جو آیا ہے اُسے جانا ہے۔ جس نے دنیا میں قدم رکھا ہے اُسے بڑھایا ہوا قدم واپس بھی لینا ہے۔ یہ اس قدر حقیقی معاملہ ہے کہ انسان غور بھی نہیں کرتا۔ جو ہوکر ہی رہنا ہے اُس کے بارے میں کیا اور کیوں سوچا جائے۔ ٹھیک ہے، زندگی سی نعمت ایک دن واپس لے لی جائے گی، ہمیں یہاں سے رختِ سفر باندھنا ہی پڑے گا۔ جناب! رختِ سفر ہی کا تو سارا معاملہ ہے۔ آخرت میں ہماری کامیابی اِسی بات سے تو جانچی جائے گی کہ دنیا سے جاتے وقت ہمارے پاس کیا تھا اور کس طور حاصل کیا گیا تھا۔
دنیا میں آنے کے بعد انسان ہوش سنبھالنے سے آخری سانس لینے تک جو کچھ بھی کرنا ہے اُس کے بارے میں اُسے سوچتے ہی رہنا ہے کیونکہ جس طور زندگی بسر کی ہوگی اُس کا حساب لیا جائے گا۔ جو لوگ خلق کرنے اور پالنے والی ہستی پر یقین نہیں رکھتے وہ تو کسی نہ کسی طور بے فکر ہوکر زندگی بسر کرسکتے ہیں۔ سوال اُن کا ہے جو زندگی بھر اس امر پر یقین رکھتے ہیں کہ ایک عظیم ہستی نے یہ کائنات خلق کی ہے، وہی اُسے چلا رہی ہے اور ایک دن ہم سے ہماری زندگی کا حساب مانگے گی اور ہمیں حساب دینا ہی پڑے گا۔
ہمیں زندگی سی نعمت کیوں دی گئی ہے؟ کیا ہم سے کچھ نہ پوچھا جائے گا؟ دنیا میں گزارا ہوا وقت کس مقصد کے لیے تھا؟ ہم ان سوالوں پر بالعموم غور نہیں کرتے۔ عمومی سطح پر کوشش یہ ہوتی ہے کہ ہر زمینی اور بدیہی حقیقت سے چشم پوشی کرتے ہوئے اپنے آپ کو بھی دھوکا دیا جائے اور دوسروں کو چَھلنے سے بھی گریز نہ کیا جائے۔ انسان دوسروں کو دھوکا دینے کے نام پر دراصل اپنے آپ کو دھوکا دے رہا ہوتا ہے کیونکہ اعمال نامہ بالآخر اپنا ہی خراب ہوتا ہے۔ اعمال نامے کی سیاہی کے گراف کا بلند ہونا انسان کے لیے حقیقی اور حتمی خسارہ ہے۔ یہ حقیقت جس کی سمجھ میں آجائے اُس کے لیے بیک دو یکسر متضاد کیفیتیں پیدا ہوتی ہیں۔ ایک طرف تو وہ پریشانی سے دوچار رہتا ہے کیونکہ حق کی راہ پر چلنے کی صورت میں مشکلات وارد ہوکر رہتی ہیں۔ اور دوسری طرف اُس کا دل مطمئن بھی رہتا ہے کہ جو کچھ بھی خالق و رب نے چاہا‘ وہ کرنے کی کوشش کی۔
روئے زمین پر ہم جو وقت گزار رہے ہیں وہ آخرت کی تیاری کے لیے ہے۔ آخرت کی تیاری کا مطلب ہے زندگی اپنے خالق و رب کی مرضی کے مطابق بسر کرنا اور اِس دنیا سے ایسی حالت میں رخصت ہونا کہ کسی کو ہم سے کچھ شکایت نہ ہو، ہم کسی کے آگے پلکیں جھکانے پر مجبور نہ ہوں۔ ہم میں سے کون ہے جو رب کو مانتا بھی ہو اور آخرت میں اچھے انجام کی تمنا نہ رکھتا ہو؟ مگر کیا محض تمنا کرنے سے کچھ ہوسکتا ہے؟ یقینا نہیں۔ اگر ہم آخرت میں اچھا انجام چاہتے ہیں تو اُس کے لیے تیاری بھی کرنا ہی پڑے گی۔ روئے ارض پر ولادت کے ساتھ ہی بخشی جانے والی سانسیں صرف اس لیے ہیں کہ ہم اپنے خالق و رب کی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرنے کی خاطر خواہ کوشش کریں یعنی دوسروں کے کام آئیں، اُنہیں کسی بھی سطح کی بلا جواز تکلیف نہ دیں اور جہاں تک ممکن ہو دوسروں سے مستفید ہوتے ہوئے اپنی زندگی کو بامقصد اور بامعنی بنانے کی کوشش کریں۔
ہمیں بخشی جانے والی زندگی لین دین کے لیے ہے اور اسی کا حساب لیا جائے گا۔ لین دین کا مطلب صرف معاشی معاملات نہیں۔ ہم زندگی بھر لوگوں سے کچھ نہ کچھ لیتے رہتے ہیں اور اس کے بدلے میں انہیں کچھ دیتے بھی ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ہم کیا لیتے ہیں اور کیا دیتے ہیں۔ ہمیں قدم قدم پر دوسروں سے مدد درکار ہوتی ہے۔ زندگی کی گاڑی اِسی طور چلتی ہے۔ کوئی بھی تنہا کچھ نہیں کرسکتا۔ زندگی دوسروں سے کچھ خاص مدد لیے بغیر بھی بسر کی جاسکتی ہے مگر حق یہ ہے کہ اس طور زندگی کا حق ادا کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ دانش یہی کہتی ہے کہ انسان دوسروں سے مستفید ہو اور اُنہیں مستفید کرے۔ معیاری زندگی بسر کرنے کے لیے ہمیں جو کچھ بھی درکار ہوتا ہے اُس کے حصول کے لیے ہم ہمیشہ سرگرداں رہتے ہیں۔ قدم قدم پر لوگ ہماری مدد کرتے ہیں۔ کام کرنے کا یہی ڈھنگ موزوں ترین ہے۔ دوسروں سے مستفید ہونے کے ساتھ ساتھ ہم اُنہیں بھی اپنی ذات سے مستفید کرتے ہیں۔ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔ زندگی کو دیرپا کامیابی سے ہم کنار کرنے کا یہی معقول ترین طریقہ ہے۔
بنیادی سوال یہ ہے کہ ہم دوسروں سے جتنی مدد لیتے ہیں اُن کی اتنی ہی مدد کرتے ہیں یا نہیں۔ اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو یقینی طور پر نا انصافی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ لین دین برابری کی بنیاد پر ہونا چاہیے یعنی ہم دنیا سے جو کچھ لیں اُس کا جامع ترین نعم البدل اُسے دیں۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں ہم گویا حق ادا نہیں کرتے۔ دنیا نے جو کچھ بھی ہمیں دیا ہو وہ لوٹانا پڑتا ہے۔ یہ دنیا رنگین اور حسین ہے مگر صرف اُن کے لیے جن کے پاس رنگینی اور حُسن دیکھنے والی آنکھیں بھی ہوں اور دیدار کی خواہش بھی۔ اگر ہم طے کرلیں کہ دنیا کی رنگینی نہیں دیکھیں گے تو پھر وہ رنگینی ہمیں دکھائی ہی نہ دے گی۔
جب ہم یہ طے کرلیتے ہیں کہ زندگی ڈھنگ سے بسر کرنی ہے تب پوری سنجیدگی کے ساتھ کچھ کرنے کی تحریک ملتی ہے، کچھ کر دکھانے کا جذبہ جنم لیتا ہے۔ تحریک ملنے اور جذبہ پیدا ہوجانے کی صورت میں ہم دنیا کو قبول کرتے ہیں۔ ایسے میں اُس کی رنگینی بھی دکھائی دیتی ہے اور اُس کا حُسن بھی ہمیں اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ یوں زندگی میں مقصدیت پیدا ہوتی ہے اور ہم زیادہ بامعنی و بارآور زندگی بسر کرنے کی طرف بڑھتے ہیں۔ یہی کیفیت جب پروان چڑھتی اور پھیلتی ہے تب کچھ کر گزرنے کی سکت بھی پیدا ہوتی ہے۔ یہ سکت زندگی کو حقیقی مفہوم میں بامعنی، بامقصد اور بارآور بناتی ہے۔
دانش کی اصل یہ ہے کہ انسان دنیا میں گزارنے کے لیے ملنے والے وقت کے ایک ایک پل کو احسن طریقے سے بروئے کار لائے۔ خود بھی ڈھنگ سے جیے اور دوسروں کو بھی بہتر انداز سے زندگی بسر کرنے میں مدد فراہم کرے۔ ہمیں ملنے والی زندگی کسی بھی اعتبار سے ایسی نہیں کہ بے فکری اور بے عملی کی نذر کردی جائے۔ جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ اپنے وجود کو گُھن لگانے کے ساتھ ساتھ دوسروں کے لیے بھی مسائل پیدا کرتے ہیں۔
حقیقی اور کام کی فکر تو صرف آخرت کی ہے۔ انسان کو وہیں کے لیے تیاری کرنی ہے۔ یہ تیاری ڈھنگ سے اُسی وقت کی جاسکتی ہے جب ہم یہ طے کرلیں کہ اپنے وقت کو مفید انداز سے بروئے کار لانے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی ڈھنگ سے جینے کی تحریک دیں گے۔ دنیا کے لین دین کی یہی اصل ہے۔ ہمیں زندگی بھر دوسروں سے بہت کچھ ملتا رہتا ہے۔ اس کے جواب میں ہمیں بھی کچھ دینا پڑتا ہے، کرنا پڑتا ہے۔ دوسروں سے مستفید ہونے پر اُنہیں کماحقہٗ مستفید کرنے کی سوچ اُنہی لوگوں میں پروان چڑھتی ہے جو اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ہم سمیت پوری کائنات کا کوئی خالق ہے جو پال بھی رہا ہے اور حساب بھی لے گا۔
سوچ کی درستی اس کے سوا کیا ہے کہ ہم اپنے وقت کو غیر معمولی احتیاط سے بروئے کار لائیں یعنی کوشش یہ ہو کہ وقت ضایع نہ ہو۔ ایسا اُسی وقت ہوسکتا ہے جب ہم اس بات پر یقین رکھتے ہوں کہ ہمیں یہ زندگی کسی خاص مقصد کے تحت عطا کی گئی ہے۔ اور حقیقت یہی تو ہے۔ ہمیں دنیا میں اس لیے بھیجا گیا ہے کہ اپنے بھیجنے والے کی مرضی کے تابع رہیں اور اُس کی خوشنودی یقینی بنائے رکھنے کے لیے مصروفِ عمل رہیں۔ زندگی ہم سے قدم قدم پر یہی چاہتی ہے کہ ہم بامعنی انداز سے جئیں اور دوسروں کو بھی بامقصد زندگی بسر کرنے کے قابل ہونے میں مدد دیتے رہیں۔ جب ہم ایسا کریں گے تو واپسی اچھی ہوگی۔ رب کے حضور پیش ہوتے وقت دل کو اِس بات کا اطمینان ضرور ہوگا کہ ڈھنگ سے جیے اور دوسروں کو بھی ڈھنگ سے جینے میں مدد دی۔