"MIK" (space) message & send to 7575

زمانہ بعد از کورونا

زمانہ ایک بار پھر بڑی کروٹ بدل چکا ہے۔ دنیا تیزی سے رنگ بدل رہی ہے۔ اس رنگ بدلتی دنیا میں نئے نئے رنگ دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ کچھ رنگ تو جانے پہچانے ہیں اور کچھ ایسے کہ کسی طور سمجھ ہی میں نہیں آرہے۔ زمانہ کروٹ بدل کر کچھ کا کچھ ہوتا جارہا ہے۔ جب بھی ایسی کوئی کیفیت رونما ہوتی ہے‘ سمجھنا اور سمجھانا انتہائی دشوار ہو جاتا ہے۔ بدلتے ہوئے دور کو سمجھنا مشکل ہوتا ہے اور اِس سے بھی زیادہ مشکل ہوتا ہے بدلتے ہوئے دور کا ساتھ دینا۔ یہ خاصی جاں سوز قسم کی مشقّت ہے۔ ایک دنیا وہ تھی جو کورونا کی وبا سے پہلے ہوا کرتی تھی۔ ایک دنیا یہ ہے جو کورونا کی وبا کے بعد کی ہے۔ یہ نئی نئی سی دنیا ہے۔ وقت نے ایک بھرپور کروٹ بدلی ہے جس نے بہت کچھ الٹ پلٹ دیا ہے۔
زمانے کی ہر کروٹ بہت سی باتوں کی موت ہوتی ہے اور دوسرے بہت سے معاملات کے لیے زندگی بن کر آتی ہے۔ یہاں بھی کچھ ایسا ہی دکھائی دے رہا ہے۔ بہت کچھ مرچکا ہے اور بہت کچھ پیدا ہو رہا ہے۔ کورونا وائرس کی وبا نے جنوری سے اب تک قیامت ہی ڈھادی ہے۔ جنہوں نے کبھی حالات کی خرابی کے بارے میں مطلوب سنجیدگی کے ساتھ سوچا ہی نہ تھا وہ آج شدید پریشانی کے عالم میں ہیں۔ بہت سوں کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ اس دو راہے سے کس طرف کو جائیں۔ یہ افسوس ناک ضرور ہے، حیرت انگیز ہرگز نہیں کہ ع 
اِس طرح تو ہوتا ہے اِس طرح کے کاموں میں 
بہت سے شعبوں میں بے روزگاری پھیلی ہوئی ہے کیونکہ اُن شعبوں میں پہلے والے وسائل اور وسعت کے ساتھ کام کرنا ممکن ہی نہیں رہا۔ بعض روایتی نوعیت کے شعبے تو انتہائی خطرناک صورتِ حال سے دوچار ہیں۔ ان کا وجود ہی داؤ پر لگ چکا ہے۔ دکان داری خطرے میں پڑگئی ہے۔ جی ہاں! دکان داری۔ لوگ آن لائن خریداری کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ تعلیم کے شعبے میں بھی جدت لانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ آن لائن ٹیچنگ کا تصور ہمارے ہاں زیادہ واضح نہیں تھا۔ لاک ڈاؤن نے سارے پردے ہٹادیے۔ آن لائن ٹیچنگ اب سامنے کی بات دکھائی دے رہی ہے۔ آئی ٹی سیکٹر میں غیر معمولی پیشرفت نے بہت سے کام گھر بیٹھے کرنا ممکن بنادیا ہے۔ کسٹمائزڈ ٹیوشن بھی ممکن ہوگئی ہے۔
چند ایک نئے شعبے بھی تیزی سے مقبول ہوئے ہیں۔ ایک اہم شعبہ ہوم ڈلیوری کا ہے۔ نوجوانوں کو اس شعبے میں تیزی سے روزگار مل رہا ہے۔ اِسی طور تیار کھانوں کی فراہمی کا شعبہ بھی تیزی سے پنپ رہا ہے۔ شہر کی بڑھتی ہوئی ضرورت دیکھتے ہوئے پورے یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ تیار کھانے گھر کی دہلیز پر فراہم کرنے کا شعبہ بہت جلد غیر معمولی وسعت سے ہم کنار ہوکر ابھرے گا۔ یہ بالکل فطری ہے۔ بہت سوں کے نزدیک روزانہ کھانا تیار کرنے پر دو تین گھنٹے صرف کرنا حماقت ہے۔ سوال صرف وقت کے ضیاع کا نہیں‘ وسائل کے ضیاع کا بھی ہے۔ اگر بڑے پیمانے پر کھانا تیار کیا جائے تو سستا پڑتا ہے۔ ہوم ڈلیوری کے تحت اگر کھانے کی معقول مقدار خاصی کم لاگت میں میسر ہو تو کوئی اچھا خاصا وقت کھانے کی تیاری پر کیوں ضایع کرے؟
لاک ڈاؤن نے نئی طرزِ معیشت متعارف کرائی ہے۔ جو کچھ کئی عشروں سے دکھائی دے رہا ہے‘ وہ اب ڈولتے سنگھاسن کی طرح ہے۔ بعض معاملات کا تو پورا وجود ہی داؤ پر لگ رہا ہے۔ معیشت میں کئی شعبے روایتی حیثیت رکھتے ہیں۔ فرنیچر ہی کو لیجیے۔ لکڑی کا پرانے انداز کا بھاری بھرکم فرنیچر آج بھی جہیز میں دیا جارہا ہے۔ یہ فرنیچر جگہ بھی بہت گھیرتا ہے اور مہنگا بھی پڑتا ہے۔ ایسے فرنیچر کو منتقل کرنا بھی اچھا خاصا دردِ سر ہے۔ اس حوالے سے نئی سوچ اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ معاشرتی ضرورتوں سے ہم آہنگ چیزیں تیار کی جاسکیں۔ سوال صرف فرنیچر کا نہیں‘ ایسی ہی دوسری بہت سے اشیا کا بھی ہے۔ دنیا بھر میں آسانی، سہولت اور ارزانی پر توجہ دی جارہی ہے۔ 
پاکستانی معاشرہ معاشی اور معاشرتی اعتبار سے عجیب دو راہے پر پہنچ چکا ہے۔ اس دو راہے سے بالکل درست سمت اختیار کرنا لازم ہے۔ غلطی کی گنجائش نہیں۔ سوچے سمجھے بغیر اٹھایا جانے والا ہر قدم معاملات کو اتنا الجھادے گا کہ پھر اُنہیں سلجھانے میں عشرے لگ جائیں گے۔ ہمارے ہاں سیاست اور معیشت دونوں کے معاملے میں حقیقی وطن پرست اور درد مند دل رکھنے والی قیادت کا فقدان رہا ہے۔ اکیسویں صدی میں بہت کچھ بالکل نیا ہے۔ بعض معاملات کا ہمیں برائے نام بھی تجربہ نہیں اس لیے سمجھنے اور سنبھلنے کے معاملے میں غیر معمولی ذہانت چاہیے۔ اب جبکہ کورونا وائرس کی وبا تقریباً ختم ہوچکی ہے، لازم ہے کہ معیشتی ڈھانچے کو نیا رخ دینے کے بارے میں سوچا جائے، آسانی کو ترجیح دی جائے اور بے جا پیچیدگیوں سے جان چھڑائی جائے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ سَروں میں سہولت کا سَودا سمویا جائے۔ جو کام زیادہ سہولت والا ہو وہی کیا جائے۔ اُسی ڈگر پر گامزن ہوا جائے جو کسی جواز کے بغیر پریشان نہ کرتی ہو۔ 
'زمانہ بعد از کورونا‘ یعنی کورونا وائرس کے بعد کی دنیا میں اس بات کی غیر معمولی اہمیت ہے کہ وقت کو ضایع ہونے سے بچانے کے تصور کو گلے لگایا جائے۔ معاشی سرگرمیوں کے لیے یومیہ بنیاد پر سفر سے گریز کو بھی اب اہمیت دی جارہی ہے۔ جو لوگ گھر پر رہتے ہوئے اپنا کام بہتر انداز سے کرسکتے ہیں اُنہیں بلا جواز طور پر اِدھر اُدھر گھمانے سے گریز کیا جارہا ہے۔ بعض شعبوں میں مکمل طور پر یہ ممکن ہے کہ گھر بٹھاکر کام لیا جائے۔ لکھنے پڑھنے کے شعبے ہی کو لیجیے۔ جو کام گھر میں رہتے ہوئے ہو سکتا ہے اُس کے لیے کہیں جانے سے کیا حاصل؟ یہ معمولی سا نکتہ ہے جس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ بعض اشیا کی تیاری کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ اگر لوگوں کو گھر پر کام دے دیا جائے اور ہفتہ وار رپورٹ کی بنیاد پر معاملات چلائے جائیں تو ایسا کرنے میں کچھ حرج نہیں۔ مثلاً ٹیلرنگ شاپ کے کاریگر جو سلائی دکان میں کرتے ہیں‘ وہی سلائی وہ گھر میں بھی کرسکتے ہیں۔ تین چار دن کا کام گھر لے جاکر آسانی سے کیا جاسکتا ہے۔ مینوفیکچرنگ کے شعبے میں بھی بہت کچھ گھر بیٹھے کیا جاسکتا ہے۔ لازم نہیں کہ کوئی روزانہ ڈیڑھ دو گھنٹے کے سفر کا عذاب جھیل کر فیکٹری یا کارخانے پہنچے اور سفر کی تکان دور کیے بغیر کام کرے۔ ایسی حالت میں کارکردگی کا گراف گرتا ہے۔ لاکھوں نہیں‘ کروڑوں افراد کا یہ یومیہ معمول ہے۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اِس کے نتیجے میں مجموعی طور پر قوم کا کتنا وقت ضایع ہو رہا ہوگا اور کتنے وسائل خاک میں مل رہے ہوں گے۔ 
کورونا کے بعد کی دنیا میں نئی سوچ اپنانا لازم ہے۔ وقت اور مادّی وسائل بچانے پر سب سے زیادہ توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر قوم کو دن کی روشنی میں کام کرنے کی عادت ہی پڑ جائے تو دکانیں شام ہوتے ہی بند ہو جائیں اور یوں توانائی کی مد میں اربوں روپے کی بچت بھی ہو اور زندگی بھی آسان ہو جائے۔ لوگ اگر رات بھر جاگنے کا معمول ترک کردیں تو قوم کا کتنا بھلا ہو! کراچی سمیت تمام بڑے، درمیانے اور چھوٹے شہروں میں خاصی معقول تعداد ایسے لوگوں کی ہے جنہیں بظاہر کسی جواز کے بغیر‘ رات بھر جاگ کر گپیں ہانکنے کا شوق ہے۔ اس شوق کو لگام دینے کی ضرورت ہے تاکہ دن میں دیر تک سوتے رہنے کا رواج بھی ختم ہو، لوگ فطرت کے طے کردہ طریق کے مطابق زندگی بسر کرنے کی طرف مائل ہوں اور قوم کے وقت و وسائل کا ضیاع نہ ہو۔ ایسے میں استعدادِ کار بھی بڑھے گی۔ نئی طرزِ معیشت و معاشرت وضع اور اختیار کرنے میں کلیدی بلکہ قائدانہ کردار حکومت کو ادا کرنا ہے۔ جو کچھ بھی نیا ہو ریاستی سطح پر ہو تاکہ مستند ٹھہرے۔ ریاستی سطح پر قوم کے حق میں کچھ نیا کرنے کا اِس سے اچھا موقع شاید تادیر نہ ملے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں