"MIK" (space) message & send to 7575

مینڈک نگلنے کا مرحلہ

برائن ٹریسی کا شمار اُن مصنفین میں ہوتا ہے جنہوں نے وقت کے ممکنہ بہترین استعمال کے بارے میں بہت لکھا ہے۔ ان کی لکھی ہوئی کتابوں کے دنیا بھر میں تراجم ہوئے ہیں۔ اردو میں بھی ان کی کئی کتابوں کا ترجمہ شائع ہوچکا ہے۔ ''Eat That Frog!‘‘ (وہ مینڈک کھائیے) بھی ایک ایسی ہی کتاب ہے جس میں برائن ٹریسی نے وقت کا بہترین استعمال یقینی بنانے پر بحث کی ہے۔ کتاب کا مرکزی خیال یہ ہے کہ وقت چونکہ ہر انسان کو ایک خاص تناسب سے بخشا گیا ہے اس لیے اس کا بہترین استعمال یقینی بنانے پر زیادہ سے زیادہ توجہ دینا لازم ہے۔ ہم مقابلے کی دنیا میں جی رہے ہیں‘ قدم قدم پر مسابقت ہے اور اس مرحلے سے کامیاب گزرے بغیر ہم مثالی نوعیت کی کامیابی حاصل نہیں کر سکتے۔ دیکھا گیا ہے کہ لوگ کامیابی تو چاہتے ہیں مگر اُس کے تقاضوں کو نظر انداز کرتے چلے جاتے ہیں۔ کامیابی کا حصول یقینی بنانے کے لیے جو کچھ کرنا لازم ہے وہ کرنا ہی پڑتا ہے۔ جو کام سب سے ناگوار محسوس ہو وہی پہلے کرنے سے کامیابی کی طرف بڑھنے میں مدد ملتی ہے۔ تخلیقی جوہر اُسی وقت کھلتا اور پنپتا ہے جب انسان مشکل کام پہلے کرتا ہے۔ ناگوار کاموں سے بچنے کی کوشش کرنے کے بجائے اُنہیں پہلے کرنے کی عادت پختہ کرنے سے زندگی کو نیا مفہوم ملتا ہے۔
برائن ٹریسی لکھتے ہیں کہ اہم ترین کام پہلے کرنے کی عادت ڈالیے‘ چاہے وہ ناگوار ہی کیوں نہ ہو۔ اہم ترین کام پہلے کرنے کی عادت اسی وقت پروان چڑھتی ہے جب ہم انہماک کی منزل سے گزرتے ہیں، اُسے اولیت دیتے ہیں۔ انہماک کی کمی سے شدید مشکلات پیدا ہوتی ہیں جو کامیابی کے حصول کی راہ میں دیواریں کھڑی کرتی ہیں۔ عام آدمی بھی جب اپنے کام پر پوری توجہ دیتا ہے تو دوسروں سے الگ دکھائی دینے لگتا ہے۔ انہماک کا بنیادی کمال یہ ہے کہ یہ وقت کے ضیاع کو روکتا ہے اور ناگوار محسوس ہونے والے کاموں کو بھی دلچسپ بنانے لگتا ہے۔ کسی بھی شعبے میں کامیابی کا مدار 95 فیصد تک عادتوں پر ہے۔ اچھی عادتیں ہماری سب سے اچھی دوست ہیں اور بُری عادتیں ہماری سب سے بُری دوست ہیں۔ جس نے یہ راز جانا وہ جیت گیا۔ جیتنا عادت ہے اور یہ عادت جتنی پختہ ہوگی، زندگی میں اُتنی ہی معنویت بڑھتی جائے گی۔ اگر آپ نے کامیاب ہونے کا ذہن بنا لیا ہے تو تین مراحل سے گزرنا لازم ہے۔ پہلے مرحلے میں اہداف کا تعین کیجیے، دوسرے مرحلے میں نظم و ضبط کو اپنائیے اور تیسرے مرحلے میں عزم پیدا کیجیے۔ ان میں سے کسی بھی مرحلے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اہداف کا تعین لازم ہے کیونکہ اس کے بغیر انسان بے سمت سفر کرتا ہے۔ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ کسی بھی معاشرے میں صرف 3 فیصد افراد یہ طے کر کے زندگی بسر کرتے ہیں کہ انہیں کرنا کیا ہے!
ڈیڈ لائن کے بغیر کچھ حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ آپ کو طے کرنا پڑے گا کہ جو کچھ بھی کرنا ہے وہ کتنی مدت میں اور کس طرح کرنا ہے۔ اس کے لیے بنیادی چیز عمل ہے۔ عمل کے بغیر کچھ نہیں ہوتا۔ آپ کو یومیہ بنیاد پر اس امر کا جائزہ لینا ہو گا کہ آپ جو کچھ کرنا چاہتے ہیں وہ کر بھی پا رہے ہیں یا نہیں۔ کسی بھی بڑے ہدف کا حصول یقینی بنانے کے لیے اُسے چھوٹے چھوٹے اہداف میں تقسیم کرنا اچھا طریقہ ہے۔ اس طور آپ کچھ نہ کچھ پاتے رہیں گے اور کام میں دلچسپی برقرار رہے گی۔ حقیقی کامیابی کیلئے انہماک تو لازم ہے ہی مگر اس سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ جو کام کرنا ہی ٹھہرا وہ کیا جائے، محض ناگوار سا یا ناپسندیدہ ہونے کی بنیاد پر نہ ٹالا جائے۔ کسی بھی شعبے میں کامیابی کیلئے ہمیں جو کچھ کرنا پڑتا ہے‘ وہ سب ہماری مرضی یا پسند کا نہیں ہوتا۔ چند ایک کام مزاج کے خلاف بھی ہوتے ہیں مگر وہ کام ہمیں کرنا ہی پڑتے ہیں۔ اہداف پر نظر رکھنا لازم ہے۔ چھوٹے چھوٹے اہداف ڈیڈ لائن کے مطابق حاصل ہوتے رہیں تو بڑی کامیابی کی طرف بڑھنا آسان ہو جاتا ہے۔ اہداف کو ماہانہ، ہفتہ وار اور یومیہ بنیاد پر تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ کارکردگی کا جائزہ بھی اِسی بنیاد پر لیا جانا چاہیے۔
معروف اطالوی معیشت دان ولفریڈ پریٹو نے 80/20 کا اصول دیا ہے۔ پریٹو کا کہنا ہے کہ زندگی کے کم و بیش ہر معاملے میں یہ اصول کارفرما رہتا ہے۔ دنیا بھر میں صرف 20 فیصد افراد 80 فیصد دولت کے حامل ہیں۔ کسی بھی تجارتی ادارے کی 80 فیصد آمدنی 20 فیصد کسٹمرز سے حاصل ہوتی ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ ہمیں اپنی سرگرمیوں کا جائزہ لے کر ایسی سرگرمیوں پر زیادہ توجہ دینا چاہیے جو ہمارے لیے زیادہ بارآور ثابت ہوں۔ کم اہم سرگرمیوں کو ترک کر دینا تو درست نہ ہوگا؛ تاہم انہیں ترجیحات کی فہرست میں نیچے رکھنا ضروری ہے۔ اہم کاموں کی تکمیل کے بعد وقت بچ رہے تو کم اہم کام بھی کیے جانا چاہئیں۔ نظم و ضبط ایک ہنر ہے جو سیکھنا پڑتا ہے۔ کچھ کام ایسے ہیں جن سے ہمیں رک جانا ہے۔ کچھ کام ایسے ہیں جنہیں کرنے کے بعد ہی سکون کا سانس لینا ہے۔ اس معاملے میں 'میٹھا میٹھا ہپ کڑوا کڑوا تھو‘ کا اصول کسی کام کا نہیں، بلکہ یہ مسائل پیدا کرتا ہے۔
