"MIK" (space) message & send to 7575

دنیا ختم نہیں ہوگئی

دنیا کہاں جارہی ہے؟ کیا ہونے والا ہے؟ اب تک کیا ہوتا رہا ہے؟ یہ اور ایسے تمام سوال ذہنوں کو الجھانے والے ہیں۔ زمانے نے کچھ ایسی کروٹ بدلی ہے کہ سبھی کچھ یوں بدلا ہے کہ پہچاننا مشکل ہوگیا ہے۔ ایمان کی تو یہ ہے کہ یہ پورا عہد ہی امتحان کا درجہ رکھتا ہے۔ فی زمانہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے اور جو کچھ بھی دیکھنا اور جھیلنا پڑ رہا ہے وہ انسان کے حواس اور اعصاب دونوں کی آزمائش ہے۔ کم ہی ہیں جن میں زمانے کے ساتھ چلنے کا حوصلہ پیدا ہو پاتا ہے۔ بہت سوں کا یہ حال ہے کہ قدم قدم پر کچھ سوچتے ہیں اور حوصلہ ہار بیٹھتے ہیں۔
پاکستانی بھی عجیب مخمصے سے دوچار ہیں۔ بہت کچھ ہے جو ہاتھوں سے نکلا جاتا ہے اور ہم محض تماشائی بنے یہ تماشا دیکھ رہے ہیں۔ سو طرح کی مشکلات سے دوچار معاشروں کو جس طور جینا پڑتا ہے ہم اُسی طور تو جی رہے ہیں۔ اپنے زورِ بازو پر بھروسا کرنے کے بجائے حالات کے رحم و کرم پر زندگی بسر کرنے والوں کو جن پیچیدہ مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ ہمارا بھی مقدر بنے ہوئے ہیں۔ ایسا تو ہونا ہی تھا کہ ایسا تو ہوتا ہی ہے۔ اقوامِ عالم میں کچھ پانے کے لیے‘ کسی مقام تک پہنچنے اور خود کو منوانے کے لیے سو پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ مسابقت کا بازار گرم ہے۔ اس بازار کی گرمی برقرار رہنے والا معاملہ ہے۔ جسے کچھ کرنا ہے اُس کے لیے حالات کبھی سازگار نہیں ہوسکتے۔ حالات اگر پریشان نہیں کرتے تو صرف اُنہیں جو کچھ کرنے میں دلچسپی نہیں لیتے اور کسی بھی نمایاں مقام تک پہنچنے کے خواہش مند نہیں ہوتے۔ کچھ پانے کی آرزو رکھنے والے ہمہ وقت تگ و دَو میں مصروف رہتے ہیں۔ یہ تگ و دَو زندگی بھر کا معاملہ ہے۔ اور بہت حد تک یہ اپنا صلہ آپ ہے۔ اگر کچھ کرنا اور کچھ پانا ہے تو اسی طور جینا ہوگا۔ غیر معمولی صلاحیتیں پروان چڑھاکر پوری سکت کے ساتھ محنت کو شعار بنانا ہی معقول ترین آپشن بچا ہے۔ غور کیجیے تو یہ بھی کوئی نئی بات نہیں۔ ہر دور میں یہی آپشن تو بچ رہتا ہے۔
اس وقت پاکستان کو اندرونی اور بیرونی محاذوں پر یکساں نوعیت کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ قدم قدم پر الجھنیں ہیں۔ عشروں کی خرابیاں رنگ لارہی ہیں۔ ان خرابیوں کو راتوں رات ختم کرنے کی ہر کوشش معاملات کو مزید الجھارہی ہے۔ فطرت نے ہر کام کے لیے ایک دورانیہ مقرر کر رکھا ہے۔ دورانیے میں اپنی مرضی کے مطابق کمی لانا معاملات کو بگاڑتا ہے۔ یہی حال ہمارے قومی مسائل کو حل کرنے کی کوششوں کا ہے۔ عشروں کے دوران پنپنے والے مسائل کو حل ہونے میں کچھ وقت چاہیے۔ یہ وقت یا دورانیہ کتنا ہوسکتا ہے اس کا اندازہ متعلقہ ماہرین کو ہونا چاہیے۔ اگر وہ غلطی کر جائیں تو کیے کرائے پر پانی پِھر جاتا ہے۔ یہاں معاملہ یہ ہے کہ ماہرین تو بالعموم کچھ خاص غلطی نہیں کرتے مگر ہاں‘ جن کے ہاتھوں میں اختیارات ہیں وہ معاملات کو اپنی مرضی کے سانچے کی ڈھالنے کی کوشش کے دوران قوم کی مشکلات بڑھا دیتے ہیں۔
ایک زمانے سے ہم اپنے مسائل حل کرنے کے لیے غیروں کی طرف دیکھتے آئے ہیں۔ حد یہ ہے کہ نوبت ندی نالوں کی صفائی کے لیے بھی عالمی بینک جیسے اداروں سے مدد مانگنے تک آ پہنچی ہے! ناکامی اور نا اہلی کی انتہا اور کیا ہوگی؟ تُف ہے ایسی گورننس پر کہ صحتِ عامہ کے کئی منصوبے بین الاقوامی اداروں اور غیر سرکاری تنظیموں کی مدد سے چلانے پڑ رہے ہیں۔ یہ قومی غیرت کے دامن پر دھبہ نہیں تو اور کیا ہے؟ بہت سے بنیادی مسائل ہم خود حل کرسکتے ہیں مگر اُن کے حل کی صورت نہیں نکل پارہی کیونکہ ہم اُنہیں حل کرنا ہی نہیں چاہتے۔ سوال وسائل کی کمی سے زیادہ نِیّت کی خرابی کا ہے۔ جو سیاہ و سفید کے مالک بن بیٹھے ہیں وہ ایسا کچھ کرنا ہی نہیں چاہتے جس کے نتیجے میں قوم کو کچھ حاصل ہو۔ چھوٹے چھوٹے معاملات میں بیرونی اداروں اور شخصیات کی طرف دیکھنا معمول کی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ یہ بھی نہیں سوچا جاتا کہ یہ تماشا دیکھ کر دنیا ہمارے بارے میں کیا رائے قائم کرتی ہوگی۔ ذرا سوچئے تو سہی کہ جوہری قوت کو ندی نالوں کی صفائی کے لیے عالمی بینک سے مدد درکار ہے! تعلیم و صحتِ عامہ کے منصوبوں کے لیے بھی ملک سے باہر دیکھنا شرمناک ہے مگر شرمسار صرف عوام ہوتے ہیں‘ اربابِ بست و کشاد نہیں۔
ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ اب تک جن سے لَو لگائی گئی ہے وہ بیرونی قوتیں بھی کماحقہ ساتھ نہیں دے رہیں۔ حق تو یہ ہے کہ اُنہوں نے کبھی کھل کر ہمارا ساتھ دیا ہے نہ مدد کی ہے۔ سفارت کاری کے میدان میں ہم اُن سے بعض اہم معاملات میں اُمّید وابستہ کیے رہے ہیں مگر اُنہوں نے خاطر خواہ حد تک مدد کرنے سے گریز ہی کیا ہے۔ گویا مرغی جان سے جاتی رہی اور کھانے والوں کو مزا نہ آیا۔ غیروں کی خوشنودی کے لیے اپنا بہت کچھ داؤ پر لگاکر بھی ہم نے کیا پایا؟ کچھ بھی نہیں۔ صرف بربادی اور بدنامی ہاتھ آئی۔ جن کے کہنے پر اور جن کے لیے ہم نے اپنے مفادات کی بھی پروا نہ کی وقت نکل جانے پر اُنہوں نے صرف چشم پوشی نہیں برتی بلکہ ہم پر خاطر خواہ حد تک نہ جانے کا الزام بھی عائد کیا! ؎
لو‘ وہ بھی کہہ رہے ہیں یہ بے ننگ و نام ہے
یہ جانتا اگر تو لُٹاتا نہ گھر کو میں
جن سے دوستی کا دم بھرتے ہوئے ایک زمانہ گزر چکا ہے اُن سے وصولی کی گنجائش دکھائی نہیں دیتی۔ ایسے میں ٹریک بدلنے میں کچھ ہرج نہیں۔ ہم توجہ دلاتے دلاتے تھک گئے مگر جنہیں ہماری طرف نہیں دیکھنا اُنہیں نہیں دیکھنا۔ جن میں سکت نہیں ہوتی اُن کی صلاحیتیں بھی بے دَم رہتی ہیں۔ کوئی اُن کی طرف متوجہ نہیں ہوتا۔ ہم کتنی ہی آہ و بُکا کریں‘ طاقت کے عالمی مراکز ہماری نہیں سُنتے۔ شیخ قلندر بخش جرأتؔ نے خوب کہا ہے ؎
غیر کو تم نہ آنکھ بھر دیکھو
کیا غضب کرتے ہو‘ اِدھر دیکھو
مگرصاحب‘ بڑی طاقتوں کو ہمارے مسائل سے کیا غرض؟ وہ ہماری طرف نہیں دیکھتیں کہ اُن کی بے اعتنائی سے جو کچھ ہم پر گزری ہے وہ معلوم ہو۔ اُنہیں یہ سب کچھ جاننا ہی نہیں۔ یہ ہمارے لیے سب سے بڑا لمحۂ فکریہ ہے۔ ہم نے عشروں تک بڑی طاقتوں کا فرمائشی پروگرام چلایا ہے۔ معمولی سے ذاتی مفادات کی تکمیل کے لیے ہمارے اربابِ بست و کشاد بڑی طاقتوں کے آگے سجدہ ریز رہے ہیں اور اُن کی فرمائشیں پوری کرنے کے عمل میں ملک و قوم ہی کو داؤ پر لگا بیٹھے ہیں۔
خیر‘ دنیا ختم نہیں ہوگئی۔ بہت کچھ بگڑ چکا ہے ‘ پھر بھی سکون کا سانس لینے کی گنجائش ہے کہ سبھی کچھ تو نہیں بگڑا۔ جب تک سانس ہے تب تک اصلاحِ احوال کی گنجائش بھی موجود ہے۔ جب جاگئے تب ہی سویرا۔ جس قدر جلد جاگ جائیے اُتنا ہی اچھا۔ بختِ خفتہ کو بیدار کرنے کے لیے لازم ہے کہ ہم بروقت بیدار ہوں‘ ہوش میں آئیں اور جو کچھ بھی کرنا لازم ہے وہ کر گزریں۔
ہم بہت کچھ پانے کی دُھن میں سرگرداں رہے ہیں۔ جو کچھ ہم چاہتے تھے وہ تو ہاتھ نہ آیا مگر ہاں‘ اتنا ضرور معلوم ہوگیا کہ ہمارے لیے کوئی کچھ کرسکتا ہے تو وہ صرف ہم ہیں۔ دوسروں سے بے جا طور پر توقعات وابستہ رکھنا کسی بھی اعتبار سے کوئی مستحسن عمل تھا نہ ہے۔ اپنے زورِ بازو کی مدد ہی سے حالات کو بدلا جاسکتا ہے۔ قوم آج پھر دو راہے پر کھڑی ہے۔ اس موڑ سے کئی ایسے راستے بھی نکل رہے ہیں جو ہمیں صرف خرابی اور تباہی کی طرف لے جاسکتے ہیں۔ استحکام اور ترقی کی طرف لے جانے والی راہ نادیدہ نہیں۔ اس راہ پر گامزن ہونے کا آپشن بھی موجود ہے۔ فیصلہ ہمیں کرنا ہے کہ تباہی کی طرف لے جانے والی راہ پر سفر کرنا ہے یا استحکام کی طرف لے جانے والی راہ ٹھیک رہے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں