زندگی ہر معاملے میں پورا توازن چاہتی ہے؛ چاہتی کیا ہے‘ متقاضی رہتی ہے۔ توازن وہ حقیقت ہے جو قدم قدم پر ہمارے سامنے آتی ہے، ہمیں جھنجھوڑتی ہے، فکر و عمل کی تحریک دیتی ہے۔ ہم چاہیں تو اِس حقیقت سے چشم پوشی کرسکتے ہیں مگر پھر اس کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑتا ہے۔ جو لوگ ماحول کی بیزار کن یکسانیت سے تنگ آکر کچھ نیا کرنے کا سوچتے اور ٹھانتے ہیں اُن کے لیے بھی توازن لازم ہے۔ فکر و عمل میں توازن بنیادی شرط ہے۔ جہاں سوچنا لازم ہے وہاں عمل ثانوی حیثیت اختیار کرتا ہے اور جہاں عمل کو ترجیح دینی ہو وہاں محض سوچنے کو کسی بھی طور ترجیح نہیں دی جاسکتی۔
ایک زمانہ ہے کہ کامیابی کا حصول یقینی بنانے کے لیے سرگرداں رہتا ہے۔ سبھی چاہتے ہیں کہ قدم قدم پر کامیابی نصیب ہو۔ مشکل یہ ہے کہ کامیابی نصیب کا معاملہ ہے ہی نہیں۔ اگر بیٹھے بٹھائے‘ ہاتھ پیر ہلائے بغیر کچھ یا بہت کچھ مل بھی جائے تو اُسے کسی بھی اعتبار سے کامیابی قرار نہیں دیا جاسکتا، مثلاً لاٹری کا ٹکٹ خریدیے اور دو‘ تین کروڑ کا انعام بھی نکل آئے تو اِسے کسی بھی لحاظ سے کامیابی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ کچھ کیے بغیر جو کچھ حاصل ہوتا ہے وہ حقیقی مسرت دیتا بھی نہیں۔ ایک زمانے تک کی جانے والی تیاری اور مشق و مشقت کے ذریعے جو کچھ ملتا ہے اُسی کو کامیابی کہا جاتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ کامیابی انسان میں اعتماد کی سطح بلند کرتی ہے۔ زندگی بھر محنت کرنے والوں کو جب کچھ ملتا ہے تو وہ حقیقی مسرت بھی محسوس کرتے ہیں اور جو کچھ عطا ہوا ہو اُس کا تحفظ یقینی بنانے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔
زمانہ لمحہ بہ لمحہ بدلتا رہتا ہے، یومیہ بنیاد پر یعنی باقاعدگی سے رونما ہونے والی تبدیلیوں کو ہم زیادہ اہمیت نہیں دیتے اور اِنہیں تبدیلیوں کے درجے میں قبول بھی نہیں کرتے۔ بہت سی معمول کی تبدیلیوں کے نتیجے میں جب کوئی بہت بڑی تبدیلی رونما ہوتی ہے تب ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ ماحول میں کچھ ایسا واقع ہوا ہے جو محسوس کیا جانے والا فرق پیدا کرے گا۔ معمول کے مطابق جو کچھ بھی رونما ہوتا رہتا ہے وہ ہماری نظر میں کبھی زیادہ اہم نہیں ٹھہرتا۔ہم عمر بھر ایسا بہت کچھ کرتے رہتے ہیں جو بہت کوشش کے باوجود کچھ خاص فرق پیدا کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ اِس کی بہت سی وجوہ ہوسکتی ہیں۔ ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم عمل سے قبل سوچنے کے مرحلے سے کماحقہٗ نہیں گزرتے اور دوسری طرف سوچنا تو بہت ہوتا ہے مگر عمل کی سطح پر کچھ خاص دکھائی نہیں دیتا۔ یہ دو انتہائیں ہیں؛ ہمیں اِن کے درمیان ایسا توازن پیدا کرنا ہے جو صرف محسوس نہ ہو بلکہ دکھائی بھی دے۔
شخصی ارتقا کے حوالے سے مصنف اور مقرر کے طور پر غیر معمولی عالمگیر شہرت کے حامل زِگ زِگلر کہتے ہیں ''ناکام ہونے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ سوچیے اور کچھ نہ کیجیے یا پھر یہ کہ سوچنا ترک کیجیے اور عمل کی کی راہ پر بڑھتے جائیے‘‘۔ زِگ زِگلر نے بہت خوبصورتی سے بالکل سادہ اور آسان الفاظ میں دو انتہاؤں کو بیان کیا ہے۔ ہم زندگی بھر فکر و عمل کے الٹ پھیر ہی میں تو مبتلا رہتے ہیں۔ اپنے قریبی ماحول پر ایک اُچٹتی سی نظر ڈالیے تو اندازہ ہوگا کہ لوگ خطرناک حد تک ''بے فکری‘‘ کی زندگی بسر کر رہے ہیں یعنی اُن کے معمولات میں فکر و نظر کا واضح فقدان ہے۔ یہ فقدان اِس لیے ہے کہ وہ اِس نکتے پر غور کرنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کرتے کہ ڈھنگ سے سوچے بغیر کیا جانے والا ہر عمل غیر موثر رہتا ہے یا پھر مطلوب نتائج یقینی بنانے میں کوئی خاص کردار ادا نہیں کرتا۔ سوچنے کو اولیت ہے‘ عمل بعد کی منزل ہے۔ مگر ہاں! دونوں میں کون کب زیادہ اہم ہوتا ہے، یہ سمجھنا بھی لازم ہے۔
ہمیں دنیا میں جو کچھ بھی دکھائی دے رہا ہے وہ فکر و نظر کا نتیجہ ہے۔ لوگ سوچتے ہیں اور اُس پر عمل کرتے ہیں تو کچھ کر پاتے اور پاتے ہیں۔ یہ کوئی ایسی حقیقت نہیں جسے سمجھنے کے لیے غیر معمولی نوعیت کی دانش درکار ہو یا انسان مفکر کی سطح پر جیتا ہو۔ ہم جو کچھ دیکھتے ہیں وہ ہمیں بتاتا ہے کہ کس نے کب کتنی محنت کی ہے، کتنا پسینہ بہایا ہے۔ سوچنے کا عمل انسان کو ہر اعتبار سے پختگی کی طرف لے جاتا ہے۔ ہر حقیقی کامیاب انسان فکر و نظر کے مرحلے کو اولیت دیتا ہوا ملے گا۔ سوچے بغیر کچھ ہوتا نہیں اور اگر اِس معاملے میں اپنے وجود پر زبردستی کیجیے تو معاملات صرف بگڑتے ہیں۔
دنیا کا ہر بڑا کام پختہ فکر کا نتیجہ ہے۔ جب بہت کچھ سوچا جاتا ہے تب کچھ بن پاتا ہے یا ہو پاتا ہے۔ یہ بالکل سامنے کی بات ہے جسے سمجھنے کے لیے کوئی بڑا یا دقیق فلسفہ درکار نہیں۔ جس نے سوچا اُس نے پایا۔ مگر ہاں! ایک نکتہ ذہن نشین رکھنا لازم ہے۔ کسی بھی انسان کو محض سوچنے سے کچھ نہیں ملتا۔ جو کچھ سوچا جائے اُس پر کماحقہٗ عمل ہی سے کچھ ہو پاتا ہے، مل پاتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ سوچنے کے عمل سے گزرنے کے بعد عمل کی منزل تک پہنچنے والوں ہی نے منزلِ مقصود پائی ہے۔ کوئی بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا کہ ہمیں آج جو کچھ دکھائی دے رہا ہے اور اپنے گھر میں میسر ہے‘ وہ سب کا سب غور و فکر اور پھر اُس پر عمل کا منطقی نتیجہ ہے۔
ناکامی کی طرف لے جانے والا سب سے بڑا راستہ یہ ہے کہ فکر و نظر اور عمل کے ربط کو یکسر نظر انداز کردیا جائے۔ بس اتنا ہو جائے تو سمجھ لیجیے بھرپور ناکامی آپ کی ہوئی! کسی بھی معاشرے کا جائزہ لیجیے، آپ دیکھیں گے کہ فکر و عمل میں کامل ہم آہنگی کے بغیر کیا جانے والا ہر کام محض خرابی پر منتج ہوتا ہے۔ یہ افسوس ناک ضرور ہے‘ حیرت انگیز نہیں۔ پوری کائنات میں کارفرما اصول ہماری زمین پر بھی تو موثر ہیں۔ کائنات کا انتہائی بنیادی اُصول ہے جتنا گڑ ڈالیے اُتنا میٹھا۔ جس نے جتنی محنت کی اُس نے اُتنا ہی پایا۔ کچھ نہ کرنے والے کچھ نہیں پاتے... اور اگر نصیب کی یاوری سے کچھ مل بھی جائے تو زیادہ دیر ٹکتا نہیں اور فیض تو بالکل نہیں پہنچاتا۔
کامیابی کے لیے کوشش کرنا جتنا ضروری ہے اُتنا ہی ضروری ہے ناکامی سے بچنا۔ ناکامی سے بچنے کے لیے بنیادی چیز ہے فکر و عمل کی ہم آہنگی۔ یہ ہم آہنگی اُسی وقت ممکن ہو پاتی ہے جب توازن کو زندگی کے بنیادی اُصول کے طور پر اپنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ کوشش زندگی کا رخ متعین کرتی ہے۔ ہر بڑے کام کے لیے زیادہ سوچنا لازم ہے اور سوچنے کا پروسیس مکمل ہونے پر عمل کی باری آتی ہے۔ سوچے ہوئے پر عمل نہ کیا تو بات بنے گی نہیں۔ اور اگر سوچنے کی منزل سے گزرے بغیر عمل کی طرف بڑھے تب بھی کچھ حاصل نہ ہوگا۔
یہ سب کچھ کسی بھی درجے میں حیرت انگیز نہیں۔ سوچے بغیر کچھ بھی کرنا عموماً بہت حد تک لاحاصل رہتا ہے اور بہت سوچنے کے بعد عمل سے گریز بھی زندگی کو خرابیوں سے دوچار کرتا ہے۔ جو کچھ بھی کرنا ہے کامل غور و فکر کے بعد کرنا ہے۔ بے سوچے کیا جانے والا ہر عمل الجھنیں بڑھاتا ہے۔ ہمیں اپنے ماحول میں اس کی بہت سی مثالیں آسانی سے دکھائی دے سکتی ہیں۔ لوگ عمومی سطح پر زیادہ سوچنا پسند نہیں کرتے۔ سوچنے سے منصوبہ سازی میں مدد ملتی ہے۔ منصوبہ سازی عمل کو آسان بناتی ہے۔ سوچنا زندگی کو معیاری بنانے کے عمل کا بنیادی حصہ ہے مگر پھر بھی اِس سے گریز اس لیے کیا جاتا ہے کہ سوچنے بیٹھئے تو بہت سی غیر منطقی باتوں کو ذہن سے نکالنا پڑتا ہے۔ اچھی طرح سوچنے کے بعد شروع کیا جانے والا عمل بہت کچھ ترک کرنے پر بھی مجبور کرتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ لوگ سوچنے سے گریز کرتے ہوئے عمل کی راہ پر گامزن رہتے ہیں اور ناکامی کی منزلوں سے گزرتے جاتے ہیں۔ یاد رکھیے، ''بے فکری‘‘ ہی شدید نوعیت کی بے عملی کی طرف لے جاتی ہے اور وہاں سے واپسی بہت مشکل ہوتی ہے۔