"MIK" (space) message & send to 7575

ناکامی کے اسباق

ہم ایک ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جس میں ہر طرف ناکامی کی داستانیں بکھری ہوئی ہیں۔ کسی بھی شعبے میں کامیابی یقینی بنانا انتہائی دشوار ہوچکا ہے۔ اس کا بنیادی سبب صلاحیتوں کا فقدان ہے نہ لگن کی کمی۔ ناکامی کی طرف لے جانے والے رجحانات عام اور مقبول ہیں۔ ایسے میں ہر اُس انسان کے لیے مشکلات ہی مشکلات ہیں جو کامیابی یقینی بنانے کا خواہش مند ہو۔ کسی بھی شعبے میں حقیقی مسابقت اپنی جگہ، معاشرتی رویے بھی اِس قدر الجھے ہوئے ہیں کہ انسان بہت چاہنے اور کوشش کرنے پر بھی آسانی سے کچھ حاصل نہیں کر پاتا۔ قدم قدم پر حوصلہ شکن معاملات ہیں۔ کامیابی کے خواہش مند انسان کو کئی محاذوں پر لڑنا پڑتا ہے۔
گریگ میتھس ایک پیشہ ور مجرم تھا‘ 17 سال کی عمر تک وہ کئی بار جیل جاچکا تھا۔ اور پھر اُسی زمانے میں اُس کی والدہ کا انتقال ہوا۔ والدہ نے مرتے وقت اُس سے عہد لیا کہ وہ ایک اچھی، معیاری اور سب کے لیے مفید زندگی بسر کرے گا۔ گریگ نے ماں کو دیا ہوا عہد نبھانے کی راہ پر سفر شروع کیا۔ کالج میں داخلہ لے کر اُس نے قانون کی تعلیم پائی مگر وکیل کی حیثیت سے اُسے ماضی کے مجرمانہ ریکارڈ کے باعث قبول نہیں کیا گیا۔ اُس نے ہمت نہ ہاری اور بیوی کے ساتھ مل کر ایک ایجنسی کھولی جو غریب نوجوانوں کو روزگار فراہم کیا کرتی تھی۔ یہ کام چل نکلا۔ لوگوں کا بھلا بھی ہوا اور گریگ بھی بامقصد زندگی بسر کرنے لگا۔ ساکھ بہتر ہوئی تو گریگ نے قانون کی تعلیم کی بنیاد پر جج کے الیکشن میں حصہ لیا۔ بہت سوں نے مخالفت کی مگر گریگ کامیاب رہا۔ پھر اُسے ہالی ووڈ بھی بلایا گیا۔ وہاں اُس نے اپنا ٹی وی چینل کھولا جس میں لوگوں کے جھگڑے نمٹائے جاتے تھے۔
ایک ناکام انسان کو یہ بھرپور کامیابی کیسے مل پائی؟ سیدھی سی بات ہے! گریگ نے ماضی کو اپنے مستقبل کی راہ میں حائل نہیں ہونے دیا۔ جو لوگ ماضی میں پھنسے رہتے ہیں وہ ناکام ہی رہتے ہیں۔ ماضی کے بارے میں سوچ سوچ کر کڑھتے رہنے سے انسان اپنا وقت، صلاحیت اور توانائی ضائع کرتا رہتا ہے۔ آگے بڑھنے والے گزرے ہوئے زمانے کے بارے میں زیادہ نہیں سوچا کرتے۔ اگر گزرا ہوا زمانہ اچھا ہو تو انسان کو خوش مزاج رہنے میں مدد دیتا ہے۔ ایسی صورت میں بھی ماضی سے ایک خاص حد تک ہی استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ ناکامی کی طرف لے جانے والی ایک اور بڑی خرابی ہے شش و پنج میں مبتلا رہنا۔ بھرپور کامیابی کے لیے لوگ موقع کی تلاش میں رہتے ہیں مگر جب موقع آتا ہے تو اُس سے مستفید ہونے میں ناکام رہتے ہیں۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ وہ طے ہی نہیں کر پاتے کہ کرنا کیا ہے۔ محض علم کا حصول کافی نہیں، اُسے بروئے کار لانا ہی ہماری زندگی کا مقصد ہونا چاہیے۔ عمل ہی کے ذریعے کچھ حاصل ہو پاتا ہے۔ وقت کی مناسبت سے واضح فیصلہ کرنے میں ناکامی انسان کو بڑی ناکامی کی طرف لے جاتی ہے۔ کسی فیصلے تک پہنچنے میں دشواری مزاج کی ایک بڑی خامی ہے جو ہر حال میں دور کی جانی چاہیے۔
ناکام انسانوں کی زندگی سبق کا درجہ رکھتی ہے۔ وہ خود کسی کو کچھ نہیں سکھا سکتے مگر انہیں دیکھ کر بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے۔ اب اسی بات کو لیجیے کہ بیشتر ناکام انسان اس حال کو صرف اس لیے پہنچتے ہیں کہ انہوں اپنے لیے واضح اہداف مقرر نہیں کیے ہوتے۔ جب کوئی واضح ہدف یا اہداف متعین نہ کیے گئے ہوں تو کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ انسان بھرپور کامیابی کے لیے کیا کرے اور کس طور کرے۔ ہر بڑے اور کامیاب انسان کی زندگی میں ہمیں ہر سطح پر چند اہداف ملتے ہیں۔ ان اہداف کا حصول یقینی بنانے کی صورت ہی میں وہ بڑی کامیابی کی طرف بڑھ پاتا ہے۔کچھ پانے کے لیے کچھ کھونا بھی پڑتا ہے۔ کبھی کبھی کسی بڑے فائدے کو چھوڑ کر چھوٹے فائدے پر اکتفا کرنا پڑتا ہے اور بعض اوقات تو یہ بھی ہوتا ہے کہ بقا کا یقینی بنالیا جانا ہی دوسرے کسی بھی فائدے پر فوقیت رکھتا ہے۔ 
ایک بار ایک بندر کو کسی گڑھے میں کھانے کی کوئی چیز دکھائی دی۔ اس نے ہاتھ ڈال کر مٹھی بھرلی مگر جب مٹھی نکالنے کی کوشش کی تو ناکام رہا۔ یہ گڑھا دراصل پھندا تھا جو شکاری نے لگایا تھا۔ بندر نے مٹھی کھولی تو کھانے کی چیز گرگئی۔ اُس نے خالی ہاتھ باہر نکالنے سے گریز کرتے ہوئے پھر مٹھی بھرلی مگر پھر وہی سوال اٹھ کھڑا ہوا کہ بھری ہوئی مٹھی باہر کیسے نکالی جائے۔ ابھی وہ اِسی اُدھیڑ بُن میں تھا کہ شکاری آپہنچا اور اُسے باندھ کر لے گیا۔ ہمارا بھی تو یہی معاملہ ہے۔ جہاں کچھ قربان کرنا ہو وہاں ہم ایسا کرنے سے گریز کرتے ہوئے اپنے لیے مشکلات پیدا کرتے ہیں۔
ناکامی کی طرف لے جانے والی ایک بڑی ذہنی پیچیدگی ہے اپنے نقطۂ نظر کو ہر حال میں مقدم رکھنا۔ ہر انسان چاہتا ہے کہ اُس کا نقطۂ نظر سمجھا جائے، اُسے احترام کے ساتھ قبول کیا جائے۔ ہم اور آپ سب یہی تو چاہتے ہیں۔ ڈیل کارنیگی نے زندگی بھر اپنے قلم اور زبان سے دوسروں کا بھلا کرنے کی کوشش کی۔ وہ چاہتے تھے کہ دنیا کا ہر انسان اپنا اور دوسروں کو بھلا کرنے کے بارے میں سوچے اور اس حوالے سے عمل کی راہ پر گامزن ہو۔ اُن کی کتاب ''ہاؤ ٹو وِن فرینڈز اینڈ انفلوئنس پیپل‘‘ کا دنیا کی تمام بڑی زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ اُردو میں بھی اِس کے کئی تراجم شائع ہوئے ہیں۔ ڈیل کارنیگی نے کہا تھا ''میری اِس کتاب سے اورکچھ نہ سہی‘ اپنے آپ کو دوسروں کی جگہ رکھ کر سوچنا سیکھ لینا بھی بہت ہے‘‘۔ اگر ہم دوسروں کا نقطۂ نظر اچھی طرح سمجھ کر اُس سے مطابقت رکھنے والی طرزِ عمل اختیار کریں تو بہت سے بلا جواز مسائل بھی آسانی سے حل ہوجائیں۔ یہ حقیقت عمومی سطح پر نظر انداز کردی جاتی ہے کہ ہر انسان پر سب سے زیادہ حق اُس کی اپنی ذات کا ہے۔ اگر کوئی اپنے وجود کو اہمیت نہ دے، اُسے زیادہ بارآور بنانے پر متوجہ نہ ہو تو دوسروں کے لیے بھی زیادہ بارآور ثابت نہیں ہوسکتا۔ زندگی کا معیار بلند کرنے کے لیے لازم ہے کہ انسان اپنے وجود کو نظر انداز کرنے سے گریز کرے۔ آج کے انسان کا ایک بنیادی مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنے لیے تنہائی کے چند لمحات مختص کرنے سے بھی گریزاں رہتا ہے۔ جب تک ہم خود کو میسر نہ ہوں تب تک اپنے بارے میں زیادہ مفید انداز سے نہیں سوچ سکتے۔ آج کا انسان ہر وقت فضول معاملات میں گھرا رہتا ہے۔ لوگ سمارٹ فون سے ایک پل کے لیے بھی دور رہنا پسند نہیں کرتے۔ سوشل میڈیا سے ''مستفیض‘‘ ہونے کی لَت ایسی پڑی ہے کہ زندگی ہی داؤ پر لگ گئی ہے۔
ویسے تو خیر کسی بھی دور کا انسان اپنے آپ کو نظر انداز کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا مگر آج کے انسان کے لیے یہ معاملہ ناگزیر ہوچلا ہے۔ اب اگر کسی کو آگے بڑھنا ہے تو اپنے وجود کا پورا خیال رکھنا ہوگا۔ اپنی ہی ذات غیر مستحکم رہ جائے تو کون سی کامیابی اور کیسی کامیابی؟ہاں! دنیا کا ہر کامیاب انسان آپ کو صحت کے حوالے سے بھی قابلِ رشک معیار کا حامل ملے گا۔ باقاعدگی سے ورزش کرنا، کھانے پینے کا خیال رکھنا بھرپور کامیابی کے لیے ناگزیر ہے۔ کسی بھی شعبے میں کامیابی صلاحیت کے ساتھ سکت بھی مانگتی ہے۔ سکت یعنی توانائی! اگر انسان توانا نہ ہو تو کبھی کبھی بہتر مواقع سے مستفید بھی نہیں ہو پاتا۔ کھانے پینے کے معاملات میں احتیاط نہ برتنے والے جسم میں خرابیاں پیدا کر بیٹھتے ہیں اور پھر اُن کے لیے اہداف کا حصول قدرے دشوار ہو جاتا ہے۔ کھانے پینے کے معاملات میں توازن اور باقاعدگی سے ورزش کسی بھی انسان کو بہتر زندگی اور بڑی کامیابی کے لیے تیار کرنے والے عوامل ہیں۔ باقاعدگی سے کی جانے والی ورزش جسم کے ساتھ ساتھ دماغ کو بھی توانائی بخشتی ہے۔ جسم کا متوازن رہنا دماغ کے لیے غیر معمولی تازگی کا ذریعہ بنتا ہے۔ ایسے میں بہتر سوچنا آسان ہو جاتا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انسان منفی رجحانات سے خود کو بچانے میں کامیاب رہتا ہے۔ کامیابی کا حصول مشکل ضرور ہے‘ ناممکن نہیں۔ ہاں! تیاری بڑے پیمانے پر کرنا پڑتی ہے۔ کامیاب انسانوں کے ساتھ ساتھ ناکام انسانوں سے بھی بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں