"MIK" (space) message & send to 7575

… کھجور میں اٹکا

کم و بیش تین عشروں سے یورپ کے لیے معاملات الجھے ہوئے ہیں۔ ایک طرف وہ عالمی سیاست میں کلیدی کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہا اور دوسری طرف ایک دنیا ہے کہ اُس سے آس لگائے بیٹھی ہے۔ امریکا اور یورپ مل کر مغرب کہلاتے ہیں۔ آج کی دنیا میں جتنی بھی ایجادات و اختراعات دکھائی دے رہی ہیں‘ اُن کا غالب حصہ مغرب کا دیا ہوا ہے۔ اہلِ مغرب نے کم و بیش چار صدیوں تک دنیا پر حکمرانی کی ہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
یورپ نے سرد جنگ کے خاتمے تک اپنا راستہ بدلنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ یورپی طاقتوں کو اندازہ ہوچکا تھا کہ وہ ترقی کی اُس منزل تک پہنچ چکی ہیں جس سے آگے جانا اُن کے لیے بہت حد تک ناممکن ہے، بالخصوص عالمگیر حکمرانی کے حوالے سے۔ یورپ کے بیشتر ترقی یافتہ ممالک کے قائدین اپنی حدود کو جانتے، پہچانتے ہیں اور حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہی کچھ کرنا چاہتے ہیں جو اُن کے بس میں ہو۔ برطانیہ نے اپنا راستہ الگ رکھا ہے۔ وہ ایک بڑی قوت رہا ہے اور اُس کے ذہن سے عالمگیر حکمرانی کا معاملہ اب تک نہیں نکلا۔ امریکا کے ساتھ مل کر برطانیہ اب بھی عالمی نظام میں غالب حصے کا حصول یقینی بنائے رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ سب کچھ حتمی تجزیے میں کس حد تک بارآور ثابت ہوگا‘ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا مگر یورپ کے لیے وقت یکسر بدل گیا ہے۔ ایک طرف تو آبادی میں اضافے کی رفتار خطرناک حد تک کم ہے اور دوسری طرف باقی دنیا سے میل جول رکھنے کے معاملے میں وہ اب بھی بہت حد تک تذبذب ہی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ فرانس، جرمنی اور دیگر یورپی قوتوں کو اچھی طرح اندازہ ہوچکا ہے کہ اب وہ دنیا نہیں رہی جس میں اُن کے لیے بہت کچھ تھا۔ اب تو امریکا کے لیے بھی بہت کچھ نہیں رہا تو یورپ کے لیے کیا رہے گا؟ بدلے ہوئے حالات کی روشنی میں نئی طرزِ فکر و عمل کی ضرورت ہے۔
یورپ کے قائدین اپنے خطے کے لیے کوئی ایسا کردار چاہتے ہیں جس میں اُن کے لیے سٹریٹیجک معاملات میں زیادہ مہم جوئی لازم نہ ہو۔ یورپ کا اجتماعی ذہن اب ''نرم قوت‘‘ کی طرف مائل ہے۔ یورپ کا عام باشندہ چاہتا ہے کہ دنیا کو علم و فن اور ثقافت کا تنوع درکار ہو تو اُس کی طرف دیکھے، دیگر امور میں امریکا یا پھر جو بھی اچھا لگے‘ اُس سے رجوع کیا جائے۔ دوسری طرف امریکا کا یہ حال ہے کہ وہ ایک طویل مدت سے یورپ کو ساتھ لے کر چل رہا ہے اور سچ تو یہ ہے کہ اُس نے اپنی بندوق کے لیے یورپ کا کاندھا کئی بار استعمال کیا ہے۔ اب یورپ میں امریکی بندوق کا بوجھ سہنے کی طاقت نہیں رہی۔ اور پھر اجتماعی ذہن بھی تبدیل ہوچکا ہے۔ ایسے میں امریکا کو یورپ سے کچھ زیادہ امید نہیں رکھنی چاہیے۔ فرانس، جرمنی، اٹلی وغیرہ اپنا ذہن واضح کرچکے ہیں۔ وہ ایسا کچھ بھی نہیں کرنا چاہتے جو سٹریٹیجک معاملات میں مشکلات پیدا کرے مگر خیر! یورپ کی جان ایسی آسانی سے چھوٹ نہیں سکتی۔ چین ایک مضبوط حریف کی حیثیت سے ابھر کر امریکا کے سامنے ہے۔ یورپ نے چین کے سامنے آنے کے بارے میں شاید سوچا بھی نہیں ہے مگر امریکا کی سنگت اُسے بہت سے معاملات میں گھسیٹ رہی ہے۔ امریکی قیادت اب بھی یہ چاہتی ہے کہ بے عقلی و خود سَری پر مبنی اُس کی پالیسیوں کو یورپ کی حمایت و مدد حاصل رہے۔ معاملات مشرقِ وسطیٰ کے ہوں یا مشرق بعید کے، وسطِ ایشیا کی بات ہو یا جنوبی امریکا کی، ہر معاملے میں امریکا چاہتا ہے کہ یورپ اُس کی وحشتوں کا ساتھی ہو۔ دوسری طرف یورپ اب گلی گلی اُس کی رسوائیوں کا ساتھی نہیں بننا چاہتا! امریکا یورپ سے جو کچھ چاہتا ہے وہ افتخار عارف کی زبانی یوں ہے ؎
میں اُس سے جھوٹ بھی بولوں تو مجھ سے سچ بولے
مرے مزاج کے سب موسموں کا ساتھی ہو!
یورپ امریکی مزاج کو اچھی طرح سمجھ چکا ہے اور اپنی زمینی حقیقتوں اور مجبوریوں سے بھی لاعلم و غافل نہیں اِس لیے اپنا راستہ الگ کرلینا چاہتا ہے۔ امریکا اُسے بار بار گھسیٹ کر علاقائی و عالمی امور میں الجھانا اور پھنسانا چاہتا ہے مگر یورپ ایک طرف بیٹھ کر بڑی طاقتوں کی رسّہ کشی کا تماشا دیکھنا چاہتا ہے۔
اس وقت یورپ کی حیثیت آسمان سے گرا‘ کھجور میں اٹکا والی ہے۔ وہ عالمگیر حکمرانی کے مزے لوٹ چکا ہے۔ یورپی طاقتوں نے پہلے تنِ تنہا کئی خطوں پر حکومت کی، متعدد ممالک کو نو آبادیات میں تبدیل کیا اور اُن کے قدرتی وسائل پر ہاتھ صاف کیے۔ بعد میں امریکا مل گیا تو یہ کام اِس طور کیا کہ زیادہ بدنامی بھی حصے میں نہیں آئی۔ امریکا کے ساتھ مل کر یورپ نے کم و بیش ایک صدی سے دنیا کو دبوچ رکھا ہے۔ اب مزید ایسا کرنا کم از کم یورپ کے لیے ممکن نہیں رہا۔ اس کا ایک بنیادی سبب اندرونی کمزوری ہے۔ ایک طرف تو آبادی میں اضافے کی رفتار بہت کم ہے اور دوسری طرف عام یورپی باشندہ باقی دنیا کے بکھیڑوں میں الجھنا نہیں چاہتا۔ برطانیہ ضرور امریکا کے ساتھ مل کر عسکری سطح پر بھی دوسرے خطوں سے کھلواڑ کے موڈ میں ہے مگر فرانس، جرمنی اور اٹلی جیسے ممالک اب اپنی حدود میں رہنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ اُن کی مجبوریاں بھی سمجھ میں آتی ہیں۔ افریقہ سے جُڑے ہوئے ہونے کے باعث وہ زمینی حقیقتوں کو نظر انداز کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ اگر امریکی پالیسیوں کے نتیجے میں شمالی افریقہ اور دیگر ملحقہ خطوں میں زیادہ گڑبڑ ہوئی تو خمیازہ سب سے زیادہ یورپ کو بھگتنا پڑے گا کیونکہ امریکا تو بحرِ اوقیانوس کے اُس پار واقع ہے۔
یورپ کو اب کئی ممالک اور خطوں سے تعلقات کے بارے میں سوچ واضح کرنی ہے۔ امریکا کے علاوہ روس، ترکی، چین اور مشرقِ وسطیٰ سے معاملات درست کرنے پر اُسے غیر معمولی توجہ دینی ہے۔ امریکا کی خوشنودی یقینی بنانے کی خاطر دوسروں کو ناراض نہیں کیا جاسکتا۔ چین تو خیر خاصا ابھر چکا ہے اور تیزی سے پنپتے ہوئے اپنی طاقت میں اضافہ کرتا جارہا ہے، روس بھی اس دوڑ میں پیچھے نہیں‘ وہ بھی ایک بڑی طاقت کی حیثیت سے اپنی بات منوانے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔ ترکی نے بحیرۂ روم کے خطے میں اپنی موجودگی ثابت کرنے پر توجہ دی ہے اور وسیع تر کردار کا حامل ہونے کی تیاری کر رہا ہے۔ فرانس اور جرمنی نے اب تک ان نئی زمینی حقیقتوں سے کماحقہٗ نمٹنے کا ذہن نہیں بنایا۔ شش و پنج کی کیفیت برقرار ہے۔ اس کا ایک بنیادی سبب امریکا کا رویہ بھی ہے۔ امریکا نے یورپ کو بہت سے معاملات میں اٹکا اور لٹکا رکھا ہے۔ ایک طرف وہ بحرِ اوقیانوس کے دونوں سِروں کی سلامتی کا ذمہ دار بنتا ہے اور دوسری طرف اپنے مفادات کی چوکھٹ پر یورپ کو قربان کرنے کا عندیہ بھی دیتا ہے۔ یورپ قربانی کے بکرے کا کردار مزید ادا کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اُسے اپنی اندرونی کمزوریوں اور بیرونی مجبوریوں کا پوری شدت سے احساس ہے۔ افریقہ میں چین کا بڑھتا ہوا اثر و نفوذ بھی یورپ کے لیے کوئی ڈھکی چھپی حقیقت نہیں۔
آج کا یورپ مجموعی طور پر ''نرم قوت‘‘ کی مدد سے آگے بڑھنے کا خواہاں ہے، اس لیے امریکی قیادت اُس سے عسکری مہم جوئی کے حوالے سے رفاقت کی توقع نہیں کرسکتی۔ یہ زمینی حقیقت امریکا جس قدر جلد سمجھ لے‘ باقی دنیا کے لیے اُتنا ہی اچھا ہے۔یورپ کے لیے بہتر راستہ یہی ہے کہ کسی بھی غیر منطقی عسکری مہم جوئی سے گریز کرتے ہوئے شمالی افریقہ، مشرقِ وسطیٰ، بحیرۂ روم، وسطِ ایشیا اور مشرقِ بعید سے بہتر تعلقات استوار کرے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ یورپ کوئی ایسا قدم نہ اٹھائے جس کی پاداش میں اُس کے لیے سکیورٹی مسائل پیدا ہوں اور دوبارہ امریکا کی طرف دیکھنا پڑے۔ امریکی قیادت یقینا چاہے گی کہ یورپ کسی ایسے مناقشے میں الجھے جس سے نجات کے لیے عسکری سطح پر اُسے واشنگٹن کی طرف دیکھنا پڑے۔ یورپی یونین کو شش و پنج کی کیفیت سے نکل کر واضح پالیسی اپنانا ہے اور ساتھ ہی ساتھ برطانیہ جیسے اہم ملک کو بھی ہم خیال بنائے رکھنا ہے تاکہ وہ امریکا کی طرف مزید لڑھک کر پورے خطے کے لیے پیچیدگیاں نہ بڑھائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں