"MIK" (space) message & send to 7575

لوگ بھی تو اپنے حصے کا کام کریں

کورونا وائرس کی روک تھام کیلئے نافذ کیے گئے لاک ڈاؤن نے معاشی و معاشرتی پیچیدگیاں پیدا کی ہیں۔ ایک بڑی پیچیدگی بے روزگاری ہے۔ لاک ڈاؤن کے باعث بہت سے صنعتی یونٹ‘ تجارتی ادارے‘ بازار وغیرہ بند ہوئے تو لوگ بڑی تعداد میں بے روزگار ہوئے۔ بے روزگاری کے بطن سے غربت پیدا ہوتی ہی ہے۔ ہاں‘ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ جب پورے ملک میں معاشی سرگرمیاں تھمی تھمی سی ہیں تو مہنگائی کس کھاتے میں ہے۔ کسی بھی بحرانی کیفیت میں مہنگائی کا جواز کیا ہے؟ کیا مہنگائی کے ذمہ دار عناصر یا حلقے اس ملک کے شہری نہیں؟ کیا اُنہیں ملک و قوم سے محبت نہیں‘ اُن کا مفاد عزیز نہیں؟ لگتا تو کچھ ایسا ہی ہے۔ 
کسی بیرونی طاقت کے حملے کی صورت میں بھی ملک کا معاشی نظام بگڑ جاتا ہے۔ سپلائی لائن کٹ جانے کی صورت میں کئی علاقوں میں اشیائے خور و نوش اور دیگر ضروری اشیا کی قلت پیدا ہو جاتی ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ ایسے میں بھی بہت سے لوگ تجارتی مال کے دام بڑھاکر اپنی تجوری بھرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ بھی وطن اور اہلِ وطن سے دشمنی ہی کی ایک شکل ہے۔ کھلے بازار کی معیشت کا اصول اپنانے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ جن کے ہاتھوں میں تجارتی نظام ہے اُنہیں من مانی کی کھلی چُھوٹ دے دی جائے۔ جب پورا ملک حالات کی شدت کو جھیل رہا ہو تو تاجر طبقہ کیوں محفوظ رہے؟ ایک ریاست کی حدود میں رہنے والوں کے لیے سُکھ اور دکھ سانجھے ہونے چاہئیں۔ 
خیر‘ بات ہو رہی ہے لاک ڈاؤن کے ہاتھوں پیدا ہونے والے مسائل کی۔ ان مسائل کے بطن سے وہی کچھ ہویدا ہوا ہے جو ایسے مواقع پر پاکستان جیسے معاشروں میں ہویدا ہوتا آیا ہے۔ کچھ لوگ ہیں جنہیں تجوریاں بھرنے کا موقع مل گیا ہے۔ مارچ سے اب تک یہی کیفیت رہی ہے۔ بہت سے صنعتی اداروں کو بندش اور غیر معمولی خسارے سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ سینکڑوں صنعتی اداروں نے ملازمین کو گھر بٹھاکر بھی تنخواہیں دیں۔ صنعت کاروں کو نقصان اٹھانا پڑا مگر تاجر طبقہ نقصان برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں۔ بازاروں کی بندش کے نتیجے میں جو کچھ بھگتنا پڑا اُس کے ازالے کے لیے دام بڑھادیئے گئے۔ عام آدمی کے لیے سبھی کچھ مہنگا کردیا گیا۔ کورونا وائرس کی پہلی لہر کے دوران نافذ کیے گئے لاک ڈاؤن سے صنعتی عمل کو جو نقصان پہنچا سو پہنچا‘ قیامتِ صغرٰی تو اشیائے خور و نوش کے نرخوں میں اضافے نے برپا کی۔ رہی سہی کسر چکن‘ مٹن اور بیف کے بلند نرخوں نے پوری کردی۔ ڈیڑھ ماہ پہلے تک آلو‘ پیاز‘ ٹماٹر‘ مٹر اور دیگر سبزیوں کے نرخ اتنے زیادہ رہے کہ عام آدمی کیلئے دو وقت کی روٹی کا اہتمام کرنا بھی چیلنج میں تبدیل ہوگیا۔ سبزی اور پھل کے دام اس لیے زیادہ تھے کہ آڑھتی اجارہ داری قائم کرکے بازار کو اپنی مرضی کی سمت موڑ دیتے تھے مگر حیرت کیسی کہ ہر بحرانی کیفیت میں ایسا ہی ہوا ہے۔ اب کے انڈوں کے نرخ بھی بہت زیادہ رہے ہیں۔ آج کل انڈے 200 تا 210 روپے فی درجن کے نرخ پر فروخت ہو رہے ہیں‘ ناشتے میں آملیٹ کی گنجائش بھی نہیں چھوڑی گئی۔ 
فصلیں تیار ہوئی ہیں تو اب سبزیوں کے دام نیچے آرہے ہیں۔ 80 تا 100 روپے فی کلو کے نرخ پر فروخت ہونے والے آلو اور پیاز کے نرخ اب 40 روپے فی کلو تک آگئے ہیں۔ ڈیڑھ ماہ قبل مٹر کے دام 300 روپے فی کلو سے بھی زیادہ ہوگئے تھے۔ گوار پھلی‘ شلجم‘ کریلا‘ گوبھی اور ٹنڈے سمیت کوئی بھی آئٹم 100 روپے فی کلو سے کم نرخ پر دستیاب نہ تھا۔ کھیرا بھی اسی نرخ پر فروخت ہو رہا تھا۔ اب بعض آئٹمز کے نرخوں میں 60 فیصد تک کمی واقع ہوچکی ہے۔ ادرک سمیت چند اشیا اب بھی مہنگی ہیں۔ کچھ دن قبل ادرک کے نرخ 800 روپے فی کلو تک جا پہنچے تھے۔ پندرہ بیس دن پہلے ہرے دھنیے اور پودینے کی گڈی بیس روپے میں مل رہی تھی۔ اب یہ دونوں آئٹم دس روپے میں چار گڈی کے نرخ پر فروخت ہو رہے ہیں! 
سبزی اور پھل کے آڑھتی قلت کے زمانے میں من مانی کرتے ہیں۔ تب وہ من چاہے نرخوں پر مال آگے بڑھاتے ہیں۔ فصل آجانے پر جب رسد بڑھتی ہے تو نرخوں پر آڑھتیوں کا زیادہ بس نہیں چلتا۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے اس معاملے سے ہاتھ اٹھالیا ہے۔ اب پورا معاملہ مافیاز کے ہاتھوں میں دکھائی دے رہا ہے۔ وزیر اعظم کو شکر اور آٹے کے معاملے میں مافیاز ہی سے تو لڑنا پڑا ہے اور سچ تو یہ ہے کہ وہ عوام کو کچھ دینے میں کامیاب نہیں رہے۔ اس میں وزیر اعظم کا کوئی قصور نہیں۔ جب پورا ملک ہی مافیاز کے ہاتھوں میں کھلونے کا درجہ رکھتا ہو تو کوئی کر بھی کیاسکتا ہے؟ بہت کچھ ہے جس کا مدار عوام پر ہے۔ عوام بہت سے معاملات میں بے اختیار ہیں مگر چند ایک امور میں وہ اپنی بات ضرور منوا سکتے ہیں۔ کسی بھی ملک میں حقیقی اور بارآور تبدیلی صرف عوام کے ذریعے واقع ہوتی ہے۔ تاریخ میں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ لوگ بدلے تو معاشروں کی نوعیت بدل گئی۔ یہ سب‘ ظاہر ہے کہ‘ راتوں رات تو رونما ہوتا نہیں۔ ایک زمانہ لگتا ہے۔ اہلِ پاکستان بھی اگر پورے معاشرے کو بدلنے کا سوچیں تو کچھ ہوسکتا ہے۔ ہاں‘ کچھ وقت لگے گا۔ ہم نے 73 سال مجموعی طور پر ضائع ہی کیے ہیں۔ آج اگر ملک مافیاز کے ہاتھوں میں ہے تو اس کے لیے بہت حد تک عوام بھی ذمہ دار ہیں۔حکومتی و ریاستی مشینری چاہے کتنی ہی بگڑ جائے‘ اگر عوام طے کرلیں کہ معاملات کو درست کرنے کی طرف لے جانا ہے تو اُنہیں ایسا کرنے سے کوئی زیادہ دیر تک روک نہیں سکتا۔ 
پاکستان اس وقت خالص صارف نوعیت کا معاشرہ بن چکا ہے تو اس کا نمایاں ترین سبب یہ ہے کہ عوام نے ایسا چاہا ہے۔ ایک زمانے سے اہلِ پاکستان معاملات کو ''جیسے ہیں‘ جہاں ہیں‘‘ کی بنیاد پر برداشت کرتے آئے ہیں۔ جہاں مزاحمت لازم ہے وہاں بھی نہیں کی جاتی۔ جب پانی سر سے گزر جاتا ہے تب ہوش آتا ہے اور نیم دلانہ انداز سے معاملات کو درست کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس نوعیت کی طرزِ فکر و عمل سے کوئی بڑی تبدیلی کبھی ممکن ہو پائی ہے نہ ہوگی۔ ایک زمانے سے پاکستانی قوم کا ہر معاملے میں عجیب مزاج ہے۔ ''دیکھا دیکھی‘‘ عام ہے۔ کہیں کسی چیز کی دکان کامیاب ہوجائے تو دیکھتے ہی دیکھتے ہی اُسی چیز کی دکانیں کھلنے لگتی ہیں اور یوں سب کا منافع مارا جاتا ہے۔ کسی شعبے میں کچھ بہتری دکھائی دے تو اُس شعبے کا رخ کرنے والوں کی تعداد راتوں رات ایسی بڑھتی ہے کہ تھوڑی بہت پیش رفت کی گنجائش بھی دفعتاً دم توڑ دیتی ہے۔ 
معاشرہ اصلاً صارف ہوچکا ہے یعنی زیادہ سے زیادہ صَرف یقینی بنانے ہی کو زندگی سمجھ لیا گیا ہے۔ لوگ چاہتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ صَرف کے ذریعے زندگی کو سجائیں‘ سنواریں۔ وسائل ہوں تو یہ سب کچھ بہت اچھا ہے مگر مشکل یہ ہے کہ جن کے پاس وسائل کی کمی ہے وہ بھی ایسا ہی کرنا چاہتے ہیں اور کرتے ہیں۔ اور اس کا نتیجہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ سوچے سمجھے بغیر خرچ کرنے کے رجحان نے ہر شعبے میں مافیا کو جنم دیا ہے۔ جس چیز کی قلت ہو لوگ اُس کی طرف زیادہ لپک کر اُس کے دام بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر موسم کی مناسبت سے اچھی فصل ہونے پر کوئی چیز مارکیٹ میں زیادہ آجائے تو لوگ اُس سے مستفید ہونے کو گناہ سمجھتے ہیں! ٹماٹر ڈیڑھ سو روپے کلو کے نرخ پر فروخت ہو رہا ہو تو لوگ ڈھونڈتے پھرتے ہیں اور اگر کچھ دن بعد فصل اچھی ہونے پر ٹماٹر پندرہ بیس روپے کلو کے نرخ پر بکنے لگے تو لوگ دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے! ایسی طرزِ عمل کے ساتھ کوئی قوم کہاں تک جاسکتی ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں