عمر گزرتی جارہی ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ محض عمر نہیں ڈھل رہی، بہت کچھ ہاتھ سے نکلتا جارہا ہے۔ ہر دور کے انسان کو یہی محسوس ہوتا ہوگا مگر ہمارا معاملہ خاصا مختلف ہے۔ آج کے انسان کو گزرتے ہوئے دنوں کا معاملہ زیادہ ستا رہا ہے۔ حواس کے ذریعے ذہن پر مرتب ہونے والے دباؤ میں اِتنی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے کہ قدم قدم پر احساسِ زیاں دوچند ہوتا جاتا ہے۔
گزرے ہوئے زمانے یا زمانوں کو یاد کرکے رنجیدہ ہونا، دکھ محسوس کرنا انسانی مزاج کا حصہ ہے۔ ہر انسان میں یہ معاملہ کسی نہ کسی حد تک ضرور پایا جاتا ہے۔ کوئی بھی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اُسے گزرتے وقت کا احساس نہیں ہوتا یا اس معاملے میں کسی نہ کسی سطح پر دکھ محسوس نہیں ہوتا۔ فانیؔ بدایونی نے خوب کہا ہے ؎
ہر نفس عمرِ گزشتہ کی ہے میّت فانیؔ
زندگی نام ہے مَر مَر کے جیے جانے کا
ہم پل پل جی رہے ہیں اور پل پل مر رہے ہیں۔ ایسے میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا گزرے ہوئے زمانوں کو یاد کرکے ملول رہنا مستحسن امر ہے؟ کیا ہمیں یہ بات کچھ فائدہ پہنچاتی ہے؟ ہمیں اپنے ماحول میں ایسے بہت سے لوگ دکھائی دیتے ہیں جو کسی نہ کسی حوالے سے گزرے ہوئے زمانے کو یاد کرکے اپنا اور دوسروں کا جی جلاتے رہتے ہیں۔ کیا اُن کی یہ روش کسی بھی اعتبار سے مثبت سوچ کی حامل قرار دی جاسکتی ہے؟
نفسی امور کے ماہرین کہتے ہیں کہ انسان کو گزرے ہوئے زمانوں پر زیادہ متوجہ ہونے کے بجائے آنے والے زمانوں کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ جو ہوچکا ہے اُسے تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ ماضی صرف حوالے کے لیے ہوتا ہے، زندگی بسر کرنے کے لیے نہیں۔ ماضی کو تبدیل کرنا چونکہ کسی کے لیے ممکن نہیں اس لیے نفسی امور کے ماہرین کا مشورہ ہے کہ انسان کو عہدِ حاضر میں سانس لینے پر متوجہ رہنا چاہیے۔ معاملہ یہ ہے کہ انسان گزرے ہوئے زمانے کو نظر انداز بھی نہیں کرسکتا۔ کرے کیسے؟ جو کچھ سوچا اور کیا وہ قدم قدم پر یاد آتا ہے۔ یاد آئے بغیر رہتا ہی نہیں۔ انسان کے مزاج میں یہ بات قدرت نے گوندھ دی ہے کہ جو کچھ گزر چکا ہے اُسے یاد کرے اور کچھ نہ کچھ پانے کی کوشش کرے۔ گزرا ہوا زمانہ انسان کو بہت کچھ دے سکتا ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ اُس سے کچھ حاصل کرنے کی خواہش پائی جاتی ہے یا نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم گزرے ہوئے زمانوں ہی کا کھا رہے ہیں۔ ہزاروں سال کے عمل میں جو کچھ بھی کیا گیا ہے اُس کے ثمرات آج ہمارے سامنے ہیں۔ ہزاروں سال کی دانش کے عملی مظاہر آج ہماری زندگی کو زیادہ سے زیادہ آسان بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اور یہ کوشش بہت حد تک کامیاب رہی ہے۔
کم و بیش ہر انسان کو یہ محسوس ہوتا رہتا ہے کہ گزرا ہوا زمانہ اچھا تھا۔ ماضی کو یاد کرکے اُس سے اکتسابِ قرار کی کوشش انسان کو بہت سے دکھوں سے چھٹکارا دلاتی ہے۔ ہر انسان کو قدم قدم پر یہ محسوس ہوتا رہتا ہے کہ بہت کچھ تھا جو وہ کرسکتا تھا اور کیا۔ ساتھ ہی ساتھ یہ احساس بھی ذہن میں جاگزیں رہتا ہے کہ اور بہت کچھ ایسا تھا جو کیا نہ جاسکا۔ جو کچھ انسان نہ کرسکا ہو اُس کے باعث کسک سی رہ جاتی ہے۔ یہ کسک دل کو دُکھاتی بھی ہے اور جِلاتی بھی ہے۔ کم ہی لوگ اس معاملے میں دل و دماغ کا توازن برقرار رکھ پاتے ہیں۔
لڑکپن کے فوراً بعد یعنی عنفوانِ شباب اور پھر بھرپور شباب کے عالم میں انسان کی سرمستی و بے خودی کا عالم کچھ اور ہی ہوتا ہے۔ اِس زمانے کو انسان مرتے دم تک نہیں بھول پاتا۔ قویٰ کی مضبوطی بہت کچھ کرنے کی تحریک دیتی ہے۔ دل اور دماغ قابو میں ہوں تو انسان بہت کچھ کر گزرتا ہے اور یوں زندگی کو رفعت نصیب ہوتی ہے۔ اثرؔ لکھنوی کہتے ہیں ؎
اپنی وفا نہ اُن کی جفاؤں کا ہوش تھا
کیا دن تھے جبکہ دل میں محبت کا جوش تھا
ہر گزرا ہوا دن اِس لیے بھی اچھا لگتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان کے لیے مشکلات بڑھتی جاتی ہیں۔ پیچیدگیوں میں تواتر سے رونما ہونے والا اضافہ زندگی کو زیادہ سے زیادہ اندوہ گیں بناتا چلا جاتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ انسان موجودہ حالت سے زیادہ خوش دکھائی نہیں دیتا اور گزرے ہوئے ایام کو یاد کرکے روتا ہے۔
ماضی کو یاد کرکے رونا اگرچہ انسان کی فطرت یا مزاج کا حصہ ہے تاہم تھوڑی بہت تربیت کے ذریعے اس معاملے پر اس طور تصرف پایا جاسکتا ہے کہ نقصان کا احتمال کم رہ جائے اور امکانات زیادہ روشن ہوجائیں۔ ماضی پرستی ایک خاص حد میں رہے تو انسان کے لیے نعمت سے کم نہیں۔ گزرے ہوئے ایام یا ادوار کو یاد کرکے دل بہلانا کسی بھی درجے میں کوئی بہت بُری بات نہیں۔ انسان تین زمانوں کا باشندہ ہے۔ وہ ماضی سے تعلق ختم نہیں کرسکتا اور آنے والے زمانوں کے بارے میں سوچنے سے باز نہیں رہ سکتا۔ ہاں، معاملات اس وقت خرابی کی طرف بڑھتے ہیں جب توازن کو خیرباد کہہ دیا جاتا ہے اور اعتدال کی راہ پر چلنے سے گریز کیا جاتا ہے۔
گزرے وقت میں جتنے بھی اچھے ایام پائے جاتے ہیں اُنہیں یاد کرکے کچھ نیا کرنے کی تحریک پانے میں کچھ ہرج نہیں۔ شعور اور دانش کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنے اچھے وقت کو یاد کرکے اُس سے کچھ نیا کرنے کی تحریک پائیں تاکہ زندگی کا رخ تبدیل ہو، معیار بلند ہو اور لوگ محسوس کریں کہ ہم میں بھرپور انداز سے زندگی بسر کرنے کی لگن نے دم نہیں توڑا۔
ہر گزرتا ہوا دن ہمیں موت کی طرف دھکیل رہا ہے۔ گزرتا وقت ہمارے قویٰ کو کمزور تر کرتا جارہا ہے۔ ہر صبح ہم ایک دن بوڑھے ہوچکے ہوتے ہیں۔ اس حقیقت کے بارے میں ہم عمومی سطح پر کم غور کرتے ہیں۔ بہت کچھ ایسا ہے جو ہو تو رہا ہوتا ہے مگر ہم اُس کے بارے میں زیادہ نہیں سوچتے اور پریشان بھی نہیں ہوتے۔ مگر خیر، تحت الشعور کی سطح پر تو سبھی کچھ متحرک رہتا ہے۔ انسان چاہے بھی تو تحت الشعور سے جان نہیں چھڑا سکتا۔ گزرا ہوا زمانہ ہمیں بالعموم اِسی لیے یاد رہتا ہے کہ اُس زمانے میں ہم زیادہ توانا، پُرعزم تھے اور متحرک تھے۔ گزرتا وقت ہمارے تحرّک کا گراف گراتا چلا جارہا ہے اس لیے ہم گزرے ہوئے زمانے کو یاد کرتے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ ہم گزرے ہوئے دور میں اپنے بہتر وجود کو تلاش کر رہے ہوتے ہیں۔ ہمیں وہ زمانہ بہت یاد آتا ہے جب ہم میں زیادہ توانائی تھی اور کام کرنے کی لگن بھی خاصی بلند سطح پر پائی جاتی تھی۔ صلاحیت و سکت کے اعتبار سے گزرا ہوا زمانہ ہی ہمیں کچھ کرنے کی تحریک دیتا ہے۔
زندگی کا حق ادا کرنے کی ایک معقول صورت یہ ہے کہ ہم کچھ نہ کچھ کرنے کی تحریک پاتے رہیں۔ عمل کی تحریک جتنی توانا ہوگی زندگی اُتنی ہی دلکش ہوگی۔ کسی بھی کامیاب انسان کے حالات پڑھیے، اندازہ ہوگا کہ وہ اپنے لیے عمل کی زیادہ سے زیادہ تحریک کا اہتمام کرنے پر متوجہ رہا اور کامیابی سے ہمکنار ہوتا چلا گیا۔ عمل کی زیادہ سے زیادہ تحریک یقینی بنانے میں خوشگوار یادیں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ ماضی کو خوشگوار یادوں سے آراستہ کیا جاسکتا ہے؟ کیوں نہیں؟ ہم آج جو کچھ کر رہے ہیں وہ کچھ مدت کے بعد ماضی ہوگا۔ تب ہم اپنے آج کے افکار و اعمال کو یاد کریں گے۔ دانش کہتی ہے کہ آنے والے دور میں اپنے لیے خوشگوار یادوں کا اہتمام کرنے کی ایک ہی معقول صورت ہے... یہ کہ ہم آج کچھ اچھا کریں۔ آج جتنی اچھی طرح گزرے گا اُتنی ہی اچھی طرح ہم مستقبل میں ماضی کا مزا لے سکیں گے۔
دنیا کہتی ہے ماضی کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ کیا جاسکتا ہے! ہم اس وقت ماضی ہی میں جی رہے ہیں۔ جی ہاں، یہ آنے والے دور کا ماضی ہی تو ہے۔ مستقبل کے اس ماضی کو یادگار بنانے کی ایک ہی ''ترکیب‘‘ ہے... یہ کہ ہم آج کو زیادہ سے زیادہ باعمل، نتیجہ خیز اور یادگار بنانے کی کوشش کریں۔