"MIK" (space) message & send to 7575

کیوں مذاق کرتے ہیں صاحب!

مہنگائی اب عِفریت کی سی ہوگئی ہے، قابو میں آنے کا نام ہی نہیں لیتی۔ لے بھی کیسے؟ جن کا کام اِس عِفریت کو قابو میں رکھنا ہے وہ اِس سے گٹھ جوڑ کر بیٹھے ہیں! چند نمائشی اقدامات کی نورا کشتی ہوتی ہے اور پھر اِس عِفریت کو عوام کا تیا پانچا کرنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ معاملہ اِس حد تک بگڑ چکا ہے کہ اب کوئی تبدیلی کی بات کرتا ہے تو عوام کے ذہن کے پردے پر صرف مہنگائی ابھرتی ہے۔ وفاقی ادارۂ شماریات ہفتہ وار بنیاد پر مہنگائی کے حوالے سے جو اعداد و شمار جاری کرتا ہے اُنہیں محتاط ترین الفاظ میں بھی کامیڈی ہی قرار دیا جائے گا۔ یہ اعداد و شمار پڑھ کر ذہن کے پردے پر پی ٹی وی کی نشریات ابھرتی ہیں جن میں ''سب اچھا ہے‘‘ کا راگ آج بھی الاپا جاتا ہے۔ ہر زمینی حقیقت کو جھٹلانا اور یہ ثابت کرنا ہماری ریاستی مشینری کی عادت رہی ہے کہ کہیں کوئی خرابی ہے ہی نہیں۔ ہاں! چند معمولی سی مشکلات ہیں جن پر جلد قابو پالیا جائے گا۔ 
اہلِ وطن کو نوید سُنائی جا رہی ہے کہ گزشتہ ہفتے اشیائے خور و نوش میں سے فلاں کی قیمت میں دو روپے فی کلو کمی واقع ہوئی اور فلاں کی قیمت ایک روپیہ فی کلو بڑھ گئی۔ پڑھنے یا سننے والوں کو یہ اعداد و شمار ایک خیالی جنت کی سیر کراتے ہیں۔ ہماری آمدنی ہے کہ اپنی قدر کے اعتبار سے گھٹتی ہی جارہی ہے اور دوسری طرف شماریات کے ادارے یہ ثابت کرنے پر تُلے ہوئے ہیں کہ میڈیا خواہ مخواہ لوگوں کے دل دہلانے والی باتیں کر رہا ہے، کہیں کوئی ایسی خرابی نہیں جو زندگی کو الٹ‘ پلٹ کر رکھ دے۔ ریاستی مشینری خواہ کچھ کہے، عوام کا جو حال ہے اُسے دیکھتے ہوئے ہمیں محمد رفیع مرحوم کے ایک گانے کا مکھڑا یاد آئے بغیر نہیں رہتا ع 
غریبوں کی قسمت میں رونا ہی رونا
ادارے سبز باغ دکھانے سے باز نہیں آتے۔ اشیائے خور و نوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہوں تب بھی سرکاری ادارے یہ ثابت کرنے پر کمر بستہ رہتے ہیں کہ قیمتیں زمین پر کھیل کُود رہی ہیں! غیر سرکاری میڈیا بہت ستم ظریف ہے کہ تصویر کا دوسرا رخ دکھاکر عوام بلند فشارِ خون کے عارضے میں مبتلا رکھنے کا اہتمام کرتے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ مقامی سطح پر اشیائے خور و نوش اور اشیائے صرف کی قیمتوں کی جو فہرست جاری کی جاتی ہے وہ بھی خاصی مضحکہ خیز ہوتی ہے۔ اس فہرست کی تیاری میں بھی اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ عوام کو ہنسنے کا موقع ضرور ملے۔ جو لوگ سرکاری فہرست ہاتھ میں لے کر خریداری کرنے نکلتے ہیں وہ تاریک راہوں میں مارے جاتے ہیں۔ اور ایسا کیوں نہ ہو کہ ع 
اِس طرح تو ہوتا ہے اِس طرح کے کاموں میں 
یہ کوئی نئی بات نہیں جس پر حیرت کا اظہار کیا جائے۔ اور اب تو افسوس کا محل بھی نہیں رہا۔ عوام کے جسم سے خون نچوڑنے کا عمل اب ریاستی مشینری کے بنیادی وظائف کا حصہ بن چکا ہے۔ دنیا بھر میں ریاستی مشینری ملکی سرحدوں کو زیادہ سے زیادہ محفوظ رکھنے پر متوجہ رہتی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ عوام کو ڈھنگ سے جینے کے مواقع فراہم کرنے پر بھی تھوڑی بہت توجہ ضرور دی جاتی ہے۔ یورپ کی متعدد ریاستیں اب فلاحی ریاستیں کہلاتی ہیں کیونکہ انہوں نے غیر معمولی ٹیکس کے عوض عوام کو تمام بنیادی ضرورتوں کے حوالے سے ہر طرح کے تفکرات سے آزاد کردیا ہے۔ عوام کام کرتے ہیں، ٹیکس ادا کرتے ہیں اور ریاستی مشینری اُن کی ہر ضرورت پوری کرنے میں مصروف رہتی ہے۔ یہ غیر اعلانیہ عمرانی معاہدہ ہے۔ عوام تعاون کرتے ہیں اور ریاستی مشینری اُنہیں سہولتیں فراہم کرتی ہے۔ دونوں نے اپنے حصے کا کام سمجھ لیا ہے۔ دونوں میں گاڑھی چَھن رہی ہے اور گاڑی چل رہی ہے۔ 
ہم ابھی اِس منزل سے بہت دور ہیں۔ کچھ واضح بھی نہیں ہم کبھی اِس منزل تک پہنچ بھی سکیں گے یا نہیں۔ ابھی تک تو زندگی امتحان کی سی ہے۔ قدم قدم پر الجھنیں ہیں، رکاوٹیں ہیں۔ بہت کوشش کرنے پر بھی یہ منحوس چکر ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا یعنی عوام کوشش کرکے تھک چکے ہیں مگر ریاستی مشینری میں پائی جانے والی کرپشن کی جڑ کمزور نہیں پڑ رہی۔ ایسا ہو بھی کیسے سکتا ہے؟ اعلیٰ ترین سطح پر اس حوالے سے سنجیدگی دکھائی نہیں دے رہی۔ جن کے ہاتھ میں ریاست اور حکومت کی باگ ڈور ہو اُن کے درست ہونے سے بہت کچھ درست ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تو معاملہ یہ ہے کہ جو وسائل کی دیگ پر قابض ہیں بہت کھانے پر بھی اُن کا پیٹ بھرنے کا نام نہیں لے رہا! عوام منتظر ہیں کہ اُنہیں بھی کچھ بچا کھچا مل جائے۔ افسوس کہ اِتنی سی خواہش بھی پوری نہیں کی جارہی۔ مہنگائی کنٹرول کرنے کے نام پر حکومت جو اقدامات کرتی ہے وہ پہلے مرحلے ہی میں ناکامی سے دوچار ہو جاتے ہیں۔ اِس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ سنجیدگی ہے نہ دیانت و اخلاص۔ معاملات کو درست کرنے کے نام پر صرف نمائشی نوعیت کے اقدامات کیے جارہے ہیں۔ لیپا پوتی سے کام لیا جارہا ہو تو کوئی بھی معنی خیز تبدیلی کیونکر رونما ہو؟ مہنگائی ایسا معاملہ ہے جو کسی بھی زاویے سے قابو میں آنے کا نام نہیں لے رہا۔ ریاستی مشینری جو کچھ کرتی ہے وہ ذرا سی دیر میں ناقص غبارے کی طرح پُھس ہوکر رہ جاتا ہے۔ سوال نا اہلی سے کہیں بڑھ کر بدنیتی کا ہے۔ سرکاری مشینری کے پُرزوں کو ہم نا اہل کسی طور قرار نہیں دے سکتے۔ اِن میں اعلیٰ تعلیم و تربیت یافتہ افراد شامل ہیں۔ اِن پروفیشنلز کو یا تو کھل کر کام کرنے کا موقع نہیں دیا جاتا یا پھر یوں ہے کہ اِن سے محض پلان تیار کروالیے جاتے ہیں، اُن پر عمل کے معاملے میں ڈنڈی ماری جاتی ہے۔ سنجیدگی اور اخلاص کے فقدان ہی کا یہ نتیجہ برآمد ہوا ہے کہ اب کسی بھی شعبے میں معاملات درست نہیں اور اصلاح یا بہتری کی اُمید بھی نہیں۔عوام کی خواہشات کا دائرہ محدود ہے۔ وہ بنیادی سہولتیں چاہتے ہیں۔ اگر اِس سے آگے دیکھیے تو وہ چند ایک ایسے اقدامات چاہتے ہیں جن کی مدد سے جینا ذرا سہل ہوجائے‘ اور بس! ہماری انتظامی مشینری اِتنا بھی نہیں کر پارہی۔ اب یہ المیہ نہیں تو کیا ہے کہ ملک کی آبادی کے 80 فیصد سے زائد کے لیے ڈھنگ سے دو وقت کی روٹی کا اہتمام کرنا بھی ایک بڑے ''ٹاسک‘‘ میں تبدیل ہوکر رہ گیا ہے۔ عام آدمی اشیائے خور و نوش اور دیگر بنیادی ضرورتوں کا اہتمام کرنے سے فرصت پائے تو اپنے اور اپنی اولاد کے بہتر مستقبل کچھ سوچے اور کرے۔ انتظامی مشینری نے عام آدمی کو فکرِ معاش کی زنجیر سے ایسا باندھا ہے کہ ہلنے جُلنے کی بھی گنجائش نہیں رہی۔ زندگی ''گول دائرے‘‘ میں گھوم رہی ہے! امرِ واقعہ یہ ہے کہ جب بھی حکومت بہبودِ عامہ کے اقدامات کا اعلان کرتی ہے تو دل دہل سا جاتا ہے۔ عوام زبانِ بے زبانی سے کہتے ہیں ؎
عزیز اِتنا ہی رکھو کہ جی بہل جائے 
اب اِس قدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے! 
مہنگائی ختم کرنے کے نام پر جو اقدامات کیے جاتے ہیں اُنہیں دیکھ کر ہمیں ''دبنگ‘‘ فلم سے سناکشی سنہا کا ایک جملہ یاد آجاتا ہے ''تھپڑ سے ڈر نہیں لگتا صاحب! پیار سے لگتا ہے‘‘ حقیقت یہ ہے کہ حکومت جب بہبودِ عامہ کے لیے کچھ کرنا چاہتی ہے تو بات کہیں سے شروع ہوکر کہیں جاپہنچتی ہے۔ نیت کی کمزوری اور خامی ایسے ہی گُل کھلایا کرتی ہے۔ عوام منتظر ہیں کہ کسی طور اُن کی مشکلات دور ہوں، اِتنی آسانی تو ہو کہ سانسوں کا تسلسل برقرار رکھنا ''ماسٹر ٹاسک‘‘ یا ''مشن‘‘ بن کر نہ رہ جائے۔ زیادہ نہیں تو حکومت سے اِتنا التماس تو بنتا ہے کہ مہنگائی ختم کرنے کے نام پر ایسے اقدامات نہ کیے جائیں جن کے بطن سے صرف کامیڈی جنم لیتی ہو! یہ کامیڈی اپنے تسلسل کے باعث اب اچھی خاصی، مضبوط بنیاد والی ٹریجڈی میں تبدیل ہوچکی ہے۔ عوام کچھ زیادہ نہیں مانگتے‘ صرف اِتنا چاہتے ہیں کہ جسم و جاں کا رشتہ پورے وقار کے ساتھ برقرار رکھنا ممکن ہو۔ المیہ یہ ہے کہ روزمرہ ضرورت کی اشیا بھی عوام کی قوتِ خرید کو ہدفِ استہزا بنانے پر تُلی ہوئی ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں