"MIK" (space) message & send to 7575

چار دشمن

زندگی کیا چاہتی ہے؟ اعلیٰ ترین درجے کا نظم و نسق‘ اور کیا؟ یہ نظم و نسق ہر معاملے میں درکار ہے۔ ہم زندگی بھر مسائل کی کثرت اور وسائل کی قلت سے دوچار رہتے ہیں۔ قدم قدم پر احساس ہوتا ہے کہ معاملات پر ہمارا اختیار خاصا کم ہے۔ ہم پر‘ ہمارے معاملات پر ہماری اپنی مرضی یا پسند و ناپسند کے علاوہ حالات بھی خطرناک حد تک اثر انداز ہوتے ہیں۔ ہم یہ سب کچھ جانتے اور دیکھتے ہیں مگر کبھی کچھ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔معاملات کو جیسا ہے‘ جہاں ہے کی بنیاد پر قبول کرنے کا نتیجہ خرابی کی صورت میں نکلتا ہے۔ نظم و نسق کے معاملے میں سب سے زیادہ توجہ جس امر پر دی جانی چاہیے وہ ہے وقت۔ جی ہاں! وقت سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ کسی بھی حوالے سے سوچیے، آپ حتمی تجزیے میں اِسی نتیجے تک پہنچیں گے کہ اگر حقیقی دولت کچھ ہے تو صرف وقت ہے۔ جس نے وقت کے حوالے سے اپنے آپ کو منظم کیا وہی حقیقی مفہوم میں کامیاب رہا۔ وقت کو سمجھنے سے متعلق ہمارے رجحان کی بنیادی کمزوری یہ ہے کہ ہم اِسے وسائل میں شمار کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وقت تمام وسائل سے بہت ہٹ کر اور بہت بلند مقام پر ہے۔ ہمیں دستیاب وسائل کے تجزیے کی بنیاد پر کام کرنا پڑتا ہے۔ وقت کو ہماری سب سے زیادہ توجہ درکار ہے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو زندگی کا توازن ایسا بگڑتا ہے کہ درست کرنے میں ایک عمر کھپ جاتی ہے۔وقت کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ کسی بھی انسان کو وقت کے بہترین استعمال سے متعلق سوچنے کی تحریک دینے کے لیے ہر دور میں سوچنے والوں نے کافی کام کیا ہے۔ تمام بڑے ذہن اس نکتے پر زور دیتے آئے ہیں کہ انسان کو کسی بھی دوسرے معاملے سے بڑھ کر وقت پر متوجہ رہنا چاہیے، اس حوالے سے سوچتے رہنا چاہیے اور عمل سے بھی یہ ثابت کرنا چاہیے کہ وہ وقت ہی کو اصل دولت گردانتا ہے۔ ہر دور کے اہلِ فکر نے نے عام آدمی کو یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ وقت ہی سب کچھ ہے اور جس نے وقت کو پہچان کر اُس کی قدر کی‘ وہ ہر اعتبار سے شاندار کامیابی کا مستحق ٹھہرا۔وقت کی قدر و قیمت سے عام آدمی کو بخوبی آگاہ کرنے کی کوششیں اہلِ علم کی طرف سے اب بھی جاری ہیں۔ بازار میں اس موضوع پر ہزاروں کتابیں دستیاب ہیں۔ شخصی ارتقا کے بیشتر ماہرین کا کہنا ہے کہ انسان کے لیے چونکہ وقت ہی سب کچھ ہے اس لیے سب سے زیادہ اگر کسی چیز کو سمجھنا ہے تو وہ وقت کے سوا کچھ نہیں۔
1958ء میں رابرٹ آر اپڈیگراف کی کتاب ''آل دی ٹائم یو نیڈ‘‘ شائع ہوئی تھی جس میں وقت کی قدر و قیمت اور اُس کی اہمیت کے سمجھنے پر بحث کی گئی تھی۔ یہ کتاب آسان زبان میں تھی اور بے حد مقبول ہوئی تھی۔ کتاب میں یہ بات پوری تفصیل کے ساتھ بیان کی گئی تھی کہ عام آدمی ڈھنگ سے کس طور جی سکتا ہے‘ کس طور اپنے لیے حقیقی مسرت کا اہتمام کرسکتا ہے۔ رابرٹ اپڈیگراف نے اپنی کتاب میں عام آدمی کو وقت کی اہمیت سے کماحقہٗ آگاہ کرنے کے لیے خاصی محنت کی اور سچ تو یہ ہے کہ اس ایک نکتے پر ذہن نچوڑ کر رکھ دیا۔کتاب کا بنیادی تصور یہ ہے کہ کسی بھی انسان کے لیے سب سے بڑا تحفہ صرف اور صرف وقت ہے، اُسے اِس تحفے کی ناقدری کسی بھی حالت میں نہیں کرنی چاہیے۔ کتاب میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ہم چاہیں تو وقت ''خرید‘‘ بھی سکتے ہیں اور بنا بھی سکتے ہیں! اور یہ کہ تھوڑی محنت سے وقت کو ذخیرہ بھی کیا جاسکتا ہے! اس حوالے سے تحت الشعور بنیادی کردار ادا کرتا ہے کیونکہ وہ کُل وقت ملازم ہے اور ہماری خدمت میں جُتا رہتا ہے۔ کسی بھی انسان میں سب سے بڑا ہنر یہ ہوتا ہے کہ وہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ کام کس طور کرسکتا ہے۔ ایک بنیادی ہنر یہ بھی ہے کہ کسی بھی کام کو اُس کے لیے درکار کم سے کم وقت سے بھی کم وقت میں کیا جائے۔رابرٹ اپڈیگراف نے بتایا کہ چار بنیادی مسائل ہیں جو انسان کا وقت بربادکرتے ہیں اور چار بنیادی پیچیدگیاں ایسی ہیں جو ذہن کو نچوڑ کر توانائی ضائع کرتی رہتی ہیں۔ آئیے! وقت اور توانائی کے اِن چار دشمنوں کا جائزہ لیں۔
٭ ٹال مٹول یا تساہل کے ہاتھوں ہمارا وقت اچھا خاصا ضائع ہوتا ہے۔ ہم سوچتے ہی رہتے ہیں کہ کام کریں گے مگر کام شروع ہونے کا نام نہیں لیتا۔ شروع تب ہوگا جب ہم شروع کریں گے۔ ٹال مٹول کی عادت ذوق و شوقِ عمل کو دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے۔
٭ اچھے وقت کا انتظار بھی ہمارا خاصا وقت ضائع کرتا ہے۔ ہم کسی بھی کام کو شروع کرنے کے لیے کسی اچھے وقت یا موقع کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ اس میں تو خیر کوئی شک نہیں کہ کسی بھی کام کے لیے ایک موزوں وقت ہوتا ہے مگر وہ ہمارے علم میں نہیں ہوتا اس لیے اُس کے انتظار میں وقت ضائع نہیں کیا جاسکتا۔
٭ ہمارا وقت ضائع کرنے والی ایک بُری عادت بہانے گھڑنے کی بھی ہے۔ ہم جب کسی معاملے میں ناکامی سے دوچار ہوتے ہیں تو بہانے گھڑ کر دوسروں کو دھوکا دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ بُری عادت کسی اور کو تو کیا دھوکا دے گی، ہمیں ہی چھلتی رہتی ہے۔ بہانے سوچنے یا گھڑنے میں جتنا وقت ضائع کیا جاتا ہے اُسے تعمیری انداز سے بھی بروئے کار لایا جاسکتا ہے۔
٭ گزرے ہوئے وقت پر تاسّف کا اظہار ہمارے وقت کو ضائع کرنے والا ایک نمایاں عامل ہے۔ جو کچھ ہوچکا ہے اُس کے بارے میں سوچتے رہنے کا کچھ فائدہ نہیں۔ ایسا کرنا اپنے آپ کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔ کامیاب وہی ہیں جو لمحۂ موجود میں زندہ رہنا پسند کرتے ہیں۔ 
یہ تو ہوا وقت کے ضیاع کا معاملہ۔ اب آئیے توانائی کی طرف! ہماری ساری توانائی دماغ میں ہوتی ہے۔ دماغ ہی پورے جسم کو توانائی فراہم کرتا ہے۔ دماغ کی ساری توانائی ہے اُسی وقت بروئے کار لائی جاسکتی ہے جب ذہن الجھا ہوا نہ ہو۔ ذہن اس توانائی کے لیے سوئچ بورڈ کا کام کرتا ہے۔ اگر سوئچ بورڈ ہی خرابی کا شکار ہو تو کوئی کام ڈھنگ سے نہیں ہو پاتا۔ ہم ایسا بہت کچھ کرتے ہیں جو دماغی توانائی کو ضائع کرتا رہتا ہے۔ آئیے! اُن چار خرابیوں کا جائزہ لیں جو توانائی کو ڈھنگ سے بروئے کار لانے سے متعلق ہماری کاوشوں کو ناکامی سے دوچار کرتی رہتی ہیں۔
٭ بدحواسی ہمیں بہت سے معاملات میں الجھاتی ہے اور یوں توانائی ضائع ہوتی رہتی ہے۔ جب ہم کسی بھی کام کو بروقت نہیں کرتے تو ضائع ہو جانے والا وقت ہمیں بدحواسی کی طرف لے جاتا ہے۔ یہ بدحواسی مزید کئی کام بگاڑتی ہے۔
٭ جھنجھلاہٹ یا چڑچڑا پن بھی ہماری توانائی کے ضیاع کا سبب بنتا ہے۔ جب ہم کسی بھی معاملے میں جھنجھلا اٹھتے ہیں تب سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت ماند پڑ جاتی ہے۔ ہم معاملات کو سمجھنے میں ناکام ہوتے ہیں تو ڈھنگ سے کام نہیں کر پاتے اور یوں جھنجھلاہٹ مزید بڑھتی ہے جس سے مزاج میں چڑچڑے پن کا حصہ بڑھ جاتا ہے۔
٭ ہماری توانائی ضائع کرنے والا ایک اہم عامل ہے بے صبری اور عجلت پسندی۔ جب ہم کسی بھی معاملے میں بے صبرے پن کا مظاہرہ کرتے ہیں تو کام پر سے توجہ ہٹ جاتی ہے اور ہم الجھتے چلے جاتے ہیں۔ بے صبری سے بڑھ کر توانائی کو ضائع کرنے والی کوئی بھی خرابی نہیں۔ کسی بھی کام کو ڈھنگ سے کرنے کے لیے وقت کی ایک مطلوب مقدار درکار ہوتی ہے۔ اُس سے کم وقت میں وہ کام کرنے کی کوشش کی جائے تو مطلوب نتائج نہیں ملتے۔
٭ پریشانی یا فکر مندی بھی ہماری توانائی کو ضائع کرنے پر تُلی رہتی ہے۔ جب کوئی معاملہ ذہن میں اٹک کر رہ جائے تو ہم اُس کے بارے میں سوچ سوچ کر ہلکان ہوتے رہتے ہیں۔ یہ عمل ہمیں تعمیری سوچ سے دور لے جاتا ہے اور عمل پسندی تو ایسی حالت میں ہمارے قریب بھی نہیں آتی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں