دنیا منتظر ہے‘ کس بات کی؟ اور بہت سی باتوں کے علاوہ اس بات کی بھی کہ آپ اپنی صلاحیت و سکت کو بروئے کار لائیں‘ کچھ کر دکھائیں۔ آپ سوچیں گے کسی کو اس بات سے کیا غرض ہوسکتی ہے کہ آپ کیا کرسکتے ہیں اور کیا نہیں کرسکتے۔ آپ کی سوچ ایک خاص حد تک ہی درست ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم سب ہی ایک دوسرے کو کچھ نہ کچھ کرتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔ تن آسانی اپنی جگہ مگر ہم یہی تو چاہتے ہیں کہ کچھ ہو‘ کچھ کیا جائے۔ اس دنیا کی ساری رونق کچھ کرنے سے ہے۔ صلاحیت و سکت کو بروئے کار لائے بغیر دنیا میں کوئی بھی حقیقی تبدیلی رونما ہوتی ہے نہ ہوسکتی ہے۔ سابق امریکی صدر تھیوڈور روزویلٹ نے کہا تھا ''کمزور لوگوں کو زیادہ تکلیف محسوس ہوتی ہے نہ زیادہ مسرت۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ وہ بُھورے دُھندلکے میں جیتے ہیں جس میں جیت ہوتی ہے نہ ہار۔ اس سے کہیں بہتر یہ ہے کہ ناکامی کے باوجود بڑے کام کرنے کے لیے کوششوں کا آغاز کیا جائے‘ زیادہ شہرت والی فتح حاصل کی جائے۔ زندگی صرف اُسی کو سکھ دیتی ہے جس میں سکھ مانگنے کا حوصلہ ہوتا ہے‘‘۔
زندگی کا ہم سے صرف ایک تقاضا ہے ... جہدِ مسلسل۔ دنیا کا ہر معاملہ جہدِ مسلسل کی زمین پر کھڑا ہے۔ ہر دور میں لاکھوں انسانوں نے دوسروں سے ہٹ کر کچھ کیا ہے، دوسروں سے آگے گئے ہیں تب کچھ ہوا ہے، من چاہی تبدیلی کی راہ ہموار ہوئی ہے۔ کچھ خاص کیے بغیر کسی خاص تبدیلی کے واقع ہونے کی امید رکھنا محض خام خیالی ہے‘ اور کچھ نہیں۔ عظیم دانشور سر فرانسس بیکن کہتے ہیں ''خوش حالی میں صرف خرابیاں سامنے آتی ہیں۔ مشکل لمحات میں اندازہ ہوتا ہے کہ کسی میں کتنی خوبیاں چھپی ہوئی ہیں۔ خوش حالی میں اچھی چیزوں کو چاہا جاتا ہے، ان کی خواہش کی جاتی ہے جبکہ بحرانی کیفیت میں اچھی چیزوں کو سراہا جاتا ہے۔ جس پر اب تک کوئی بڑی مصیبت نہیں آئی اس نے اپنی اصل قوت کو اچھی طرح پہچانا نہیں ہے‘‘۔ اِن الفاظ کی حقانیت پر غور کیجیے۔ اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ ؎
مصیبت میں بشر کے جوہرِ مردانہ کھلتے ہیں
مبارک بزدلوں کو گردشِ قسمت سے ڈر جانا
ہم میں سے ہر ایک اپنے تجربے کی روشنی میں بتا سکتا ہے کہ آزمائش کے لمحات میں ہی میں انسان صرف دوسروں پر نہیں بلکہ اپنے آپ پر بھی کھلتا ہے۔ کم و بیش ہر نئی اور غیر معمولی آزمائش انسان کو اُس کے اپنے نئے ''ورژن‘‘ سے ملاقات کا موقع فراہم کرتی ہے۔ شدید نوعیت کی آزمائش انسان کو غیر معمولی جدوجہد کی تحریک دیتی ہے۔ اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر انسان بہت کچھ کر دکھاتا ہے اور یوں دنیا کو اُس کی صلاحیت و سکت کا ٹھیک ٹھیک اندازہ ہو پاتا ہے۔
ہر نئی آزمائش ہمیں کچھ نہ کچھ نیا کرنے کا راستہ دکھاتی ہے۔ جب بھی کوئی مشکل صورتحال نمودار ہوتی ہے تو اُس میں ہمارے لیے ایک چیلنج چھپا ہوا ہوتا ہے۔ اِس چیلنج کا سامنا کرنا اور جواب میں کچھ کر دکھانا ہی ہمارے لیے بہترین آپشن ہے۔ آزمائش کے لمحات میں خوف زدہ ہوکر ایک طرف بیٹھ رہنا کسی بھی اعتبار سے کوئی آپشن نہیں۔ این بیڈسٹرٹ نے کہا ہے ''اگر جاڑا نہ ہو تو بہار کا موسم اِس قدر سکھ نہ دے۔ اگر مصیبت نہ آئی ہو تو خوش حالی کی اتنی آؤ بھگت نہ کی جائے‘‘۔ حقیقی زندگی میں یہی تو ہوتا ہے۔ جب ہم کسی بڑی آزمائش سے گزرتے ہیں تب اندازہ ہوتا ہے کہ سُکون کے لمحات کتنے قیمتی ہوتے ہیں اور یہ کہ اُنہیں کسی بھی حال میں ضایع نہیں کرنا چاہیے۔ یہ حقیقت ہر قدم پر ذہن نشین رہنی چاہیے کہ زندگی کے میلے میں سبھی کو کسی نہ کسی سطح پر سٹال لگانا پڑتا ہے‘ یہ صرف تماشا گاہ نہیں۔ جو اِس دنیا کا تماشا دیکھتے ہیں اُنہیں خود بھی کچھ نہ کچھ کرنا پڑتا ہے۔ جہدِ مسلسل کوئی آپشن نہیں بلکہ ناگزیر صورتحال ہے اور اِسی میں زندگی کا حقیقی لطف بھی پوشیدہ ہے۔ ہم جہدِ مسلسل کے مرحلے سے گزر کر ہی حقیقی مسرّت کی منزل تک پہنچتے ہیں۔ ہاتھ پیر ہلائے بغیر اچھی خاصی دولت حاصل ہو بھی جائے تو سکھ نہیں مل پاتا۔ حقیقی سکھ تو جسم و جاں کو مضمحل کردینے والی محنت ہی کے نتیجے میں حاصل ہو پاتا ہے۔ یہ نکتہ گام گام ذہن نشین رہے کہ ہر پریشان کن صورتحال یا بحرانی کیفیت ہمیں اپنے آپ سے ملاقات کا موقع فراہم کرنے کے لیے ہوتی ہے۔ کسی بھی بحرانی کیفیت کو محض جنجال سمجھ کر قبول کرنے سے انکار کرنا کسی بھی اعتبار سے کوئی مستحسن رویہ نہیں۔ حقیقی مسرّت اُسی وقت مل پاتی ہے جب انسان کسی بحران سے نمٹنے میں کماحقہٗ ذہانت و مشقّت کا مظاہرہ کرتا ہے۔
باب جانسن (بلیک انٹرٹینمنٹ کے سربراہ) کہتے ہیں ''کوئی بھی بڑی بحرانی کیفیت آپ کو بنا بھی سکتی ہے‘ بگاڑ بھی سکتی ہے۔ جو ہتھوڑا کانچ کو توڑتا ہے وہ لوہے کو دھار دار بھی تو بناتا ہے‘‘۔ ہر آزمائش انسان کو کچھ نہ کچھ دے کر جاتی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ انسان میں اعتماد کا گراف بلند ہوتا ہے۔ وہ مشکلات سے نپٹنے کا ہنر سیکھتا ہے اور دوسروں کو بھی کچھ کرنے کی تحریک دیتا ہے۔ زندگی کا حُسن بھی اِسی امر میں پوشیدہ ہے کہ انسان آسانیاں تلاش کرکے تن آسانیوں کا اسیر ہو رہنے کے بجائے اپنے وجود کو بروئے کار لانے پر متوجہ ہو، اپنی صلاحیتوں کو آزمائے اور دنیا پر ثابت کرے کہ وہ محض تماشائی نہیں بلکہ کچھ کر دکھانے کی سکت بھی رکھتا ہے۔
مشکلات انسان کا حوصلہ بڑھاتی ہیں اور اُسے دوسروں سے ہٹ کر‘ بلند ہوکر کچھ کرنے کی تحریک دیتی ہیں۔ جے بلیئرڈ میریٹ نے کہا ہے ''اچھے پیڑ آسانی سے نہیں اُگتے، ہوا جتنی تیز ہوگی‘ پیڑ اتنے ہی طاقتور ہوں گے‘‘۔ پتنگ مخالف ہوا میں زیادہ اونچا اڑتی ہے۔ مخالفت ہی تو انسان کو اپنا موقف زیادہ قوت کے ساتھ بیان کرنے اور اپنی بات منوانے کی کوشش کرنے کی تحریک دیتی ہے۔ اگر کسی کی ہر بات آسانی سے مانی جارہی ہو تو وہ اپنی بات کہنے کے معاملے میں رفتہ رفتہ ڈھیلا پڑتا چلا جاتا ہے۔ ایسی حالت میں زندگی پوری طرح کُھل اور کِھل نہیں پاتی۔ ہم ایک ایسی دنیا میں جی رہے ہیں جس میں کام کا آپشن صرف ایک ہے ... کچھ کر دکھانا۔ عمومی طرز کی زندگی بسر کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اگر نام کمانا ہے‘ اپنا نشان چھوڑ کر جانا ہے تو کچھ ایسا کرنا پڑے گا جو دوسروں نے نہ کیا ہو یا کرنے کا عندیہ نہ دے رہے ہوں۔ ذہن نشین رہے کہ جب ہم اپنے وجود کو بروئے کار لانے کی تیاری کرتے ہیں تب زندگی میں مقصدیت دکھائی دیتی ہے۔ زندگی کا حُسن یہی تو ہے کہ اپنے حصے کا کام پوری دیانت اور جاں فشانی سے کیا جائے۔
ولی جولی کا مقولہ ہے ''جس لمحے آپ کوئی فیصلہ کرکے اس پر عمل شروع کرتے ہیں بس اسی لمحے آپ اپنی زندگی بدلتے ہیں‘‘۔ کہانی اِتنی ہے کہ انسان کچھ کرنے کا فیصلہ کرے اور کام شروع کردے۔ محض سوچتے رہنے سے کچھ بھی حاصل نہیں ہو پاتا‘ کچھ بن نہیں پاتا۔ کسی بھی معاشرے میں حقیقی ترقی اُسی وقت ممکن بنائی جاسکتی ہے جب جامع منصوبہ سازی کے ساتھ اپنے حصے کا کام پوری دیانت سے کیا جائے۔ یہ سب کچھ محض کہنے سے نہیں ہو جاتا۔ اس کے لیے بلند ارادے درکار ہیں اور کام کرنے کی بھرپور لگن بھی۔ جب تک کام کرنے کی توانا لگن نہ ہو تب تک کچھ بھی نہیں ہو پاتا۔
ہر معاشرہ چند خصوصیات کا حامل ہوتا ہے۔ بعض معاشروں کی خصوصیات دوسرے معاشروں سے ہٹ کر ہوتی ہیں۔ جاپانی معاشرے کی سب سے بڑی خصوصیت ہے کام سے بے انتہا محبت۔ وہاں لوگ کام کرنے کے محض عادی نہیں‘ بلکہ دَھنی ہیں یعنی کام کرنے کی لت سی پڑگئی ہے۔ یہ لت دوسرے معاشروں میں بھی پائی جانی چاہیے۔ پاکستان جیسے معاشروں میں کام کرنے کی غیر معمولی لگن اب ناگزیر ہوچکی ہے۔ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ کام کرنے اور خود کو آزمانے کی طرف مائل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