ایک دنیا اُن سے سیکھتی ہے جو اپنی کامیابی کی داستان بخوشی اور بصد شوق سناتے ہیں۔ ہر کامیاب انسان چاہتا ہے کہ لوگ اُس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جانیں۔ وہ اپنی کامیابی کی داستان سُناکر دراصل دنیا کو بتانا چاہتا ہے کہ وہ کتنی محنت کے بعد اور کتنے مصائب جھیل کر وہاں تک پہنچا ہے جہاں دکھائی دے رہا ہے۔ہر انسان یہ سمجھتا ہے کہ دکھ صرف اُس کے حصے میں آئے ہیں اور باقی دنیا مزے لُوٹ رہی ہے۔ لیو ٹالسٹائی کے مشہور ناول ''اینا کریننا‘‘ کے پہلے باب کی پیشانی پر ایک جملہ لکھا ہے‘ جو کچھ یوں ہے کہ تمام خوش و خرم گھرانے ایک دوسرے سے مشابہ ہوتے ہیں اور ہر دکھی گھرانہ رنج و غم سہنے اور مصائب کے اظہار کا انوکھا انداز رکھتا ہے۔ مفہوم اس جملے کا یہ ہے کہ خوشی کے عالم میں سبھی یکساں نوعیت کی طرزِ عمل اپناتے ہیں یعنی لہکتے چہکتے ہیں، جھومتے گاتے ہیں جبکہ پریشانی اور دکھ کے عالم میں ہر گھرانہ یہ سمجھتا ہے کہ بس وہی دکھی ہے اور دکھ کے اظہار کا انداز بھی اُس کا اپنا ہوتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اس حقیقت کو بھی سمجھنا ہوگا کہ لوگ دکھی دکھائی دینے کا بہانہ ڈھونڈتے ہیں اور اِس کیفیت کو مظلومیت کا لبادہ اُڑھاکر زیادہ سے زیادہ لوگوں کی ہمدردی بٹورنے کی کوشش کرتے ہیں۔
پریشانی کے عالم میں انسان کو عموماً یہی سُوجھتا ہے کہ منہ بسور کر ایک طرف بیٹھ رہے، کڑھتا رہے۔ یہ کوئی انوکھی بات نہیں کیونکہ انسان کے مزاج میں یہ چیز گندھی ہوئی ہے۔ مشکلات و مصائب جھیل کر ڈھنگ سے جینا کسی کسی کو نصیب ہوتا ہے۔ پریشانی کے عالم میں حواس قابو میں رکھ کر امکانات کے بارے میں سوچنا کسی بھی اعتبار سے فطری معاملہ نہیں‘ یہ ایک فن ہے جو سیکھنا پڑتا ہے۔ کسی بھی شعبے میں بے مثال نوعیت کی کامیابی حاصل کرنے والوں کے حالات پڑھیے تو اندازہ ہوگا کہ مشکلات اُن کے حصے میں بھی آئیں اور اُنہوں نے بھی حواس و اعصاب پر غیر معمولی دباؤ محسوس کیا۔ اُن میں اور دوسروں میں اگر فرق ہے تو صرف اِتنا کہ دوسروں نے مشکلات کے سامنے ہتھیار ڈال دیے اور کامیاب ہونے والوں نے کسی بھی مشکل کو حواس پر سوار نہیں ہونے دیا۔ کیا اُنہوں نے ایسا محض اس لیے کرلیا کہ قدرت نے اُنہیں ایسا ہی خلق کیا تھا؟ جی نہیں! قدرت نے اُن میں دونوں طرح کا امکان رکھا تھا ... سیکھنے کا بھی اور نہ سیکھنے کا بھی۔ جو سیکھنے پر توجہ دیتے ہیں وہی سیکھ کر آگے بڑھتے ہیں۔
