اس عہد کا ایک حقیقی بڑا المیہ یہ ہے کہ کتب پیچھے رہ گئی ہیں۔ کتب بینی کا رجحان روز بروز کمزور تر ہوتا جارہا ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے کی بے مثال پیشرفت نے عام آدمی کو کتاب سے دور کردیا ہے۔ کتاب سے دوستی انسان کی سرشت کا حصہ تھی مگر یہ کم و بیش پچیس سال پہلے تک کی بات ہے۔ پرنٹنگ پریس کی ایجاد سے انٹرنیٹ کے عام ہونے تک‘ انسان کتب بینی کا عادی رہا۔ ریڈیو اور ٹی وی کی ایجاد کے بعد فلم کی آمد نے بھی انسان کو کتاب سے دور نہیں کیا تھا۔
اس وقت دنیا بھر میں کم و بیش سات ارب موبائل فون استعمال کیے جارہے ہیں۔ سوشل میڈیا پورٹلز سمیت ہر ماہ مجموعی طور پر 168 ارب پیغامات کی ترسیل ہو رہی ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں پیغامات کی ترسیل ہوگی تو انسان کتب بینی کی طرف کیسے آئے گا؟ سوشل میڈیا نے عام آدمی کے لیے باقی دنیا سے جڑنا آسان کردیا ہے۔ ایک دور تھا کہ انسان کتب اور اخبارات کے ذریعے باقی دنیا سے ڈھنگ کا تعلق استوار رکھنے میں کامیاب ہو پاتا تھا۔ آج کا انسان سمارٹ فون کی معرفت سوشل میڈیا سے مستفیض ہوکر اس خوش فہمی کی نذر ہو رہتا ہے کہ اُس نے بہت کچھ جان لیا ہے۔ انٹرنیٹ کی بدولت انسان رابطے میں رہتا ہے مگر مصیبت یہ ہے کہ بہت سا اَن چاہا اور فضول مواد بھی زندگی کا حصہ بن رہا ہے۔ ہم بہت کچھ دیکھنے، سُننے یا پڑھنے کے شوقین ہیں نہ ضرورت مند مگر پھر بھی یہ سب کچھ سمارٹ فون کے ذریعے ہم تک پہنچ رہا ہے اور ہم اِس معاملے میں بہت حد تک بے بس ہیں۔
دنیا بھر میں کتب بینی اس وقت پست ترین سطح پر ہے۔ پس ماندہ اور ترقی پذیر ممالک کے مقابلے میں ترقی یافتہ معاشروں میں کتب بینی اب بھی قابلِ رشک رجحان ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ کتب بینی کے شوقین وہاں افسوس ناک حد تک گھٹ گئے ہیں۔ امریکا میں چند برس پہلے تک جتنے لوگ مطالعے کے شوقین تھے اب اُن میں 80 فیصد کی کمی واقع ہوچکی ہے۔ وہ زمانہ کہیں پیچھے رہ گیا ہے جب ترقی یافتہ معاشروں کے لوگ بسوں اور ٹرینوں میں سفر کے دوران کتاب پڑھا کرتے تھے۔ مغربی معاشروں میں یومیہ سفر کے دوران گفتگو کا رجحان پہلے بھی نہیں تھا اور اب بھی نہیں ہے مگر ہاں! کتاب کی جگہ سمارٹ فون نے لی ہے۔ لوگ کتاب بھی موبائل فون پر دیکھنے یا سننے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایسی ڈیوائسز بھی عام ہیں جو کتاب کو ڈیجیٹل شکل میں پڑھنے کی سہولت فراہم کرتی ہیں مگر لوگ آڈیو بکس (سمعی کتب) کو ترجیح دے رہے ہیں۔
کتاب سے انسان کی دوستی کمزور کیوں پڑچکی ہے؟ اس سوال نے ترقی یافتہ معاشروں میں بھی سوچنے والوں کو پریشان کیا ہے۔ یہ تو بالکل سامنے کی بات ہے کہ سمارٹ فون کے آنے اور سوشل میڈیا کے مقبول ہونے سے بہت سا ایسا مواد ہماری زندگی کا حصہ بن چکا ہے جو قدم قدم پر ہمارے انہماک کو شدید متاثر کرتا ہے۔ لوگوں کو ٹکڑوں کی شکل میں پڑھنے کی عادت پڑچکی ہے۔ کتب کے خلاصے بھی بڑے پیمانے پر دستیاب ہیں۔ ایسے میں پوری کتاب پڑھنے کے شوقین گھٹتے جارہے ہیں۔
طرزِ زندگی نے بھی کتاب کو ہماری زندگی سے نکال باہر کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ آج ہر انسان مصروف دکھائی دیتا ہے۔ جی ہاں! دکھائی دیتا ہے‘ ہوتا نہیں۔ جن کے پاس وقت کے سوا کچھ نہیں ہوتا اُن کے پاس بھی وقت نہیں ہوتا! لوگ لایعنی سرگرمیوں میں پھنس گئے ہیں۔ جن باتوں کا زندگی کے کسی بھی بنیادی یا اہم معاملے سے کوئی تعلق نہ ہو اُن میں بھی غیر معمولی دلچسپی لینے کو ترجیح دی جارہی ہے۔ سوشل میڈیا کے عام ہونے سے لوگ کسی بھی پوسٹ کو پڑھتے وقت یہ نہیں دیکھتے کہ اُسے پڑھنے سے کچھ ملے گا یا نہیں۔ ہم ایسی پوسٹس بھی پڑھتے ہیں جن کا ہم سے کسی بھی درجے میں کوئی تعلق نہ بنتا ہو۔ بہت سے لوگ ایسا محض اس لیے کرتے ہیں کہ دوسرے بھی تو ایسا ہی کر رہے ہیں۔ بات اِتنی سی ہے کہ فون کے ذریعے پہنچنے والی ہر بات جاننے میں دلچسپی لی جارہی ہے۔ اس کے نتیجے میں کام کی باتوں پر توجہ دینے کا وقت رہا ہی نہیں۔ سوال وقت کی کمی سے زیادہ عدمِ ارتکاز کا ہے یعنی انسان ''فوکس‘‘ نہیں کر پارہا۔ دھیان بھٹکانے والی چیزیں ماحول میں بہت ہوں تو ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔
کتب بینی کا رجحان کمزور پڑنے کا ایک بنیادی سبب یہ ہے کہ لوگ آدھی کچی آدھی پکی معلومات پر گزارہ کرنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ اخباری اور آن لائن مضامین کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ کتاب کسی بھی موضوع کو خاصے ٹھوس انداز سے اور قدرے جامعیت کے ساتھ پیش کرتی ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ کتاب کی تیاری پر خاصی محنت کی جاتی ہے۔ مختلف ذرائع سے مستند معلومات حاصل کرکے اُن کے بارے متعلقہ شعبے کے ماہرین سے رائے بھی لی جاتی ہے۔ چھان پھٹک کے مختلف مراحل سے گزرنے والی معلومات جب خاصی پختہ ہو جاتی ہیں تب کتاب لکھنے کا عمل شروع کیا جاتا ہے۔ جب اتنی محنت سے کچھ لکھا جائے گا تو اُس میں کچھ تو پایا جائے گا۔ یہی سبب ہے کہ آج ہمیں سوشل میڈیا کے مواد کے مقابلے میں کتاب کا مواد بہت اعلیٰ معیار کا دکھائی دیتا ہے۔ پھر بھی معیاری مواد یا متن سے استفادہ نہ کرنا محض تن آسانی ہے‘ اور کچھ نہیں۔ سوشل میڈیا پر بالعموم اُتھلے پانی جیسا مواد پایا جاتا ہے۔ ہم پوسٹس کی دلدل میں دھنستے جارہے ہیں۔ وڈیوز بھی ہم تین چار منٹ کی چاہتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے پیغامات مقبول ہوتے جاتے ہیں، خواہ اُن میں مواد یکسر غیر معیاری ہو۔
جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اب کتب بینی کی کچھ خاص ضرورت نہیں رہی اُنہیں یہ نکتہ ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ آج بھی کامیاب ترین افراد وہ ہیں جو دیگر بہت سے امور کے ساتھ ساتھ اِس بات کا بھی خیال رکھتے ہیں کہ مطالعے کی عادت کمزور نہ پڑے۔ بل گیٹس اور وارن بفٹ جیسے ارب پتی بھی اب تک مطالعے کی عادت کو زندگی کا حصہ بنائے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں مجموعی طور پر مطالعے کا اور خصوصی طور پر کتب کے مطالعے کا رجحان انتہائی کمزور ہوچلا ہے۔ حد یہ ہے کہ آپ کو ایسے بہت سے ٹیچر دکھائی دیں گے جو کتب بینی کے شوقین نہیں! بچوں میں کتب بینی کا شوق پیدا کرنا اصلاً اساتذہ ہی کا کام ہے۔ اگر اساتذہ ہی کتب بینی پر مائل نہ ہوں تو بچوں کو کس طور کتب کا دلدادہ بناسکیں گے؟
کچھ لوگوں کے نزدیک اخبارات میں شائع ہونے والے مضامین پڑھنا کتب بینی کا متبادل ہے۔ یہ سوچ بے بنیاد ہے! اخباری مضامین بالعموم عمومی تحقیق اور بسا اوقات جذباتیت سے مغلوب ہوکر لکھے جاتے ہیں۔ خاصی تیاری کے ساتھ لکھے جانے والے مضامین کا مطالعہ بھی کتب بینی کا متبادل نہیں ہوسکتا۔ کتب بینی کو پروان چڑھانے میں معیاری کتب زیادہ اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ سطحی نوعیت کی کتب کا پڑھنا وقت کا ضیاع ہے۔ کتب بینی کی طرف آنے والوں کو کتب کے انتخاب کے معاملے میں ''جانکاروں‘‘ سے مشورہ ضرور کرنا چاہیے۔ جو لوگ زندگی بھر کتب سے محبت کا اظہار کرتے آئے ہوں اور آج بھی کتب بینی کو حرزِ جاں بنائے ہوئے ہوں‘ وہ بتاسکتے ہیں کہ کون سی کتب بہت معیاری ہیں اور یہ کہ اُن کے پڑھنے سے ہمیں کیا کیا مل سکتا ہے۔ جن کی زندگی کتابوں کے درمیان گزری ہو وہ ہمیں چند منٹ کی گفتگو میں معیاری کتب کے بارے میں بہت کچھ بتاسکتے ہیں۔ اپنے فطری میلان سے مطابقت رکھنے والی کتب کے انتخاب میں کتب بینی سے شدید لگاؤ رکھنے والوں کا مشورہ بے حد کارآمد ثابت ہوتا ہے۔ زندگی کو اعلیٰ معیار کا حامل بنانے میں جو چند رجحانات اہم ترین کردار ادا کرتے ہیں ان میں کتب بینی بھی شامل ہے۔ بچوں کو بہت کچھ سکھایا جاسکتا ہے مگر جو بات اُن میں کتاب سے دوستی کی صورت میں پیدا ہوگی وہ کچھ اور ہی ہوگی۔ بچوں کو کتاب دوست بنائیے، وہ خاصی آسانی سے بہت کچھ بن جائیں گے۔ اس طور کتاب بھی آگے آسکے گی۔