"MIK" (space) message & send to 7575

ایک کتاب‘ دس اسباق

ڈاکٹر میکسویل میلٹز (Maxwell Maltz) کی کتاب ''سائکو سائبرنیٹکس‘‘ (Psycho-Cybernetics) کو شائع ہوئے ایک زمانہ بیت چکا ہے مگر اس کتاب کا جادو اب تک ختم نہیں ہوا۔ ڈاکٹر میکسویل میلٹز پلاسٹک سرجن تھے۔ بگڑے ہوئے چہروں کو نیا رنگ و روپ دینے والے ڈاکٹر میکسویل میلٹز نے اپنے کیسز کو اس کتاب میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔ اُن کا استدلال ہے کہ شکل بدلنے سے انسان کی سوچ بھی بدل جاتی ہے۔ اُن کی بات پر یقین نہ کرنے کی کوئی ٹھوس وجہ بھی نہیں۔ڈاکٹر میکسویل کا تجربہ بتاتا ہے کہ لوگ اپنے بارے میں جو کچھ بھی سوچتے ہیں وہ چہرے اور جسمانی خصوصیات کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ جب چہرہ تبدیل ہوتا ہے تب انسان اپنے بارے میں نئے زاویے سے سوچنے لگتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ پلاسٹک سرجری کروانے کے بعد بہت سوں کو حیرت انگیز حد تک بدلتے دیکھا گیا ہے۔ کتاب میں بہت سے کیسز کی مدد سے بتایا گیا ہے کہ چہرہ بدلنے سے سوچ بدلتی ہے اور سوچ کے بدلنے سے اعمال بھی تبدیلی کے مرحلے سے گزرتے ہیں۔ یوں پوری زندگی کا ڈھانچا تبدیل ہونے لگتا ہے۔ اس کتاب سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ اس کتاب کی مدد سے ملنے والے کم از کم دس نکات ایسے ہیں جن پر غور کرنا ضروری ہے۔ اِن نکات کی مدد سے انسان بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔ ڈاکٹر میکسویل نے اپنے قارئین کو بتایا ہے کہ زندگی ایسی حقیقت نہیں جسے کسی جواز کے بغیر نظر انداز کردیا جائے‘ ضایع کردیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ زندگی کو نظر انداز کرنے کا کوئی بھی جواز کبھی پیدا ہو ہی نہیں سکتا۔ آئیے! کتاب سے ہاتھ آنے والے دس اہم نکات پر نظر ڈالیں۔
٭ سیلف امیج : ہر انسان اپنے بارے میں بہت کچھ سوچتا رہتا ہے۔ اپنے بارے میں سوچنے کا عمل ہی اس امر کا تعین کرتا ہے کہ انسان کس طرف جائے گا‘ کیا کرے گا‘ کیا پائے گا۔ خود پسندی کسی نہ کسی حد تک ہر انسان میں ہوتی ہے۔ یہ کوئی ایسی بُری بات نہیں جس پر زیادہ شرمندہ ہوا جائے۔ خرابی اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب انسان دوسروں کو بُرا سمجھے۔ اگر کوئی اپنے بارے منفی رائے رکھے تو خرابیاں مزید بڑھ جاتی ہیں۔ سیلف امیج یعنی اپنے بارے میں رائے یا تصور کو بہت حد تک مثبت رہنا چاہیے۔
٭ تصور ہی سب کچھ ہے : یہ نکتہ قدم قدم پر ذہن نشین رہے کہ دنیا میں جو کچھ بھی دکھائی دے رہا ہے اُس نے ایک تصور کی حیثیت سے جنم لیا تھا۔ کوئی بھی چیز پہلے ذہن میں آتی ہے اور پھر عمل کی راہ پر گامزن ہوتے ہوئے دنیا کے سامنے جلوہ گر ہوتی ہے۔ تصور کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ہم کسی بھی معاملے میں جو تصور رکھتے ہیں اُسی کی بنیاد پر طے ہوتا ہے کہ ہم کیا کرسکیں گے اور کیا نہیں کر پائیں گے۔ 
٭ پُرسکون رہنا لازم ہے : ہم جو کچھ بھی کرنا چاہتے ہیں اُس کے لیے دل و دماغ میں گنجائش پیدا کرنا اور صلاحیت و سکت کو موزوں بنانا لازم ہے۔ یہ سب کچھ اُسی وقت ممکن ہوسکتا ہے جب ہم پُرسکون رہنا سیکھیں اور غیر ضروری دھما چوکڑی کے ذریعے اپنا وقت ضایع نہ کریں۔ فقید المثال کامیابی درکار ہے تو بدحواسی کی نذر ہوکر اپنے وقت کو فضول بھاگ دوڑ میں ضایع کرنے سے گریز لازم ہے۔
٭ ناکامیوں کو بھول جائیے : ہم زندگی بھر غلطیاں کرتے ہیں اور ناکام بھی ہوتے رہتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی ناکامیاں ہمیں تھوڑی دیر کے لیے بددل کرتی ہیں۔ گرنے کے بعد ہم پھر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور دوڑنے بھی لگتے ہیں۔ جو کچھ بھی گزر چکا ہے‘ وہ گزر چکا ہے۔ گزرے ہوئے وقت اور اُس وقت رونما ہونے والی ناکامیوں کے بارے میں سوچتے رہنے سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ کسی بھی ناکامی کو اپنے حواس پر زیادہ دیر سوار نہ رہنے دیں۔ اگر آپ ناکامیوں کا ماتم کرتے رہیں گے تو بھرپور کامیابی کے لیے درکار جذبے کے ساتھ محنت نہیں کر پائیں گے۔
٭ جھجک دور کرنا لازم ہے: ہمیں زندگی بھر بہت کچھ کرنا ہوتا ہے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ ہم کسی بھی معاملے میں غیر ضروری طور پر نہ ہچکچائیں۔ قدم قدم پر شش و پنج کا شکار رہنے والوں کے لیے مسائل کی تعداد بھی بڑھتی جاتی ہے اور شدت بھی۔ جو لوگ کچھ کرنا چاہتے ہیں اُنہیں غیر ضروری جھجک سے ہر حال میں نجات حاصل کرنی چاہیے۔
٭ کسی جواز کے بغیر رنجیدہ رہنے کی عادت ترک کیجیے اور زیادہ سے زیادہ وقت خوش خوش گزاریے: کوشش کیجیے کہ کسی بھی ایسی بات سے کوئی دکھ نہ پہنچے جو دکھ پہنچانے والی نہ ہو یا آپ کا اُس سے کچھ ربط نہ بنتا ہو۔ بہت سے لوگ بات بات پر رنجیدہ ہو جاتے ہیں یا اُداسی کا دامن تھام لیتے ہیں۔ یہ عادت اگر پختہ ہو جائے تو صلاحیت و سکت کے لیے زہر بن جاتی ہے۔ خوش مزاجی کی راہ پر گامزن رہنے والے ہی کچھ کر پاتے ہیں۔
٭ کامیابی کے نظام کو کام کرنے دیجیے : زندگی کی دوڑ میں دوسروں سے آگے نکلنے کے لیے لازم ہے کہ آپ کامیابی کے نظام کو کام کرنے کا موقع دیں۔ ہر انسان میں کامیابی کا نظام پایا جاتا ہے جو اُسے بھرپور کامیابی کی طرف لے جاتا ہے۔ اس نظام کو برقرار رکھنے پر محنت کرنا پڑتی ہے۔ اس کائنات میں کچھ بھی خود بخود نہیں ہوتا۔ کوئی کچھ کرتا ہے تو کچھ ہوتا ہے۔ کامیابی کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ یہ خود بخود حاصل نہیں ہوتی۔ 
٭ نظامِ کامیابی کو پہچانیں: ہر انسان میں کچھ نہ کچھ کرنے‘ کچھ نہ کچھ بننے کی صلاحیت فطری طور پر پائی جاتی ہے۔ تھوڑی سی توجہ سے یہ صلاحیت خوب پروان چڑھتی ہے اور انسان تیزی سے آگے بڑھتا ہے۔ کامیابی کا نظام درست سمت کے تعین، جامعیت، جرأت، تعاون یعنی اشتراکِ عمل، اعتماد اور عزتِ نفس پر مشتمل ہوتا ہے۔ انسان جب اپنے کام پر توجہ دیتا ہے تو درست سمت ملتی ہے۔ اُس میں جامعیت بھی پیدا ہوتی ہے یعنی وہ معاملات کو پوری طرح سمجھنے کا اہل ہوتا جاتا ہے۔ کام پر توجہ مرکوز رکھنے سے انسان میں جرأت بھی پیدا ہوتی ہے۔ وہ بہت سے ایسے کام کرنے کے لیے بھی تیار ہو جاتا ہے جن کے بارے میں وہ زیادہ تو نہیں جانتا مگر اُس میں بھرپور اعتماد پایا جاتا ہے۔ کامیابی کا نظام اگر ڈھنگ سے کام کر رہا ہو تو انسان میں اعتماد کا گراف بلند ہوتا جاتا ہے اور یوں وہ کسی بھی کام میں پورے تیقن کے ساتھ ہاتھ ڈالتا ہے۔ کامیابی کا نظام عزتِ نفس کا بھی حامل ہوتا ہے۔ جب انسان اپنی نظر میں بلند ہوتا ہے تو زیادہ یقین اور اعتماد کے ساتھ کچھ کرنے پر مائل ہوتا ہے۔
٭ ناکامی کا نظام : ہر انسان میں ناکام ہونے کی صلاحیت بھی فطری طور پر پائی جاتی ہے۔ اگر کوئی ذرا سا مشکل وقت آنے پر بدحواس ہو جائے تو کام کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔ اگر کسی کے مزاج میں غیر ضروری جارحیت پسندی ہو تو وہ بھی ڈھنگ سے کام نہیں کر پاتا۔ جو لوگ معمولی سی ناکامی یا پریشانی سے خوف زدہ ہو جاتے ہیں اُن میں رفتہ رفتہ عدم تحفظ کا رجحان پروان چڑھنے لگتا ہے۔ عدم تحفظ کا احساس شدت اختیار کرتا ہے تو انسان اکیلے پن کا بھی شکار ہونے لگتا ہے۔ ایسے میں غیر یقینیت کا پیدا ہونا لازم ہے۔ اکیلے پن اور غیر یقینیت کا شکار رہنے والے دوسروں سے بلا سبب ناراض رہنے لگتے ہیں۔ یوں اُن میں خالی پن بڑھتا جاتا ہے۔
٭ ذہن‘ سب سے قیمتی اثاثہ : یہ نکتہ ذہن نشین رہے کہ آپ جو کچھ بھی ہیں اپنے ذہن کی بدولت ہیں۔ ذہن ہی ہمیں غیر معمولی کامیابی سے ہم کنار یا شرمناک ناکامی سے دوچار کرتا ہے۔ ذہن بہت کچھ دے سکتا ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ اِسے ڈھنگ سے کام کرنے کے قابل چھوڑا جائے۔ ذہن اچھی طرح سوچنے اور موزوں طریقے سے فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں اُسی وقت آسکتا ہے جب اِس میں غیر ضروری باتیں نہ بھری ہوں۔ اگر ذہن میں بہت سی غیر متعلق باتیں بھری ہوں تو یہ الجھ کر رہ جاتا ہے۔ ذہن کی الجھن فیصلہ کرنے کی صلاحیت پر خطرناک حد تک اثر انداز ہوتی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں