بے صبری کا کوئی علاج ممکن ہے؟ ہے تو سہی مگر لوگ اِس طرف آتے نہیں۔ بے صبری کے نتیجے میں جو کچھ بھگتنا پڑتا ہے وہ بھگتنے کے بعد بھی انسان اپنی یہ روش ترک نہیں کرتا اور معاملات کو سلجھانے کے نام پر وہی کچھ کرتا رہتا ہے جس سے یہ مزید الجھ جائیں۔ ایسا کیوں ہے؟ دل پر اختیار کیوں نہیں رہتا؟ حواس پر قابو پانا ممکن کیوں نہیں ہو پاتا؟
بات کچھ یوں ہے کہ انسان، خلّاقِ حقیقی کے فرمان کے مطابق‘ بہت ہی ناشکرا اور بے صبرا ہے۔ جب ہمارے خالق اور رب نے ہمیں بے صبرا قرار دے دیا ہے تو...؟ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمیں ہر معاملے میں بے صبرا رہنا ہے بلکہ اللہ کی مرضی اور مشیّت کے مطابق خود کو بدلنے کی کوشش کرنی ہے تاکہ معاملات درست ہوں۔ بے صبری بگاڑنے والا معاملہ ہے۔ اس معاملے سے ہمیں بچنا ہے‘ دامن چھڑانا ہے۔ انسان کا عمومی مزاج ہے ''بے فکری‘‘ اور بے عملی۔ مسائل ابھرتے ہیں اور حل نہ کیے جانے پر شدت اختیار کرتے جاتے ہیں۔ ہر معاشرے کا یہی معاملہ ہے۔ مسائل کو حل کرنے پر متوجہ نہ ہونے والے بہت جلد پریشان ہو اٹھتے ہیں۔ جب کسی بھی پیچیدگی کو دور کرنے کی کوشش نہیں کی جائے گی تو وہ زور پکڑے گی اور وسیع تر خسارے کا باعث بنے گی۔ یہ اتنی سیدھی سی بات ہے کہ بچے کی سمجھ میں بھی آسکتی ہے مگر افسوس کہ پختہ عمر کے بظاہر باہوش و باشعور انسان نہیں سمجھ پاتے۔
ہر صورتحال ہم سے تعقل اور عمل کا تقاضا کرتی ہے۔ پہلے تو ہمیں صورتحال کو سمجھنا ہوتا ہے اور اُس کے بعد عمل کی تیاری کرنا ہوتی ہے۔ یہ سب کچھ حساب کتاب سے ہوتا ہے۔ ہر چیز اپنے مقام پر اچھی لگتی ہے۔ تفہیم کے مرحلے میں کوشش کارگر ثابت نہیں ہوتی۔ اِسی طور جہاں عمل درکار ہو وہاں غور و فکر میں غرق رہنے سے بات نہیں بنتی۔ ہم زندگی بھر اِسی اُدھیڑ بُن میں رہتے ہیں۔ جو کچھ کرنا چاہیے وہ ہم نہیں کرتے اور جن باتوں سے بچ کر چلنا چاہیے اُنہی باتوں میں الجھے رہتے ہیں۔ عمومی سطح پر ہم وہ زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں جو کسی بھی زاویے سے دیکھنے اور پرکھنے پر زندہ رہنے کا حق ادا کرتی ہوئی دکھائی نہیں دیتی۔ ایسا اس لیے ہے کہ کچھ بھی اپنے مقام پر نہیں۔ غور و فکر ٹھکانے پر ہے نہ عمل۔ زندگی ہم سے سنجیدگی کا تقاضا کرتی ہے۔ سنجیدگی کا مطلب یہ ہے کہ ہم کسی بھی معاملے کے تمام پہلوؤں کا ''اچھے سے‘‘ سے جائزہ لیں، ایک رائے قائم کریں، اُس رائے کے مطابق منصوبہ سازی کریں اور یوں عمل کو زیادہ سے زیادہ آسان، کارگر اور نتیجہ خیز بنائیں۔ یہ سب کچھ اس وقت ممکن ہے جب ہمیں اِس کی تربیت دی گئی ہو۔ زندگی ڈھنگ سے بسر کرنا ایک فن ہے جو سیکھنا اور سکھانا پڑتا ہے۔ معاشرے کے عمومی دھارے میں بہنے کی صورت میں آپ کسی بھی طرف جا نکلیں گے۔ سفر کو منزل آشنا رکھنا ہے تو شعوری کوشش لازم ٹھہری۔
ڈھنگ سے جینے کے لیے بہت سے اوصاف پروان چڑھانا پڑتے ہیں۔ اللہ نے ہم میں جو صفات رکھی ہیں اُنہیں مستحکم کرتے رہنے پر توجہ دینا لازم ہے۔ یہ سب اپنے آپ نہیں ہوتا، کرنا پڑتا ہے۔ توجہ بھی لازم ہے اور تربیت بھی۔ بہتر زندگی کیونکر بسر کی جائے، یہ بتانے کے لیے اب ادارے موجود ہیں، نصاب دستیاب ہے، مواد ملتا ہے۔ اور یہ سب کچھ کم و بیش مفت ہے۔ شخصی ارتقا کے شعبے میں کام کرنے والوں نے عام آدمی کے لیے بہتر زندگی بسر کرنے کے لیے درکار خصوصیات پیدا کرنا بہت آسان کردیا ہے۔ مگر ہاں! بنیادی چیز ہے صبر اور تحمل۔ جب تک اس صفت کو پروان نہ چڑھایا جائے تک کچھ بھی حاصل نہیں ہو پاتا۔ اور معاملہ یہیں تک نہیں رکتا۔ اگر صبر کی عادت پروان نہ چڑھائی گئی ہو تو بنا بنایا کھیل بگڑ جاتا ہے، معاملات بلا جواز طور پر یوں الجھ جاتے ہیں کہ اپنے ساتھ اور بہت سی چیزوں کو لے ڈوبتے ہیں۔
معاملہ یہ ہے کہ ہر معاملہ اپنی تکمیل کے لیے ایک خاص وقت چاہتا ہے۔ اگر ہم تیزی دکھائیں تو مطلوب نتائج حاصل نہیں ہو پاتے۔ بے صبری کے ہاتھوں بہت سے معاملات کچے یا بے نتیجہ رہ جاتے ہیں۔ غالبؔ نے کہا تھا ؎
عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب
دل کا کیا رنگ کروں خونِ جگر ہونے تک
دانش کا تقاضا ہے کہ جہاں صبر لازم ہو وہاں صبر ہی کیا جائے۔ دل میں پلنے والی ہر تمنا ہم سے بے صبری کا مطالبہ کرتی ہے۔ ہر تمنا فوری نتائج چاہتی ہے۔ کم ہی لوگ اس معاملے میں اپنے دل و دماغ کو قابو میں رکھ پاتے ہیں۔ کبھی آپ نے کسی بھی معاملے پر ٹھنڈے دماغ سے غور کرنے کی زحمت گوارا کی ہے۔ ہوسکتا ہے آپ نے ایسا کیا ہو مگر حقیقت یہ ہے کہ عمومی سطح پر لوگ ایسا نہیں کرتے۔ جب بھی کوئی مشکل صورتحال سامنے آتی ہے تب بے صبری ہی دکھائی جاتی ہے۔ ہر صورتحال ہم سے فہم و ادراک کی منزل تک پہنچنے کا تقاضا کرتی ہے۔ کسی بھی مسئلے کو حل کرنے کی کوششوں کے آغاز سے قبل اُس کا سمجھنا لازم ہے۔ مسئلہ جب تک سمجھ میں نہ آئے تک اُس کے حل سے متعلق کوششیں مطلوب نتائج پیدا نہیں کرتیں۔ مسئلے کا ادراک ہی ہمیں راستہ سُجھاتا ہے اور یوں ہم عمل کے سفر کا آغاز کرتے ہیں۔
ہر خیال پروان چڑھنے کے لیے وقت مانگتا ہے اور ہر عمل بارآور ثابت ہونے کے لیے صبر کا طالب رہتا ہے۔ یہ سب کچھ فطری ہے۔ اگر ہم فطرت کے طے کردہ اصولوں سے ہٹ کر کچھ کرنا چاہیں تو معاملہ ہماری مرضی کی منزل تک نہیں پہنچ پاتا۔ یہ اصول سب کے لیے ہے۔ ہر معاشرہ اِسی اصول کا پاس دار ہے۔ صبر و تحمل کائنات کے ہر معاملے سے ظاہر ہے۔ بیج مٹی کی تاریکی میں پڑا رہتا ہے، پھر پُھوٹتا ہے، اُس میں سے کونپل نکلتی ہے، کونپل پودے میں تبدیل ہوتی ہے اور پودا بڑا ہوکر پھول یا پھل لاتا ہے۔ یہ سب کچھ ایک نظام کے تابع ہے۔ سب کچھ مرحلہ وار ہوتا ہے اور ہر مرحلہ وقت کا طالب ہے۔ وقت یعنی صبر اور تحمل۔ ہمیں کسی بھی معاملے میں اپنی سی کوشش کرچکنے کے بعد صبر کا دامن تھامنا پڑتا ہے کیونکہ نتائج اللہ کے ہاتھ میں ہوتے ہیں۔
بے صبری انسان کو ذوق و شوقِ عمل سے دور کردیتی ہے۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں، بے صبری معاملات کی پیچیدگی بڑھاتی ہے۔ اس معاملے میں دل و دماغ کی تربیت لازم ہے۔ یہ تربیت ہی طے کرے گی کہ ہم کیا کرسکتے ہیں اور کیا نہیں کرسکتے۔ صبر و تحمل کی راہ پر چلنا ایسا آسان نہیں جیسا عموماً سمجھا جاتا ہے۔ کسی کا ایک آدھ لیکچر سُن کر یا کوئی مضمون پڑھ کر انسان صبر و تحمل کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے سوچنا پڑتا ہے تاکہ کچھ سمجھ میں آئے اور معیاری انداز سے جینے کا لائحۂ عمل تیار کرنا ممکن ہو۔
صبر کا ایک واضح مفہوم یہ بھی ہے کہ ہم وقت کے نظم و نسق سے متعلق نظریات سے واقف ہوں۔ وقت کی موثر تقسیم و تنظیم لازم ہے تاکہ ہر کام مقرر وقت پر ہو اور ہم نتائج کے لیے انتظار کرنے کے بھی روادار ہوں۔ دانش کہتی ہے کہ ہم کسی بھی معاملے کے تمام مدارج سمجھیں۔ بے صبری ہم سے کہتی ہے کہ کچھ سوچنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جو درکار ہو وہ فوراً مل جانا چاہیے، بس۔ ایسا پوری کائنات میں کہیں نہیں ہوتا۔ کائنات کا ہر معاملہ ایک خاص نظم کے تحت ہے۔ کہیں بھی کچھ بھی راتوں رات یا پلک جھپکتے میں نہیں ہوتا۔ آج ہم دنیا میں جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ بھی تو ہزاروں سال کی محنت ِشاقّہ کا نتیجہ ہے مگر ہم سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے اور دل کا کہا مان کر بے صبری کو طریقِ زندگی بنالیتے ہیں۔ اور پھر مرتے دم تک اس روش پر گامزن رہنے کے نتائج بھگتتے رہتے ہیں۔ صبر ہی ہمیں معقول انداز سے جینے کے آداب سکھاتا ہے۔ یہ فن ہے‘ اِسے سیکھنے کی کوشش کیجیے‘ کامیاب ہوگئے تو بہت کچھ پائیں گے۔