زندگی بہت حد تک میلے کے سے خد و خال رکھتی ہے۔ میلہ بنیادی طور پر دل بہلانے کی خاطر لگایا جاتا ہے۔ زندگی بھی اپنی اصل میں تو ہمارے لیے دل بستگی کا سامان ہی ہے۔ ہم اپنی خامیوں، کمزوریوں اور نا اہلی سے سادہ سی زندگی کو پیچیدہ بناکر اپنے لیے مسائل کھڑے کرتے ہیں۔ خیر! زندگی بسر کرنا میلے کی سیر سے کہیں بلند معاملہ ہے۔ جب تک ہم روئے ارض پر ہیں، سنجیدگی کو زندگی کا بنیادی وصف بنائے بغیر ڈھنگ سے جی نہیں سکتے۔ جو لوگ بظاہر سنجیدہ ہوئے بغیر یعنی کھیل کود کے سے انداز سے جیتے ہیں وہ حتمی تجزیے میں جیت نہیں پاتے، ہار ہی اُن کا مقدر بنتی ہے۔ حسّاس معاملات سے کھلواڑ کرتے رہنے کی صورت میں یعنی زندگی کو سنجیدہ نہ لینے پر انسان کو صرف خسارے کا سامنا رہتا ہے۔
بالی ووڈ کی شہرہ آفاق فلم ''شعلے‘‘ میں دو نوجوانوں کی پکّی دوستی دکھائی گئی ہے۔ یہ دوست ہیں جے (امیتابھ بچن) اور ویرو (دھرمیندر)۔ دونوں مزاجاً ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ جے خاموش طبع، ٹھنڈے مزاج کا پُرسکون انسان ہے اور بیشتر معاملات میں سنجیدگی سے کام لیتا ہے۔ ویرو کھلنڈرے مزاج کا ہے یعنی اُس کا عملی فلسفہ یہ ہے کہ ہنستے گاتے جیو۔ جے کم و بیش ہر معاملے کو سنجیدگی سے لیتا ہے جبکہ ویرو کا کردار بے کہے کہہ دیتا ہے کہ سوچنا لازم ہے نہ سودمند۔ ویرو فلم کے ایک منظر میں جے سے کہتا ہے ''یار جے! میں نے کچھ سوچا ہے۔‘‘ اس پر جے کہتا ہے ''ہاں، کبھی کبھی یہ کام بھی کرلینا چاہیے!‘‘ جے صرف ویرو سے مخاطِب نہیں ہوا بلکہ اس کا رُوئے سُخن ہم سب کی طرف ہے۔ ڈھنگ سے جینے کیلئے سوچنا لازم ہے۔ معاملہ کبھی کبھی کا نہیں بلکہ بیشتر معاملات کا ہے۔ زندگی ہم سے قدم قدم پر تفکر بھی مانگتی ہے اور تجزیہ بھی۔ کیا ہر وقت سنجیدہ رہنا لازم ہے؟ کیا ہمیشہ سوچتے رہنا ناگزیر ہے؟ ان دونوں سوالوں کا جواب نفی میں ہے۔ بہت سے معاملات ہم سے زیادہ تفکر نہیں چاہتے۔ ایسے میں ذہن کا بے جا استعمال خرابیاں پیدا کرتا ہے۔ علامہ اقبالؔ بھی کہہ گئے ہیں ؎
اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبانِ عقل
لیکن کبھی کبھی اِسے تنہا بھی چھوڑ دے
سوچنا ہر مقام پر لازم نہیں مگر جہاں سوچنا لازم ہو وہاں سوچے بغیر بات بنتی نہیں۔ آج ہمیں دنیا میں جتنی بھی رنگینی دکھائی دے رہی ہے، سوچ ہی کا نتیجہ ہے۔ سوچنے والے جب اپنی سوچ کو عملی شکل دیتے ہیں تب دنیا کی رنگینی بڑھتی ہے۔ زندگی کے بنیادی تقاضوں میں سوچ سرِفہرست ہے۔ ہمیں زندگی بھر ایسے معاملات کا سامنا رہتا ہے جن کی درستی کے لیے سوچنا لازم ہے۔ ڈھنگ سے سوچنے کی صلاحیت پروان چڑھائے بغیر ہم سوچ کا حق ادا نہیں کرسکتے۔ مزاج کی شگفتگی زندگی کی بہت سی مشکلات دور کرتی ہے اور ہمیں راحت و چَین کے ساتھ جینے کی راہ دیتی ہے۔ بہت سے معاملات ہم سے غیر معمولی سوچ بچار کا مطالبہ یا تقاضا نہیں کرتے۔ جہاں زیادہ سوچنا ضروری نہ ہو وہاں ذہن پر خواہ مخواہ بوجھ ڈالنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ایسے میں شگفتہ مزاجی ہی ہمارے لیے زیادہ سودمند ثابت ہوتی ہے۔ معاشرتی معاملات تفکر کا بھی تقاضا کرتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ بیشتر معاشرتی معاملات ہم سے زیادہ تفکر نہیں چاہتے۔ معاملات کو ہلکا پھلکا رکھنے سے زندگی میں فرحت و فراوانی کا احساس نمایاں ہوتا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ لوگ سوچنے اور نہ سوچنے کے معاملات میں توازن سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ بہت سوں کے نزدیک زندگی صرف ہنسنے گانے کا نام ہے یعنی ہر وقت کھلکھلاتے رہیے اور کسی بھی پریشانی کو خاطر میں نہ لائیے۔ پریشانی کو خاطر میں نہ لانے اور سوچنے سے گریز کرنے میں بہت فرق ہے۔ اس فرق کو نظر انداز کردینے سے خاصا بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ ہر پریشانی اس قابل نہیں ہوتی کہ اس کے لیے یا اس کے بارے میں زیادہ سوچا جائے تاہم نہ سوچنے کا رجحان پروان چڑھاکر تمام ہی معاملات کو ''بے فکری‘‘ کی نذر کردینا کسی بھی اعتبار سے درست نہیں۔ کسی بھی معاشرے یا ماحول میں ایسا بہت کچھ ہوتا ہے جو سوچنے کی تحریک دیتا رہتا ہے۔ جو اپنے معاملات کو درست کرنا چاہتے ہیں وہ سوچنے کی تحریک ملنے پر سوچنے کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ ہی زندگی کو متوازن رکھنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں۔
نہ سوچنا بھی آپشن کا درجہ رکھتا ہے مگر یہ آپشن ہمیں مزید پریشانی کی طرف لے جاتا ہے۔ کوئی بھی پریشانی اُسی وقت دور ہو پاتی ہے جب ہم سنجیدہ ہوکر سوچتے ہیں۔ یہ عمل ہمیں پریشانی کو سمجھنے، اُس کے تجزیے اور حل کی طرف لے جانے والی راہ پر گامزن کرتا ہے۔ جس طرح ہر جگہ سنجیدگی کام کی نہیں ہوتی بالکل اُسی طرح کھلنڈرا مزاج بھی ہر معاملے میں کارگر ثابت نہیں ہوتا۔ کبھی کبھی صورتحال ایسی ہوتی ہے کہ ہم کھلنڈرے پن کا مظاہرہ نہ کریں تو غیر متعلق سے دکھائی دینے لگتے ہیں۔ شادی کی تقریبات اور خوشی کے موقع پر ہلکا پھلکا مزاج ہی موزوں رہتا ہے۔ ایسے مواقع پر اگر کوئی خواہ مخواہ سنجیدہ دکھائی دے تو بُرا لگتا ہے۔ جب سبھی خوشیاں منارہے ہوں تب آپ کو بھی خوش ہونا چاہیے، خوش دکھائی دینا چاہیے مگر جب معاملات سنجیدگی چاہتے ہوں تب آپ کو سنجیدہ ہونا ہی پڑتا ہے۔ اگر ایسے میں آپ اپنی روش تبدیل نہ کریں اور معاملات کو ہلکا لیں تو بنتا کام بھی بگڑ جاتا ہے۔ ہم اپنے ماحول میں جو کچھ بھی دیکھتے، سنتے اور پڑھتے ہیں وہ ہمیں سوچنے کی تحریک دیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم سے متعلق ہر بات، ہر معاملہ کسی نہ کسی درجے میں محّرک ہی ہوتا ہے۔ جو لوگ حالات سے اپنے کام کی چیزیں کشید کرنے کا ہنر جانتے ہیں وہ دن رات اپنی اصلاح اور اَپ گریڈیشن پر متوجہ رہتے ہیں۔ اَپ ڈیٹ رہنا بھی ضروری ہے مگر اِس سے بڑھ کر ضروری ہے خود کو اَپ گریڈ کرتے رہنا۔ سیلف اَپ گریڈیشن کے لیے ناگزیر ہے کہ آپ اپنے ماحول میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو نظر انداز نہ کریں اور بالخصوص ایسی تبدیلیوں کو جن کا آپ کی ذات سے کچھ نہ کچھ تعلق بنتا ہو۔
ہماری آپ کی سوچ کچھ بھی سہی، سوچنے سے متعلق تحقیق سے وابستہ ماہرین کہتے ہیں کہ انسان کے پاس نہ سوچنے کا آپشن نہیں۔ جو لوگ نہیں سوچتے وہ خسارے میں رہتے ہیں۔ ہر معاملے میں آپ کی سوچ ہی طے کرتی ہے کہ آپ کس طرف جائیں گے اور کیا پائیں گے۔ جو لوگ سوچنے کے عمل کو اپنی ترجیحات میں سرِفہرست نہیں رکھتے اُن کی زندگی میں مسائل جوں کے توں رہتے ہیں، بلکہ بعض اوقات پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتے جاتے ہیں۔ ذہن کو بروئے کار نہ لانا ہمارے معاملات کو الجھاتا رہتا ہے۔ لوگ سوچنے سے بالعموم اس لیے کتراتے ہیں کہ اس میں تھوڑی سی توجہ اور محنت ہی درکار نہیں ہوتی بلکہ کسی نہ کسی سطح پر ایثار کا مظاہرہ بھی کرنا پڑتا ہے۔ سوچنے کا عمل ہم سے بہت کچھ چھوڑنے کو بھی کہتا ہے اور بہت کچھ اپنانے کی تحریک بھی دیتا ہے۔ جو باتیں ہمارے لیے ناگزیر ہیں اُنہیں اپنانا ہی پڑتا ہے اور جو کچھ بھی ہمارے لیے نقصان دہ ہے اُسے ترک نہ کرنا خطرناک نتائج کی راہ ہموار کرتا ہے۔
کسی بھی صورتحال میں آپ کے لیے سوچنے کا آپشن کبھی دم نہیں توڑتا۔ لازم ہے کہ آپ اپنے تمام معاملات کا جائزہ لیتے ہوئے ایسی سوچ اپنائیں جو آپ کے مسائل حل کرنے میں معاون ثابت ہو اور آسانیوں کی راہ ہموار کرے۔ دانش کا یہی تقاضا ہے کہ جہاں دانش کا استعمال لازم ہو وہاں بے ذہنی یا بے عقلی کو حرزِ جاں بنائے رکھنے سے گریز کیا جائے۔ ہم بالعموم جس شگفتہ مزاجی پر مرتے ہیں وہ بھی سنجیدگی ہی کے بطن سے ہویدا ہوتی ہے۔ جب انسان اپنے معاملات درست کرنے پر مائل ہوتا ہے تب پیچیدگیاں دور ہوتی ہیں اور زندگی کو ہلکے پھلکے انداز سے بسر کرنے کی راہ ہموار ہوتی جاتی ہے۔