مقبوضہ کشمیر کی صورتِ حال ہر اُس انسان کے لیے انتہائی تکلیف دہ ہے جس کا ضمیر زندہ ہو اور جو حسّاس و درد مند دل کا مالک ہو۔ ایک سال کے دوران پوری مقبوضہ وادی میں مکمل لاک ڈاؤن رکھا گیا ہے۔ اس دوران وہاں کے باشندوں پر عرصۂ حیات تنگ کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی گئی۔ قابض بھارتی افواج نے قتل و غارت کا بازار گرم رکھا۔ مودی سرکار نے مقبوضہ وادی میں آبادی کا توازن بگاڑنے اور مقامی آبادی کو بنیادی حقوق و سہولتوں سے محروم رکھنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ دنیا نے یہ تماشا خاموشی سے دیکھا ہے۔ مسلم دنیا کے علاوہ بھی کئی ممالک نے بھارتی مظالم کی نشاندہی کی اور عالمی اداروں پر زور دیا ہے کہ مودی سرکار کو لگام دینے کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور کیا جانا چاہیے مگر کیا کیجیے کہ انسانی حقوق کی تنظیموں اور انٹرنیشنل اداروں کی نشاندہی کے باوجود عالمی برادری مجموعی طور پر کچھ نہ کر سکی۔
مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کرکے مودی سرکار نے پوری دنیا کو بتادیا کہ وہ طاقت کے نشے میں کچھ بھی کرسکتی ہے۔ ایک بدمست ہاتھی جو کچھ کر گزرتا ہے‘ وہی کچھ مودی سرکار بھی کر گزری۔ وزیر اعظم کی حیثیت سے نریندر مودی دوسری میعاد کے لیے منتخب ہوتے ہی ہر اعتبار سے بے نقاب ہوکر سامنے آگئے۔ پہلی میعاد کے لیے منتخب ہوتے وقت انہوں نے جو انتخابی وعدے کیے تھے اُن میں سے چند ایک ہی کو وہ ایفا کرسکے تھے۔ اب انہوں نے ٹھان لی ہے کہ کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔
بھارت نے عالمی برادری میں اپنے لیے ایک ابھرتی ہوئی طاقت کا جو تاثر قائم کیا تھا وہ مودی سرکار نے خاک میں ملادیا ہے۔ ایک طرف وہ مقبوضہ کشمیر میں مظالم کے پہاڑ توڑ رہی ہے اور دوسری طرف پاکستان اور چین سے تعلقات مزید بگاڑ کر اپنے لیے ایسی مشکلات پیدا کر رہی ہے جو فی الحال دکھائی نہیں دے رہیں مگر کسی بھی وقت پوری طرح ابھر کر سامنے آسکتی ہیں۔ بھارت کے لیے ایک بڑی طاقت کا روپ دھارنا آسان نہیں رہا۔ معاشی قوت میں اضافے کی بنیاد پر کئی معاملات میں ایڈوانٹیج ملتا ہے مگر محض اس ایڈوانٹیج کی بنیاد پر سب کچھ نہیں مل جاتا۔ بڑا بننے کے لیے غیر معمولی بڑے پن کا مظاہرہ بھی کرنا پڑتا ہے۔ ایسا اُسی وقت ہوسکتا ہے جب پالیسیوں میں توازن قائم کیا جائے اور اندرونی سلامتی کو ہر اعتبار سے بے داغ بنانے پر توجہ مرکوز کی جائے۔ اس وقت تو صاف دکھائی دے رہا ہے کہ مودی سرکار طاقت کے نشے میں کسی کی نصیحت ماننے کو تیار نہیں۔
چین نے حال ہی میں بھارت کو جو سبق سکھایا ہے وہ ایسا نہیں کہ آسانی سے نظر انداز یا فراموش کردیا جائے۔ طاقت کے نشے میں چُور ہوکر دِلّی سرکار کچھ بھی کر گزرنے کی خواہش رکھتی ہے مگر ہر معاملے میں ایسا ممکن نہیں۔ پاکستان نے گزشتہ برس فضائی جھڑپ میں بھارتی فوج کو جس نوعیت کا مزا چکھایا تھا اُسے دیکھتے ہوئے اُسے کسی بھی نوع کی مہم جُوئی سے باز رہنا چاہیے تھا مگر ایسا نہ ہوسکا۔ مودی سرکار عالمِ بدمستی میں کسی بھی حد سے گزرنے میں کوئی باک محسوس نہیں کر رہی۔ ہاں! اِتنا ہوش ضرور ہے کہ صرف کمزوروں سے پنگا لیا جائے۔ کسی بھی طاقتور کو چھیڑنے کا کیا انجام ہوسکتا ہے یہ اُسے چین نے بتادیا ہے۔ مغرب کے کسی بھی ملک سے ٹکرانے کی جرأت بھارت نہیں کرتا۔ کیسے کرے؟ طاقت ہے مگر جگرا نہیں۔ جگرا دکھانے کے لیے اب خطے کے خاصے چھوٹے ممالک رہ گئے ہیں۔ نیپال اور بنگلا دیش کے معاملے میں بھی بھارت وہی سوچ رکھتا ہے جو پاکستان کے لیے رکھتا ہے۔ پاکستان رقبے اور آبادی کے اعتبار سے بھارت سے قدرے چھوٹا ہے اس لیے موقع دیکھتے ہی جارحیت کی کوشش کی جاتی ہے۔ صرف پاکستان ہی نہیں‘ اپنے تمام چھوٹے پڑوسیوں کے ساتھ بھارت کی یہی پالیسی ہے۔چند ایک معاملات میں شب خون مارنا بھارت کے لیے بہت آسان رہتا ہے۔ کھیل اور تجارت کے میدان میں وہ ایسا ہی کرتا آیا ہے مگر جہاں جی داری کا مظاہرہ لازم ہو وہاں بھارتی فوجیوں کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں۔ یہ بالکل فطری امر ہے کیونکہ بھارتی فوجی آج تک کمزوروں کو زور دکھاتے آئے ہیں۔ بحرانی کیفیت میں حواس باختہ ہو جانا اُن کے مزاج کا حصہ ہے۔ چین کے معاملے میں یہی ہوا ہے اور اُس سے قبل پاکستان کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا تھا۔
مقبوضہ کشمیر کی صورتِ حال کے حوالے سے پاکستان میں یہ مطالبہ زور پکڑ رہا ہے کہ بھارت کو لگام دینے کی اپنی سی کوشش کی جائے۔ بھارت نے پوری مقبوضہ وادی میں سکون کا سانس لینا دوبھر کردیا ہے۔ اس وقت کشمیریوں کے لیے کچھ ایسا کرنا لازم ہوگیا ہے جو بھارت کو معقول حد تک سبق سکھائے۔ اِسی صورت کشمیریوں کا اعتماد بحال رہ سکتا ہے۔ محض تماشا دیکھتے رہنے کی صورت میں خرابیوں کا گراف بلند ہوتا جائے گا۔
5 اگست کو سندھ اسمبلی کے اجلاس میں مقبوضہ کشمیر پر بحث کے دوران تحریک لبیک پاکستان کے رکن مفتی قاسم فخری نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر کی صورتِ حال دیکھتے ہوئے کچھ نہ کچھ کرنا لازم ہے۔ اُن کا استدلال تھا کہ یہ وقت محض مذمت نہیں بلکہ مرمت کا ہے! اس وقت کشمیریوں کو عملی سطح پر کچھ درکار ہے۔ ہماری قیادت اب تک باتوں کے تیز چلاتی آئی ہے۔ یہ سوچ لیا گیا ہے کہ مذمتی تقریریں کرنے اور نعرے لگانے سے بات بن جائے گی اور جو کچھ بھی مطلوب وہ حاصل ہو رہے گا۔ حقیقت تو یہی ہے کہ مذمت کا وقت گزر چکا ہے۔ اب مرمت کی باری ہے۔ مگر یہ کام محض کہنے سے نہیں ہوسکتا۔ اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کو کسی بھی معاملے میں مزا چکھانے کے لیے اچھی خاصی تیاری لازم ہے۔ وسائل میں تو ہم بھارت سے یقینا کچھ پیچھے ہیں۔ تجارت، وسائل اور مالیاتی میدان میں بھی اُسے فی الحال نہیں پچھاڑا جاسکتا۔ ایسے میں اُسے سبق سکھانے کے لیے صرف باتیں کافی نہیں۔ ہمارے پاس آپشنز کم ہیں۔ سب سے بڑا آپشن ہے بھرپور جذبہ۔ جوش و خروش کے ساتھ اپنی بات دنیا کے سامنے رکھنا مستحسن سہی مگر اِس سے کیا ہوگا۔
سوال یہ ہے کہ بھارت کو کس طور منہ توڑ جواب دیا جائے اور کیونکر اُسے مقبوضہ کشمیر میں مظالم ڈھانے سے باز رکھا جائے۔ سب سے بڑا سوال اندرونی یعنی قومی سطح کے اتحاد کا ہے۔ کشمیر کی صورتِ حال کے حوالے سے ہمیں تمام تر ذاتی و گروہی‘ سماجی و سیاسی اختلافات بھلا کر ایک پیج پر آنا ہے۔ بھارت سے براہِ راست تصادم سے قبل ہمیں قومی اتحاد یقینی بنانا ہے اور اِس کے بعد اسلامی دنیا میں بھرپور مہم چلانا ہے۔ کچھ مسلم ممالک تجارتی و مالیاتی مفادات کو اولیت دیتے ہوئے کشمیر جیسے بنیادی مسئلے کو نظر انداز کیے ہوئے ہیں۔ ان ممالک کو اس حوالے سے ایک پیج پر لانے کے سلسلے میں سفارتی سطح پر بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ ترکی اس معاملے میں خاصا متحرک رہا ہے۔ ترکی کے ساتھ مل کر جامع اور موزوں حکمتِ عملی مرتب کی جاسکتی ہے۔
بھارت اس وقت مذمت سے کہیں بڑھ کر مرمت ہی کا مستحق ہے مگر یہ معاملہ غیر معمولی احتیاط کا طالب ہے، اس لیے احتیاط کو بہرطور تمام تر معاملات میں ملحوظ رکھنا چاہئے، جذباتیت کی رو میں بہنے سے فقط اپنا ہی نقصان ہوتا ہے۔ہاں! مسلم ممالک میں ذہن سازی پر توجہ دی جائے تو بھارت کی مرمت یقینی بنانے میں بہت حد تک کامیابی یقینی بنائی جاسکتی ہے۔ یہ کام بھی غیر معمولی سطح کی منصوبہ سازی اور جامع اقدامات کا متقاضی ہے۔ کشمیر کے حوالے سے ہم جو کچھ کرسکتے ہیں وہ ضرور کیا جانا چاہیے کیونکہ یہ وقت تنقید اور مذمت سے کئی قدم آگے جاکر حقیقی عملی سطح پر کچھ کرنے کا ہے۔