کچھ کرنے کا ارادہ رکھنے والے ہر انسان کے لیے قدم قدم پر مشکلات ہوتی ہیں۔ مشکلات سے یکسر پاک زندگی صرف اُن کی ہوتی ہے جنہیں کچھ بھی نہیں کرنا ہوتا، کچھ بھی بننے کی تمنا نہیں ہوتی۔ شوگر رے رابنسن کہتے ہیں ''چیمپئن بننے کے لیے آپ کو اپنے وجود پر اس وقت بھروسا کرنا ہوتا ہے جب کوئی اور ایسا کرنے کے لیے بالکل تیار نہ ہو!‘‘ ہر کامیاب انسان کی زندگی میں ایک لمحہ وہ ہوتا ہے جب وہ عام آدمی ہوتا ہے‘ یعنی کچھ نہیں ہوتا۔ پھر وہ کچھ طے کرتا ہے، ذہن سازی کے بعد منصوبہ سازی کا مرحلہ آتا ہے۔ اس مرحلے میں طے کرنا ہوتا ہے کہ کرنا کیا ہے اور کس طور کرنا ہے۔ اس کے بعد منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی منزل آتی ہے۔ یہاں تک کوئی بھی ساتھ نہیں ہوتا بلکہ حوصلہ شکنی کرنے والے ہوتے ہیں جو بار بار سامنے آکر ڈراتے ہیں کہ ''کسی بھی طرح کی کوشش نہ کرو‘ کسی نے کیا پالیا جو تم حاصل کرلوگے؟‘‘ جو خود کچھ نہیں کرنا چاہتے وہ دوسروں کو بھی کچھ کرتے ہوئے دیکھنا پسند نہیں کرتے۔ یہ بھی بالکل فطری سی بات ہے۔ یہاں بھی آپ کو فطری رجحان یا عمومی چلن کے خلاف ہی جانا پڑے گا۔جب تک انسان نے کامیابی حاصل نہیں کی ہوتی تب تک کوئی بھی اُسے سراہتا نہیں‘ اُس کے نام کی مالا نہیں جپتا۔ البرٹ ہارورڈ کہتے ہیں ''دنیا میں صرف ایک ناکامی ہے ... کوشش ترک کردینا‘‘۔ جی ہاں! ناکام صرف وہی ہوتے ہیں جو کوشش ترک کرکے تساہل کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں۔
جب تک کسی نے قبول نہیں کیا ہوتا، صلاحیتوں کو پہچانا اور تسلیم نہیں کیا ہوتا تب تک انسان کے لیے آگے بڑھنا انتہائی دشوار ہوتا ہے۔ اُسے قدم قدم پر حوصلہ شکن صورتِ حال کا سامنا رہتا ہے۔ ایسے میں جس نے ہمت ہار دی وہ پیچھے رہ گیا۔ جب کوئی بھی قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہو تب اپنے وجود کو مکمل طور پر تسلیم کرنا ہوتا ہے۔ اِسی راہ پر آگے بڑھنے سے خود اعتمادی کی منزل تک پہنچا جاسکتا ہے۔ہر کامیاب انسان کی ایک کہانی ہوتی ہے۔ اس کہانی میں بہت سے ایسے موڑ ہوتے ہیں جن سے گزر کر ہم اپنے لیے بھی کوئی بہتر راستہ چُن سکتے ہیں۔ کامیاب انسان اپنے تجربے کی روشنی میں آگے بڑھنے کی راہ دکھاتے ہیں۔ طلعت محمود کے ایک فلمی گانے کا شعر ہے ؎
جو تار سے نکلی ہے وہ دُھن سب نے سُنی ہے
جو ساز پہ گزری ہے وہ کس دل کو پتا ہے
جب کوئی کامیاب ہو جاتا ہے‘ تب سبھی سراہتے ہیں۔ مزا تو جب ہے کہ کامیابی کے لیے پوری لگن کے ساتھ محنت کرنے والوں کو سراہا جائے۔ ایسی صورت میں اُن کے لیے آگے بڑھنا آسان ہو جاتا ہے۔ کامیاب ہونے والوں کو تو سبھی پہچانتے اور سراہتے ہیں۔ حقیقی ستائش کے مستحق وہ ہیں جو دن رات ایک کرکے کچھ پانے کی کوشش کر رہے ہوں اور مشکلات میں گِھر جانے پر یہ چاہتے ہیں کہ کوئی سراہے‘ حوصلہ افزائی کرے۔ بھرپور کامیابی کے لیے غیر معمولی محنت کرنے والوں کو ہماری طرف سے حوصلہ افزائی کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ ہماری طرف سے ستائش کے چند الفاظ اُن کا سیروں خون بڑھادیتے ہیں۔ کامیابی یقینی بنانے کے لیے جسم و جاں کو نچوڑ لینے والی محنت کے زمانے ہی میں حوصلہ افزائی کے چند الفاظ جادو کا کام کرتے ہیں۔ لوگ کامیاب انسانوں سے متاثر ہوتے ہیں مگر اُن سے کچھ سیکھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ کامیاب انسانوں سے یہ بات کم ہی لوگ پوچھتے ہیں کہ غیر معمولی کامیابی یقینی بنانے کے لیے کیا کرنا چاہیے، کن لوگوں کو اپنانا چاہیے اور کن لوگوں سے کنارہ کش رہنا چاہیے۔
کسی بھی شعبے میں بھرپور کامیابی یقینی بنانے کے لیے جو کچھ بھی کر گزرنا لازم ہے‘ وہ سب کچھ آپ اُسی وقت کرسکتے ہیں جب اپنے وجود پر پورا یقین ہو۔ جب کوئی بھی ساتھ نہ دے رہا ہو تب اپنا ساتھ دینا آپ پر لازم ہے۔ جب کسی اور کی توجہ آپ پر نہ ہو یا بہت کم ہو‘ تب بھی آپ کی اپنی توجہ تو اپنے وجود پر ہونی ہی چاہیے تاکہ اعتماد کی سطح بلند رہے۔ کچھ بھی پانے سے متعلق کی جانے والی ابتدائی کاوشوں کے دوران آپ کا اپنے وجود یعنی اپنی صلاحیت و سکت پر یقین غیر متزلزل ہونا چاہیے۔ ہر عہد میں وہی لوگ کچھ کر پائے ہیں جنہوں نے ماحول یا دنیا کی پروا نہ کرتے ہوئے اپنے وجود پر بھرپور اعتماد کیا ہے، پورے یقین سے معاملات کو حتمی شکل دینے کی کوشش کی ہے۔
کسی بھی انسان کے لیے سب سے اہم مرحلہ وہ ہوتا ہے جب وہ کامیابی کی طرف بڑھنے کی ابتدا کر رہا ہو اور ماحول سے حوصلہ افزائی چاہتا ہو۔ ماحول مطلوب حد تک حوصلہ افزائی کرے یا نہ کرے‘ اپنے آپ پر یقین لازم ہے۔ اگر یہ وصف نہ ہو تو دوسروں سے ممتاز ہونے کی خواہش کو عملی شکل نہیں دی جاسکتی۔
سٹیج پر جو ڈراما پیش کیا جاتا ہے اُسے دیکھ کر لوگ تالیاں پیٹتے ہیں۔ یہ پرفارمنس کی حتمی شکل ہوتی ہے۔ سٹیج کے پیچھے جو تیاریاں کی جاتی ہیں اُن کے بارے میں بھی سوچنا لازم ہے۔ وہاں کسی بھی فنکار کو حوصلہ افزائی کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ سٹیج پہ آکر حاضرین کے سامنے پرفارمنس کے قابل ہونے کے لیے جو تیاری کرنا پڑتی ہے‘ اُس کا اعتراف ہی تو اہم ہے۔ اُس وقت کی جانے والی حوصلہ افزائی ہی تو معاملات کو آسان کرتی ہے۔ اِسی راہ پر گامزن ہوکر کامیابی کے لیے تگ و دَو کرنے والوں کو من کی مراد پانے کے لیے درکار حوصلہ بخشا جاسکتا ہے۔