کسی بھی کام کو کرنے کے کئی طریقے ہوسکتے ہیں۔ آپ چاہیں تو کسی بھی کام کو اُس کی تکمیل کے لیے مطلوب وقت سے کم وقت میں بھی کرسکتے ہیں۔ ہاں‘ نتیجے کی ذمہ داری آپ پر عائد ہوگی۔ کسی بھی چیز کو پکنے کے لیے جتنا وقت درکار ہے اُس سے خاصے کم وقت میں اُسے بہت تیز آنچ میں پکائیے تو لذت جاتی رہتی ہے اور اگر معمول کی آنچ پر پہلے اتار لیجیے تو ہانڈی کچی رہ جاتی ہے۔ زندگی کا ہر معاملہ ایسی ہی کیفیت کا حامل ہے۔ کسی بھی کام کو کرنے کا ایک منطقی دورانیہ ہوتا ہے۔ اگر زیادہ تیزی دکھائی جائے تو نتیجہ یعنی معیار متاثر ہوتا ہے۔
کم ہی لوگ اس حقیقت کو سمجھ پاتے ہیں کہ ہر کام اپنے منطقی دورانیے کی حدود میں مکمل کیا جانا چاہیے۔ کسی کام کو خواہ مخواہ گھسیٹتے رہیے تو اُس کا معیار متاثر ہوتا ہے اور کشش بھی جاتی رہتی ہے۔ تقدیم و تاخیر سے پیدا ہونے والے فرق کو سمجھنا لازم ہے۔ اپنے ماحول پر نظر دوڑائیے تو اندازہ ہوگا کہ جو لوگ کسی بھی کام کو بہت تیزی سے کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ منہ کے بل گرتے ہیں۔ تیزی دکھانے کی کوشش صرف اُنہیں نقصان سے دوچار نہیں کرتی بلکہ دوسروں کو بھی الجھنوں سے دوچار کرتی ہے۔ مہدی حسن سے کون واقف نہیں؟ نزم و نازک گائیکی میں ان کا کوئی ثانی پیدا نہیں ہوا۔ اور سچ تو یہ ہے کہ اب دور تک کوئی اُن سا پیدا یا تیار ہوتا بھی دکھائی نہیں دیتا۔ مہدی حسن نے چھوٹی عمر سے غیر معمولی تربیت پائی۔ گلے کی مٹھاس اللہ کی دین ہوتی ہے مگر اُسے بہتر بنانا اور فن کے اسرار و رموز سیکھ کر خود کو دنیا کے سامنے پیش کرنا انسان کا کام ہے۔ کم ہی لوگ گلوکاری کا حق ادا کر پاتے ہیں۔ مہدی حسن کو شہنشاہِ غزل یونہی نہیں کہا جاتا۔ وہ اس خطاب کے سو فیصد حقدار ہیں۔ ان کے سیکڑوں آئٹم آج بھی ان کے فن کی پختگی کا ثبوت بن کر ہمارے سامنے ہیں۔
گزشتہ دنوں یو ٹیوب پر سہیل رعناؔ کا ایک ویڈیو کلپ دیکھا جس میں انہوں نے پاکستان کی فلم انڈسٹری میں صفِ اول کے موسیقار کی حیثیت سے گزارے ہوئے زمانے کی یادیں تازہ کی ہیں۔ بات ہو رہی تھی فن سے خلوص‘ لگن اور ولولے کی۔ سہیل رعناؔ غیر معمولی صلاحیت کے حامل موسیقار تھے۔ ان کے فن پارے آج بھی کانوں میں رس گھولتے ہیں۔ ان کے مقبول ترین گانوں میں مجھے تم نظر سے گرا تو رہے ہو‘ اِک نئے موڑ پہ لے آئے ہیں حالات مجھے‘ یہ وفاؤں کا دیا آپ نے انعام مجھے‘ تمہیں کیسے بتادوں تم مِری منزل ہو‘ اُن کی نظروں سے محبت کا جو پیغام ملا‘ ہاں اِسی موڑ پر‘ اکیلے نہ جانا‘ بھولی ہوئی ہوں داستاں‘ دنیا والوں تمہاری دنیا میں‘ ہے بے قرار تمنا ذرا ٹھہر جاؤ‘ آخری بار مل رہے ہیں وغیرہ نمایاں ہیں۔ سہیل رعناؔ کہتے ہیں کہ وحید مراد نے پروڈیوسر کی حیثیت سے ''احسان‘‘ بنائی تو اس میں اس کا ایک گیت گوانے کے لیے مہدی حسن کو بلایا گیا۔ شہنشاہِ غزل آئے تو سہیل رعناؔ نے انہیں گانا یاد کرایا۔ وہ بتاتے ہیں ''مہدی حسن نے گانے کی دُھن تمام ممکنہ فنی باریکیوں کے ساتھ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے میں سمجھ لی اور یاد بھی کرلی۔ میں نے کہا چلیے خاں صاحب‘ گانا ریکارڈ کرلیتے ہیں۔ خاں صاحب نے یہ سُنا تو مسکراتے ہوئے کہا کہ ابھی کہاں‘ میں دو تین دن 'پکا تو لوں‘ اس گیت کو۔ اس کے بعدریکارڈنگ کریں گے۔‘‘ اُن کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ پہلے گیت میں اُتر جاؤں‘ اسے اپنے وجود میں اُتار لوں۔ اس کے بعد ہی دنیا کے سامنے پیش کریں گے۔
یہ تھا فن سے لگن کا عالم۔ ہر شخص اپنے حصے کا کام پوری دیانت کے ساتھ کرتا تھا۔ سہیل رعناؔ نے بتایا ''دو تین دن تک خوب مشق کرنے کے بعد جب مہدی حسن صاحب نے گانا ریکارڈ کرایا تو دنیا کو اُن کی طرف سے ایک اور شاہکار ملا۔‘‘ یہ تذکرہ ہے ''اک نئے موڑ پہ لے آئے ہیں حالات مجھے‘‘ کا۔ یہ گیت آج بھی روزِ اول کی طرح تر و تازہ ہے۔ ایک دور تھا کہ پاکستان میں ہر شعبہ پیش رفت کا حامل تھا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ سب کو اپنے کام سے عشق تھا۔ ہر شخص چاہتا تھا کہ کچھ کرکے دکھائے‘ لوگ سراہیں اور صلاحیتوں کا لوہا مانیں۔ کسی بھی کام کو آدھا کچا‘ آدھا پکا دنیا کے سامنے لانے سے بات نہیں بنتی۔ ایسی حالت میں کام کرنے والے کو کچھ لطف آتا ہے نہ اُنہیں کچھ راحت محسوس ہوتی ہے جن کے لیے کام کیا گیا ہو۔ کسی بھی شعبے میں جب سبھی لوگ اپنے حصے کا کام پوری دیانت‘ خلوص‘ لگن اور ولولے کے ساتھ کرتے ہیں تب دنیا کو کچھ ملتا ہے‘ پیش رفت ممکن ہو پاتی ہے۔ فی زمانہ عجلت پسندی مزاج کا حصہ ہوکر رہ گئی ہے۔ لوگ چاہتے ہیں کہ جو کچھ بھی کرنا ہے تیزی سے کرلیا جائے۔ کہا جاسکتا ہے کہ لوگ معیار پر مقدار کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بعض معاملات میں معیار دکھائی دیتا ہے نہ مقدار ہی نظر آتی ہے۔ سوچے سمجھے بغیر کام کرنے کی روش عام ہوتی جارہی ہے۔ لوگ اپنے حصے کا کام پوری دیانت‘ خلوص اور لگن سے کرنے میں خاطر خواہ دلچسپی نہیں لیتے۔ کام کو ڈھنگ سے مکمل کرنے کے بجائے محض ٹالنے کے سے انداز سے کرنے ہی کو سب کچھ سمجھ لیا گیا ہے۔ مال اور نام دونوں ہی کمانے ہیں مگر محنت نہیں کرنی۔ جب کام سے دلچسپی کا یہ عالم ہو تو کام کیا خاک ہوگا۔
پاکستان کے قیام کے ابتدائی زمانے میں لوگ ہر معاملے میں دیانت دار بھی تھے اور دلچسپی بھی لیتے تھے۔ عام آدمی بھی کم و بیش تمام معاملات میں معیار کی بلندی کا طالب ہوتا تھا۔ فلم وہی چلتی تھی جو واقعی اچھی ہوتی تھی‘ کتاب وہی پڑھی جاتی تھی جس میں کچھ ہوتا تھا‘ گانے وہی پسند کیے جاتے تھے جو سریلے ہوں۔ کھیلوں میں لوگوں کو لطف اسی وقت محسوس ہوتا تھا جب کھلاڑی واقعی اچھا کھیل پیش کر رہے ہوتے تھے۔ کوئی ایک بھی شعبہ ایسا نہ تھا جس میں لوگ محنت کرنے سے کتراتے ہوں‘ اپنا حق ادا کرنے سے گریز کرتے ہوں۔ رفتہ رفتہ مقدار نے معیار کی جگہ لے لی۔ اور اب سات عشروں کے بعد یہ حال ہے کہ اپنے کام کو مہدی حسن کی طرح پکانے پر آمادہ اور معیار کا خیال رکھنے والے خال خال ہیں۔ جو الٹا سیدھا آتا ہے وہ انہماک کے ساتھ کی گئی تیاری کے بغیر دنیا کے سامنے رکھنے کی روش عام ہے۔ آج ہر شعبہ بھیڑ چال کا شکار ہے۔ پاکستانی معاشرے کی مجموعی سوچ اور اجتماعی روش یہ ہے کہ کوئی بھی کام جیسے تیسے مکمل کرکے جان چھڑالی جائے۔ اپنے کام سے محبت کرنے اور محنت کے ذریعے صلاحیتوں کو احسن طریقے سے بروئے کار لانے والے برائے نام ہیں۔ ''کام چلاؤ‘‘ ذہنیت عام ہے۔ ایسے میں عمومی سطح پر زندگی کا معیار بلند ہو تو کیسے ہو؟ یہی سبب ہے کہ بیشتر شعبوں میں شاہکار اب بن نہیں پارہے۔
آج پھر وہی سوچ اپنانے کی ضرورت ہے کہ جب تک کسی بھی کام کی پوری تیاری نہ ہو پائے تب تک وہ کیا ہی نہ جائے۔ عمومی زندگی ہو یا فنونِ لطیفہ کا شعبہ‘ ہر معاملے میں غیر معمولی لگن اور ولولے ہی سے وہ نتائج پیدا ہوتے ہیں جو اپنی طرف تیزی سے متوجہ کرتے ہیں۔ دنیا بہت آگے جاچکی ہے۔ ہم اب تک بے عملی اور عدم توجہ کے چنگل میں ہیں۔ کام سے محبت کرنے والوں کی تعداد گھٹتی جارہی ہے۔ محنت سے جی چرانے والوں کا بول بالا ہے۔ یہی سبب ہے کہ پورا معاشرہ بند گلی میں کھڑا ہے۔ کسی بھی شعبے میں غیر معمولی کارکردگی کی راہ ہموار ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔
ناقص معیار کی بند گلی سے نکلنے کی ایک ہی صورت ہے ... یہ کہ زیادہ سے زیادہ محنت کی جائے‘ کام میں بھرپور دلچسپی لی جائے اور کچھ بھی کرتے وقت یہ سوچا جائے کہ لوگ کیا ریسپانس دیں گے۔ ہر شعبہ ہم سے پورا خلوص چاہتا ہے تاکہ کام کرنے کا لطف بھی آئے اور دنیا کو کچھ ملے بھی۔ مہدی حسن‘ استاد امانت علی خان‘ عبدالرحمن چغتائی‘ مشتاق احمد یوسفی اور دیگر اہلِ فن کی طرح اپنے فن کو پکانے والے آج بہت کم ہیں۔ غیر معیاری کام سے ہمیں پکانے والوں کی البتہ کوئی کمی نہیں!