنے پر مائل ہوں۔ لوگ جب پڑھنے کے عادی ہوئے تو سوچنے کی تحریک بھی پانے لگے۔ نیو تھاٹ تحریک کے تحت جو کچھ لکھا گیا وہ خالص نفسی اصلاح کے نقطۂ نظر کے تحت تھا۔
یورپ میں صنعتی انقلاب برپا ہوا تو علم و ادب کی دنیا میں بھی انقلاب کی راہ نہ روکی جا سکی۔ محض علمی دبدبہ قائم کرنے کے نقطۂ نظر سے لکھنے کا دور گیا اور ایسے اہلِ قلم سامنے آئے جو زندگی کا معیار بلند کرنے پر متوجہ تھے۔ اُن کی کوشش تھی کہ لوگ پڑھیں اور اپنی اصلاح کرتے ہوئے زندگی کا عمومی معیار بلند کریں۔ خالص علمی نوعیت کی تحریروں سے یہ مقصد حاصل نہیں کیا جا سکتا تھا کیونکہ وہ غیر معمولی سطح پر دقیق ہوتی تھیں اور عام آدمی اُنہیں سمجھ ہی نہیں پاتا تھا۔ یہی سبب تھا کہ خالص علمی تخلیقات قبولِ عام کی سند پانے کی منزل تک نہیں پہنچ پاتی تھیں۔ یہ وہی کیفیت تھی جس کے بارے میں ہمارے ہاں (غالبؔ کے حوالے سے) کہا گیا ؎
کلامِ میرؔ سمجھے اور زبانِ میرزا سمجھے
مگر اِن کا کہا یہ آپ سمجھیں یا خدا سمجھے!
ادب برائے زندگی کی تحریک کو پروان چڑھانے میں مغرب معاشرے کے بدلتے ہوئے رجحانات نے کلیدی کردار ادا کیا۔ جب صنعتی ترقی نے انسان کو مشین بنانے کا عمل شروع کیا تب وقت کی کمی کا احساس پیدا ہوا۔ بہتر زندگی کے لیے مطلوب مادّی وسائل کا حصول یقینی بنانے کی جدوجہد میں مصروف لوگوں کے لیے دقیق علمی تخلیقات سے حِظ اٹھانا ممکن نہ رہا۔ حالات کے تقاضوں کے تحت لازم ہوگیا کہ وہ لکھا جائے جو مفادِ عامہ کے تقاضے پورے کرتا ہو۔ یوں ادب برائے زندگی کا دور شروع ہوا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عوام کے لیے لکھنے میں خرابیاں بھی ہیں۔ جب کوئی مصنف عوام کو ذہن نشین رکھ کر لکھتا ہے تو اپنی ذہنی سطح سے نیچے بھی آنا پڑتا ہے۔ اور کبھی کبھی تو معاملہ بھیانک حد تک بگڑ جاتا ہے۔ عوام کے لیے لکھنے سے علمی سطح بہت حد تک جاتی رہتی ہے مگر خیر، لکھنے والے پر منحصر ہے کہ وہ کس طور اپنی سطح سے بھی نہ گرے اور عوام کی سمجھ میں آنے والی بات بھی کر جائے۔
ادب برائے زندگی نے جب پیشہ ورانہ سطح پر فروغ پایا تو عوامی نوعیت کا ادب ضبطِ تحریر میں لانے کی ابتداء ہوئی۔ بعد میں ریڈیو اور ٹی وی کے ڈراموں کی شکل میں‘ اور اب فلموں کی شکل میں جو کچھ لکھا جارہا ہے وہ بھی ادب برائے زندگی ہی کا ایک روپ ہے۔ ہاں، کہیں کہیں عوام کے لیے قابلِ فہم بنانے کے چکر میں بات سطحی ہو جاتی ہے مگر خیر ع
اِس طرح تو ہوتا ہے اِس طرح کے کاموں میں
لکھنے والے کا اصل کمال یہ ہے کہ وہ ادب برائے زندگی کا قائل ہو یعنی مفادِ عامہ کو ذہن میں رکھتے ہوئے لکھے اور اپنے دل کی بات بھی ڈھنگ سے کہہ جائے۔