برائن ٹریسی لکھتے ہیں کہ مسائل اُس وقت حل ہوتے ہیں جب اُن کے حل کے بارے میں سوچا جاتا ہے، لائحۂ عمل تیار کیا جاتا ہے۔ ایسا کیے بغیر کچھ حاصل نہیں ہو پاتا۔ جو کچھ کرنا ہے وہ ہر حال میں کرنا ہے۔ وقت کم ہے اور مقابلہ سخت۔ ایسے میں ترتیب اور منصوبہ سازی ہی سب کچھ ہے۔ یہی وہ کلیدی عنصر ہے جو حقیقی فرق پیدا کرتا ہے۔ حقیقی اور بڑی کامیابی کے لیے دور اندیشی لازم ہے۔ آپ کو آنے والے زمانے کے بارے میں سوچتے رہنا ہے۔ یہ سوچنا لازم ہے کہ جس شعبے سے آپ وابستہ ہیں‘ اُس میں آنے والا زمانہ کیا کیا لے کر آئے گا۔ کیا آپ ممکنہ تبدیلیوں کیلئے خود کو تیار کرنے کے معاملے میں سنجیدہ ہیں؟ فوری نتائج کی توقع فضول ہے۔ ہر کام منطقی انجام کو پہنچنے کے بعد نتائج پیدا کرنے میں بھی کچھ وقت لیتا ہے۔ یہ سب کچھ فطرت کے اصولوں کے مطابق ہے۔ آپ کا بیشتر وقت اُن کاموں پر صرف ہونا چاہیے جو من چاہے یا مطلوب نتائج دیتے ہوں۔ ہر کام آپ کی توقع کے مطابق نتائج نہیں دے سکتا۔ ساتھ ہی ساتھ یہ نکتہ بھی یاد رکھنے کا ہے کہ من چاہے نتائج دینے والا ہر کام آپ کی مرضی کا نہیں ہوتا۔
بھرپور کامیابی کیلئے مینڈک نگلنے کا مرحلہ مختلف شکلوں میں ہو سکتا ہے۔ آپ جس شعبے سے وابستہ ہیں‘ اُس میں آگے بڑھنے کے لیے آپ کو چند مہارتیں درکار ہوتی ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مطلوب مہارتوں کی تعداد بڑھتی جاتی ہے۔ نئی مہارتیں سیکھنا لازم ہے تاکہ آپ زیادہ سے زیادہ پسندیدہ اور قابلِ ترجیح کہلائیں۔ آجروں کی نظر میں وہی ملازمین زیادہ اہم ہوتے ہیں جو مختلف مہارتوں کے حامل ہونے کے ناتے زیادہ کام کے ہوتے ہیں۔ کامیابی مختلف مراحل سے گزرنے کا نام ہے۔ بعض باتیں ہمارے لیے زیادہ ناگوار بھی ہوتی ہیں۔ کامیابی کا حصول یقینی بنانے کیلئے ناگوار باتوں کو بھی برداشت کرنا پڑتا ہے۔ اپنے شعبے میں آگے بڑھنے کیلئے نئی مہارتوں کا سیکھنا، عمل پر زیادہ سے زیادہ مائل رہنا، نتائج کا انتظار کرنا‘ یہ سب کچھ مینڈک نگلنے جیسا ہے۔ زندگی ہر انسان کو اِسی طرح امتحان میں ڈالتی ہے۔ سب کچھ اپنی مرضی اور پسند کا نہیں ہوتا۔ یہ معاملہ صرف آپ کا نہیں‘ سبھی کا ہے۔ ہر انسان کو اپنے حصے کے مینڈک نگلنا پڑتے ہیں۔ بھرپور کامیابی کیلئے خود پر اچھا خاصا جبر بھی کرنا پڑتا ہے۔ یہ جبر ہی ہمیں حقیقی مسرّت سے ہم کنار کرتا ہے۔ جب ہم کامیابی کی راہ پر گامزن رہتے اپنے مزاج اور مرضی سے ٹکرانے والے معاملات کو برداشت کرتے ہیں‘ تب اندازہ ہوتا ہے کہ کامیابی کس چیز کا نام ہے۔ ایسے میں حاصل ہونے والی کامیابی ہی ہمارے لیے حقیقی تشفی کا ذریعہ ثابت ہوتی ہے۔ تو پھر تیار ہو جائیے اپنے حصے کی ناگوار باتوں کو برداشت کرنے کے لیے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں