معاشرے میں رہنے والے الگ تھلگ نہیں رہ سکتے۔ اگر الگ تھلگ رہنا ہو تو وہ معاشرے میں کیوں رہیں؟ عام تصور یہ ہے کہ مل جل کر رہنے سے صرف مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ مل جل کر رہنے سے مسائل صرف پیدا نہیں ہوتے‘ حل بھی ہوتے ہیں۔ انسان کو مل جل کر رہنے کے لیے ہی خلق کیا گیا ہے۔ رشتے‘ تعلقات اور روابط بہت سے مسائل کو جنم دیتے ہیں۔ یہ معاملہ زندگی بھر کا ہے۔ ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرنے ہی میں قدرت نے زندگی کا حقیقی لطف رکھا ہے۔ پنڈت برج نرائن چکبستؔ نے خوب کہا ہے ؎
مصیبت میں بشر کے جوہرِ مردانہ کھلتے ہیں
مبارک بزدلوں کو گردشِ قسمت سے ڈر جانا
رشتے ہوں یا تعلقات‘ ہمارے لیے ان دونوں کے بطن سے بیک وقت بہت سی مشکلات اور بہت سی آسانیاں ہویدا ہوتی رہتی ہیں۔ یہ ملا جلا معاملہ ہی زندگی کی اصل ہے اور اِسی سے زندگی کا لطف و حُسن ہے۔ بعض معاملات میں ہم اپنے آپ کو محض مجبور پاتے ہیں۔ رشتوں کا معاملہ ہی لیجیے۔ جن خونی رشتوں کے ساتھ ہم اس دنیا میں آتے ہیں اُن سے ہر حال میں نباہ کرنا پڑتا ہے۔ ہم چاہیں بھی تو جان چھڑا نہیں سکتے۔ اس معاملے میں بڑے نقصان سے بچنا بھی ایک خاص حد تک ہی ممکن ہوتا ہے۔ ہاں! تعلقات کا معاملہ بہت مختلف ہے۔ تعلقات چونکہ ہم خود بناتے ہیں اس لیے اُنہیں پروان چڑھانا یا اُن سے نجات پانا بہت حد تک ہمارے اختیار میں ہوتا ہے۔
رشتے چونکہ کم و بیش زندگی بھر کے لیے ہوتے ہیں اِس لیے اُن سے پہنچنے والا سکھ یا دکھ بھی مرتے دم تک کے لیے ہوتا ہے۔ انسان اس طلسمات میں بہت سی کیفیتوں سے ہم کنار یا دوچار رہتا ہے۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی رشتے کے بدولت ملنے والا سکھ کسی بھی صورتِ حال کے باعث دکھ میں تبدیل ہو جاتا ہے اور متعلقہ فرد کے لیے اُس سے بچنا ممکن نہیں ہوتا۔ رشتوں کے معاملے میں سب سے بڑی الجھن یہی ہے کہ یہ یا تو ختم نہیں ہو پاتے یا پھر اِنہیں ختم کرنے کے لیے بہت کچھ داؤ پر لگانا پڑتا ہے۔ تعلقات اور روابط کے معاملے میں ایسا نہیں ہوتا۔ رشتوں سے ہٹ کر جتنے بھی تعلقات ہوتے ہیں اُنہیں کنٹرول کرنا بھی ممکن ہوتا ہے اور اُن کی کیفیت کو بھی تبدیل کیا جاسکتا ہے۔
کسی بھی ماحول میں انسان کو بہت سے رشتوں اور تعلقات کے ساتھ زندگی بسر کرنا پڑتی ہے۔ رشتے ترکے یا ورثے میں ملتے ہیں۔ اُن سے نباہ ناگزیر نوعیت کا ہوتا ہے۔ ہاں! تعلقات چونکہ بنائے جاتے ہیں اس لیے اُنہیں ختم کرنا بھی ناممکن نہیں ہوتا۔ کسی بھی تعلق کو مضبوط تر بنانے کے لیے لازم ہے کہ بنیاد مضبوط ہو یعنی جب ہم وہ تعلق قائم کر رہے ہوں تب چند ایک امور کا خیال رکھیں تاکہ آگے چل کر کسی بڑی الجھن کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ دوستی بھی ایک ایسا ہی تعلق ہے۔ ہر معاشرے میں اس کی مثال دی جاتی ہے۔ خونی رشتوں کے مقابلے میں دوستی کو ایک ایسے تعلق کی حیثیت سے پیش کیا جاتا ہے جو متعلقین کی زندگی میں نئی معنویت اور مقصدیت پیدا کرتا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ دوستی کے دائرے میں مذہب، مسلک، رنگ، نسل، ثقافت اور تہذیب کے فرق کی بھی کچھ خاص اہمیت نہیں ہوتی۔ جن کے درمیان حقیقی دوستی ہو وہ ایک دوسرے کے لیے کچھ بھی کرسکتے ہیں، کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ دوستی کے دائرے میں بالعموم خود غرضی، بے حسی اور بیزاری نہیں پائی جاتی۔
عمرانیات کے ماہرین کہتے ہیں کہ بالعموم اُن کے درمیان دوستی کا تعلق زیادہ مضبوط ہوتا ہے جو رشتوں کی بگڑی ہوئی نوعیت اور کیفیت سے تنگ آچکے ہوں اور بے داغ خلوص کی تلاش میں سرگرداں رہے ہوں۔ ماہرین کی نکتہ آفرینی کچھ زیادہ غلط نہیں۔ اگر ہم اپنے ماحول کا طائرانہ جائزہ لیں تو پائیں گے کہ لوگ عمومی سطح رشتوں سے تنگ آئے ہوئے ہیں۔ اس کے بہت سے اسباب ہیں۔ رشتے چونکہ خونی یا پیدائشی ہوتے ہیں اور اُنہیں قائم کرنے پر محنت صرف نہیں ہوئی ہوتی اس لیے عام طور پر اُنہیں زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا اور بہتر بنانے پر برائے نام بھی توجہ نہیں دی جاتی۔ عام تصور یہ ہے کہ کچھ بھی ہو جائے‘ رشتہ چونکہ برقرار ہی رہے گا اس لیے اُس پر زیادہ محنت کرنے یا اُس کے بارے میں زیادہ سوچنے کی ضرورت نہیں۔ انسان رشتہ داروں سے معاملات کو درست کرنے پر زیادہ متوجہ نہیں ہوتا۔ یہی سبب ہے کہ رشتوں کا معاملہ بالعموم ڈانواں ڈول رہتا ہے، اُن میں بہتری نہیں آتی اور خلوص کا گراف گرتا چلا جاتا ہے۔
دوستی ایک ایسا تعلق ہے جو بالعموم رشتوں کے متبادل کے طور پر اپنایا جاتا ہے۔ رشتوں کے معاملے میں جنہیں الجھن کا سامنا نہ ہو وہ بھی دوستی کی راہ پر دور تک چلتے رہتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ رشتوں سے دکھ پانے والوں کی زندگی میں دوستی کا مقام بہت بلند ہوتا ہے۔ ایسے لوگ دوستوں کی قدر بھی کرتے ہیں اور اُن کے لیے کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار بھی رہتے ہیں۔ فی زمانہ جسے مخلص دوست میسر ہوں وہ کسی بھی معاملے میں ناکامی کا منہ نہیں دیکھتا۔ دوستی ایسا تعلق ہے جو انسان میں گرمجوشی کا گراف بلند رکھنے کا کام کرتا ہے۔ مضبوط دوستی مشکل لمحات میں حوصلہ افزائی کا فریضہ بہت اچھی طرح انجام دیتی ہے۔ آج ہر وہ انسان انتہائی خوش نصیب ہے جسے مشکل میں ساتھ دینے والے دوست نصیب ہوں۔ یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ مخلص دوست راستے میں پڑے ہوئے نہیں ملتے‘ تلاش کرنا پڑتے ہیں۔ رشتہ دار بدلے نہیں جاسکتے‘ دوست ضرور بدلے جاسکتے ہیں۔ یونان کے عظیم فلسفی ارسطو نے کیا پیاری بات کہی ہے کہ ایک سچا دوست پچاس دشمنوں کا تریاق ہوتا ہے۔ تریاق؟ جی ہاں! تریاق۔ دشمن اول و آخر زہر کے مانند ہوتے ہیں اور مخلص دوست ہر زہر کا تریاق ہے۔ پچاس دشمنوں کا مجموعی زہر؟ صرف ایک دوست تریاق کے منصب پر؟ حقیقت یہی ہے کہ ایک سچا اور مخلص دوست زندگی بھر کا اثاثہ ہوتا ہے۔ مخلص دوست ہر مشکل گھڑی میں سب سے بڑا سہارا، سب سے بڑا ستون ثابت ہوتا ہے۔ اگر وہ اور کچھ نہ کرسکے تب بھی بہترین مشورہ تو دے ہی سکتا ہے، کاندھا تو فراہم کر ہی سکتا ہے جس پر سر رکھ کر رویا جائے۔
بھری دنیا میں کوئی ایک انسان بھی ایسا نہیں جس کی زندگی میں کسی نہ کسی سطح پر کوئی بحران نہ پایا جاتا ہو۔ جب تک سانس ہے تب تک الجھنیں ہیں‘ پریشانیاں ہیں۔ ان پریشانیوں سے مکمل طور پر بچنا کسی کے لیے ممکن نہیں۔ انسان الجھنوں کا سامنا کرکے ہی اپنی صلاحیت اور سکت کو بروئے کار لاتا ہے۔ قدرت کا نظام کچھ ایسا ہے کہ مشکلات بڑھتی ہیں تو حوصلے بھی بڑھتے ہیں۔ بحرانی کیفیت سامنے آ کھڑی ہو تو اُس سے ڈر کر ایک طرف ہٹ جانا یا بیٹھ جانا کچھ معنی نہیں رکھتا اور نہ قدرت ہی ایسا چاہتی ہے۔ ہر پریشانی اِس لیے ہوتی ہے کہ ہمیں آزمائے‘ ہمیں کچھ کر دکھانے کی تحریک دے۔ پتنگ مخالف ہوا ہی میں اونچی اڑتی ہے۔ مشکلات سے گھبراکر حوصلہ ہارنے کے بجائے یہ دیکھنا چاہیے کہ اُن سے نمٹنے میں کس سے کتنی مدد لی جاسکتی ہے۔ ایسے معاملات میں مخلص دوست غیر معمولی کردار ادا کرتے ہیں۔ بحرانی کیفیت میں دوست آخر تک کھڑے رہتے ہیں۔ اِسی لیے ہر دور کے معاشرے میں دوستی کو غیر معمولی حیثیت دیتے ہوئے خوب سراہا گیا ہے۔
دوستی چونکہ بنایا جانے والا تعلق ہے اس لیے غیر معمولی احتیاط کا طالب بھی ہے۔ دوست منتخب کرتے وقت انسان کو بہت کچھ دیکھنا چاہیے۔ رشتوں کے معاملے میں مجبوری چل سکتی ہے، دوستی کے معاملے میں نہیں۔ اگر دوستی کی گاڑی صحیح نہ چل رہی ہو تو اُس سے اترا بھی جاسکتا ہے۔ دوست منتخب کرنے کے معاملے میں ذرا سی بے احتیاطی بہت کچھ بگاڑ دیتی ہے۔ انسان چونکہ دوستوں سے بہت سی توقعات وابستہ رکھتا ہے اس لیے توقعات پوری نہ ہونے پر بے دِلی کا شکار بھی ہوتا ہے۔ اِس مصیبت سے بچنے کی ایک بھلی صورت یہ ہے کہ دوستوں کا انتخاب غیر معمولی احتیاط اور ذہانت سے کیا جائے۔ دیکھنا چاہیے کہ مفاد پرستی کو بیچ میں لائے بغیر خلوص کے ساتھ کہاں تک نباہ ہوسکتا ہے۔