"MIK" (space) message & send to 7575

ٹوکری اور انڈے

وقت جب پلٹتا ہے تو بہت کچھ الٹ‘ پلٹ دیتا ہے۔ وقت کے ہاتھوں واقع ہونے والی اکھاڑ پچھاڑ کے بارے میں بہت کچھ سوچا اور کہا گیا ہے۔ ہر دور کے اہلِ علم نے وقت کو کسی طور نظر انداز نہ کرنے کی تلقین کی ہے۔ شعرا نے وقت کے موضوع پر طبع آزمائی میں کبھی بخل سے کام نہیں لیا۔ کسی نے وقت کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے کہا ؎ 
سدا عیش دوراں دکھاتا نہیں
گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں
اس کے جواب میں کسی نے ہمت بندھاتے ہوئے ارشاد کیا ؎
ہار دینا نہ ہمت کہیں
ایک سا وقت رہتا نہیں
ساحرؔ لدھیانوی نے 1960 کی دہائی کی معرکہ آرا فلم ''وقت‘‘ کا تھیم سانگ لکھا تو یوں سمجھیے کہ وقت کے موضوع پر قلم توڑ دیا ؎ 
وقت سے دن اور رات‘ وقت سے کل اور آج؍ وقت کی ہر شے غلام‘ وقت کا ہر شے پہ راج؍ وقت کی پابند ہیں آتی جاتی رونقیں؍ وقت کی گردش میں ہیں کیا حکومت‘ کیا سماج؍ وقت کی گردش سے ہے چاند تاروں کا نظام؍ وقت ہے پھولوں کی سیج‘ وقت ہے کانٹوں کا تاج؍ آدمی کو چاہیے وقت سے ڈر کر رہے؍ کون جانے کس گھڑی وقت کا بدلے مزاج
وقت کا تو کام ہی الٹنا اور پلٹ جانا ہے۔ وقت نے ایک بار پھر یسا پلٹا کھایا ہے کہ بہت کچھ الٹ‘ پلٹ کر رہ گیا ہے۔ جنوری 2020ء سے فضا تیار ہونے لگی تھی۔ فروری میں معاملہ شدت اختیار کرگیا اور پھر 23 مارچ سے لاک ڈاؤن نافذ کردیا گیا۔بڑی طاقتیں ہر سو ڈیڑھ سو سال کی مدت میں دنیا کو اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھالنے کے مشن پر نکلتی ہیں۔ مقصود صرف یہ ہوتا ہے کہ اپنے مفادات کا زیادہ سے زیادہ تحفظ یقینی بنایا جائے۔ یہ سب کچھ ہوتا آیا ہے اور ہوتا رہے گا۔ ہم وقت کے اُس موڑ پر ہیں جہاں سب کچھ بدلنے کی تیاری کی جارہی ہے۔ زندگی کی بنیادی طرزِ فکر و عمل تبدیل کرنے کی کوششوں کا دائرہ وسعت اختیار کر رہا ہے۔کورونا وائرس کی وبا یوں پھیلی ہے کہ اُس نے زندگی کے بیشتر اہم پہلوؤں کو لپیٹ میں لے لیا ہے۔ محض عمل نہیں بلکہ سوچ بھی بدلتی جارہی ہے۔ پاکستان جیسے معاشروں کے لیے خود کو مکمل تبدیلی کے لیے تیار کرنا اور واضح خسارے سے بچنا انتہائی دشوار گزار مرحلہ ہے۔ ہمارا معاشرتی اور معیشتی ڈھانچا انتہائی کمزور رہا ہے۔ دنیا بھر میں جو کچھ بھی ہوتا ہے اُس کے شدید منفی اثرات ہم پر مرتب ہوکر ہی رہتے ہیں۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ ہم اپنے اجتماعی وجود کو محفوظ رکھنے پر توجہ نہیں دیتے۔
وسیم اور نسیم تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کے ہاتھوں بہت پریشان ہیں۔ دونوں بھائی مل کر ایک جنرل سٹور چلاتے ہیں۔ یہ جنرل سٹور اُن کے گھر کا چولھا جلتا رکھنے کا اہتمام کرتا ہے۔ اِن کے والد عبدالمتین بھی اِسی سٹور کا حصہ ہیں۔ تینوں مختلف اوقات میں سٹور کا رخ کرتے ہیں۔ کم و بیش ایک عشرے سے یہ سٹور قائم ہے اور اس دوران مجموعی طور پر بہت کامیاب رہا ہے۔ کورونا وائرس کی وبا نے البتہ کچھ ایسی خرابی پیدا کی ہے کہ باپ اور دونوں بیٹوں کی پُرسکون نیند غارت ہوچکی ہے۔ کورونا کی وبا کے ہاتھوں اچھے اچھوں کے قدم اکھڑ چکے ہیں تو عبدالمتین اور اُن کے بیٹوں کی کیا بساط کہ اپنے جنرل سٹور کو مندی سے بچاسکتے۔ وہی ہوا ہے جس کا ڈر تھا۔ سٹور کی مجموعی سیلز اب 40 فیصد رہ گئی ہے۔ گھر کی تمام ضرورتوں کا پورا کرنا بھی انتہائی دشوار ہوچکا ہے۔ جب ہنستا گاتا موسم اپنا تھا تب ہر منظر سہانا لگ رہا تھا۔ تب اضافی آمدنی کو بچانے پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔ گھر کے اخراجات تو منطقی حدود سے تجاوز کر ہی چکے تھے، وسیم اور نسیم کے ذاتی اخراجات بھی غیر منطقی ہوچلے تھے۔ آمدنی اندازے اور توقع سے زیادہ ہو یعنی بہت کچھ آسانی سے آرہا ہو تو جاتا بھی تیزی اور آسانی ہی سے ہے۔ وسیم اور نسیم کے ذاتی اخراجات نے کسی حد میں رہنا نہ سیکھا اور محنت کی کمائی اللوں تللوں میں ضائع ہونے لگی۔ اچھا تھا کہ اُن اچھے دنوں میں وسیم اور نسیم جنرل سٹور سے ہٹ کر بھی کچھ ایسا کرتے جو کسی بھی پریشان کن صورتِ حال میں دل بستگی کا سامان کرتا۔
خالص کاروباری ذہنیت رکھنے والے کسی بھی ناخوشگوار کیفیت سے نمٹنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ یہ تیاری بچت کی صورت ہی میں ممکن ہے۔ عبدالمتین اور اُن کے دونوں بیٹوں کو بھی ذہن سے کام لینا چاہیے تھا۔ جب سب کچھ اچھا تھا تب کچھ نہ کچھ بچاکر رکھنا بھی لازم تھا۔ ایسا نہیں کیا گیا اور اِس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ کسی بھی بحرانی کیفیت سے نمٹنے کے لیے جو فنڈز درکار ہوا کرتے ہیں وہ دستیاب نہیں۔ کاروبار کی دنیا میں یہ سب کچھ ہوتا ہی رہتا ہے۔ وقت کے پلٹنے سے کسی بھی لمحے کوئی ایسی مصیبت وارد ہوسکتی ہے جو ڈٹے رہنے کی صلاحیت چھیننے پر تُل جاتی ہے۔ عبدالمتین اور اُن کے بیٹوں سے جو غلطی سرزد ہوئی وہی غلطی ملک بھر میں لاکھوں گھرانوں سے سرزد ہوئی ہوگی۔
انگریزی میں کہاوت ہے کہ سارے انڈے ایک ٹوکری میں نہیں رکھنے چاہئیں یعنی اپنے وسائل سے استفادے کے معاملے میں ایسی معقولیت بروئے کار لائی جانی چاہیے کہ اگر حالات خرابی کی طرف جائیں تو سبھی کچھ داؤ پر نہ لگے، بحرانی کیفیت سے کماحقہٗ نمٹنا ممکن ہو۔ جو پریشانی عبدالمتین، وسیم اور نسیم کیلئے پیدا ہوئی ہے وہ ہر اُس گھرانے کیلئے پیدا ہوتی ہے جو سارے انڈے ایک ٹوکری میں رکھتے ہیں۔ وقت کا دم بدم یہی تقاضا رہتا ہے کہ ہم اُس کے کسی بھی پلٹے کیلئے تیار رہیں۔ وقت کی سرگم میں تان پلٹوں کی کمی نہیں۔ کبھی بھی کچھ بھی ہوسکتا ہے اور ہوتا ہی رہتا ہے۔جب معیشت اچھی حالت میں تھی وہ وقت گزرے ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا۔ تب عبدالمتین کو سوچنا چاہیے تھا کہ سارے انڈے ایک ٹوکری میں نہیں رکھنے چاہئیں۔ تب اگر ایک بیٹے کو جنرل سٹور سے ہٹ کر کوئی کام کرادیا جاتا تو آج معیشت میں رونما ہونے والی خرابی سے نمٹنے میں زیادہ الجھن کا سامنا نہ ہوتا۔ یوں بھی کسی گھر کے تمام افراد کو ایک ہی شعبے، ادارے یا دکان سے وابستہ نہیں ہونا چاہیے۔ اگر دکان کمزور پڑ جائے یا دھندا مندا پڑ جائے تو سبھی رُل جاتے ہیں۔ اس وقت عبدالمتین اور ان کے دونوں بیٹے اِسی کیفیت سے دوچار ہیں۔ جب معیشتی ڈھانچا کمزور پڑتا ہے تو اجتماعی خرابیوں کا سب سے زیادہ اثر انفرادی معاشی سرگرمیوں پر مرتب ہوتا ہے۔ معاشرے تو کسی نہ کسی طور بقا یقینی بنانے میں کامیاب رہتے ہیں مگر انفرادی سطح پر گراوٹ کا سامنا کرنا انتہائی دشوار اور بعض صورتوں میں تو ناممکن ہوتا ہے۔ اگر کسی گھر میں چار افراد کام کر رہے ہوں تو اُن کے پیشوں میں تنوع ہونا چاہیے تاکہ اجتماعی سطح پر رونما ہونے والی کسی بھی خرابی کا سامنا ڈھنگ سے کیا جاسکے۔
کورونا وائرس کے ہاتھوں پیدا ہونے والی صورتحال نے پاکستان جیسے معاشروں کیلئے ایک بہت بڑا چیلنج کھڑا کیا ہے۔ یہ چیلنج ہے شکست و ریخت سے محفوظ رہنے کا۔ وہ زمانہ ہوا ہوچکا جب پورا گھرانہ کسی ایک شعبے میں معاشی جدوجہد کیا کرتا تھا اور پھلنے پھولنے کی منزل میں رہتا تھا۔ اب ہر گھرانے کو متنوع معاشی جدوجہد کرنا پڑے گی تاکہ معیشت میں رونما ہونے والی کسی بھی خرابی سے بطریقِ احسن نمٹنا ممکنات میں سے رہے۔ ایسا نہیں ہے کہ انفرادی سطح پر معاشی جدوجہد کے حوالے سے پیدا ہونے والے چیلنجز سے نمٹنا صرف فرد کا کام ہے۔ ریاستی مشینری کو بدلتی ہوئی صورتِ حال کے مطابق نئی سوچ اپناکر از سرِ نو منصوبہ سازی کرنا ہے تاکہ فرد کا سبھی کچھ داؤ پر نہ لگے اور وہ جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کے حوالے سے جان کُنی کی سی کیفیت سے بچنے میں کامیاب ہو۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں