"MIK" (space) message & send to 7575

شعلہ سا ’’بھڑک‘‘ جائے، آواز تو دیکھو!

آج کل الیاس شدت سے یاد آرہا ہے۔ کیا خوب آدمی تھا‘ بلکہ ہے۔ ''تھا‘‘ تو ہم کالج کے زمانے کی مناسبت سے کہہ رہے ہیں۔ الیاس گلدستہ تھا اور گل کھلانے پر تُلا رہتا تھا! 1983ء میں ہم نے کاروبار کی تعلیم کے حوالے سے کالج کا رخ کیا تو وہاں الیاس مل گیا۔ ہمیں ''علم‘‘ کی بنیاد پر داخلہ ملا اور الیاس کو ہاکی کے زور پر۔ اندازہ لگانے میں عجلت سے کام مت لیجیے گا۔ ہمارے کہنے کا یہ مطلب نہیں کہ ''لاہوری بادشاہ‘‘ کے سلطان راہی کی طرح الیاس نے ہاکی اٹھاکر سب کو سیدھا کرنے کی ٹھان لی تھی۔ وہ ہاکی کھیلتا تھا اور اُسے سپورٹس کے کوٹے پر داخلہ ملا۔ ہم ''پڑھاکو‘‘ گروپ میں تھے اس لیے الیاس سے شروع شروع میں زیادہ بات چیت نہیں ہو پاتی تھی۔ پھر ہمارے درمیان ایک قدرِ مشترک کا انکشاف ہوا۔ یہ قدرِ مشترک تھی شہنشاہِ غزل مہدی حسن کی ہستی۔ ہم مہدی حسن کے دیوانے تھے اور الیاس اُن پر فدا تھا۔ آپ سوچیں گے کہاں ہاکی اور کہاں مہدی حسن! جی ہاں! الیاس ایسا ہی تھا۔ جس طرح دستر خوان پر طرح طرح کے کھانے چُنیہوتے ہیں بالکل اُسی طرح الیاس کی ذات میں بھی بہت سی خصوصیات چنی ہوئی تھیں۔ کبھی وہ ہاکی کے میدان میں دکھائی دیتا اور کبھی کالج کے باہر نیم کے گھنے پیڑ کے نیچے بانسری بجاتا، گاتا ہوا ملتا۔ پھر یوں ہوا کہ ہاکی ایک طرف رہ گئی اور گلا آگے بڑھ گیا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ کالج میں مخلوط تعلیم تھی۔ ہاکی کھیلنے والا الیاس لڑکیوں کو زیادہ پسند نہ آیا اور یوں بھی ہاکی میں مہارت دکھانے کیلئے میدان درکار تھا۔ گلوکاری تو کہیں بھی کی جاسکتی تھی، سُر پھیلانے کیلئے کسی میدان کا ہونا لازم نہ تھا۔ الیاس موقع شناس اور معاملہ فہم تھا۔ اُس نے جب دیکھا کہ صنفِ مخالف کو سُریلے اچھے لگتے ہیں تو اُس نے ہاکی ایک طرف رکھی اور بانسری تھام کر گانے پر توجہ دی۔ امتحان میں تو وہ کچھ خاص مارکس نہیں لے پاتا تھا مگر گرلز سیکشن کی طرف زیادہ دکھائی دیتا تھا کیونکہ وہاں اُسے گریس مارکس آسانی سے مل جاتے تھے! ویسے تو خیر الیاس کی پوری کی پوری شخصیت ہی غضب ڈھانے والی تھی مگر ایک معاملے میں تو اُس نے ایسا غضب ڈھایا کہ بہت سوں کو آج تک بھگتنا پڑ رہا ہے۔ جب اُسے گلے کی مدد سے مقبولیت سے ہم کنار ہوتے دیکھا تو کلاس کے کئی لڑکوں نے جیسے تیسے گانا شروع کردیا۔ مہدی حسن سے محبت و عقیدت کی بدولت تھوڑا بہت زم بھی گنگنا لیتے تھے مگر ہمیں اندازہ تھا کہ گائیکی ایک سمندر ہے جس میں ڈھنگ سے تیرنے کیلئے جگر نہیں، جگرا چاہیے۔ یہ بات دوسروں کی سمجھ میں نہ آئی اور وہ ع 
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
کے مصداق اِس سمندر میں کود پڑے۔ پھر یوں ہوا کہ بیشتر کیلئے یہ سمندر واقعی بھڑکا ہوا الاؤ ثابت ہوا! فرق یہ تھا کہ سنگیت کے الاؤ میں گرنے والوں کے ہاتھوں دوسروں کے لیے بھی جلنے بھننے کا اہتمام ہوا! ہم گواہ ہیں کہ الیاس کو دیکھ کر کچھ لڑکے پڑھائی وڑھائی چھوڑ کر ہاکی کے میدان میں اُترے اور کچھ نے سنگیت کے اکھاڑے کا انتخاب کیا۔ اس اکھاڑے میں اترنے والے بیشتر لڑکوں کو ہم نے اس حالت میں پایا کہ کچھ ہی مدت میں سات سُروں نے یوں پچھاڑا کہ وہ اٹھ کر دوبارہ پڑھائی کی طرف جانے کے قابل نہ رہے۔ گویا ع 
نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم...
الیاس کے ہاتھوں یعنی اُس سے ''انسپائر‘‘ ہوکر ''کشتگانِ موسیقی‘‘ کی صف میں ہمارے جو احباب شامل ہوئے اُن میں مقصود الحسن بھی تھے۔ مقصود چونکہ ''جیالے‘‘ تھے اِس لیے پڑھنے پر زیادہ توجہ نہیں تھی۔ اُن کا بیشتر وقت سیاسی سرگرمیوں میں گزرتا تھا۔ جو تھوڑا بہت وقت بچتا تھا اُسے وہ پڑھائی کے بجائے سنگیت کی نذر کرکے سُکون کے سانس لیتے تھے۔ کیا پتا ایسا کرنے سے پڑھائی کو زیادہ سُکون ملتا ہو! مقصود بھی مہدی حسن کے دیوانے تھے۔ جو مہدی حسن کا دیوانہ ہو وہ عمر کے کسی مرحلے میں تھوڑا بہت گائے بغیر نہیں رہ سکتا۔ مقصود کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ تھا۔ ہم اُن کے گھر جاتے تھے تو وہ خاطر تواضع کا اہتمام تو کرتے ہی تھے مگر دو تین گانے سناکر ''وصولی‘‘ بھی کرلیتے تھے! دوسرے بہت سے زمانوں کی طرح کالج کا زمانہ بھی گزر گیا۔ ہنسنے گانے کے دن ختم ہوئے تو سب نے عملی زندگی شروع کر دی۔ ہم نے لکھنے پڑھنے کو حرزِ جاں بنالیا۔ صحافت کی طرف آئے اور یہیں کے ہو رہے۔ الیاس نے ہاکی اور سات سُروں کو ایک طرف ہٹاکر کمانے پر توجہ دی اور پراپرٹی ڈیلر بن بیٹھے ہیں۔ اسلام آباد میں رہتے ہیں۔ اُن کی گلوکاری کا گراف خاصا نیچے آچکا ہے مگر ہم پورے یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ وفاقی دارالحکومت میں رہنے کی نسبت سے راگ درباری میں اب وہ خاصی مہارت کے حامل ہوچکے ہوں گے! مقصود بیس سال سے امریکا میں ہیں۔ وہاں انہوں نے گھر کا چولھا جلانے کیلئے سروس سٹیشن کھول رکھا ہے مگر اس دُھن میں بھی انہوں نے اپنے اندر سنگیت کے الاؤ کو سرد نہیں پڑنے دیا۔ ہم سوچا کرتے تھے کہ مقصود خدا جانے کون سا راگ الاپ کر امریکا پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ اب معلوم ہوا کہ وہ الیاس کی بھڑکائی ہوئی آگ میں اب تک جل رہے ہیں۔ امریکی فضائیں بھی اُن کی لَے کاری اور تان پلٹوں سے ''مستفیض‘‘ ہو رہی ہیں۔ 
کچھ دنوں سے مقصود ٹیکنالوجی کا سہارا لے کر (خود پر کم اور دوسروں پر زیادہ) غضب بلکہ ستم ڈھا رہے ہیں۔ امریکا جیسے ہڑبونگ پسند معاشرے میں بھی مقصود کی ''سُر پسندی‘‘ نے دم نہیں توڑا۔ وہ آج کل ''کور سنگر‘‘ کی حیثیت سے اپنے آئٹم سوشل میڈیا پر اَپ لوڈ کر رہے ہیں۔ وہ کسی بھی مشہور گانے کو دھیمی آواز میں چلاکر اُس کے ساتھ ساتھ گاتے ہیں۔ اِس میں بڑی آسانی ہے۔ اگر گانا کسی کو پسند آجائے تو ٹھیک، ورنہ الزام ٹیکنالوجی پر یا پھر اصل گلوکار پر دھر دیجیے! مقصود نے ہمیں بتایا تو ہم نے اُن کے آئٹم سُنے۔ سماعت کے بعد کا مرحلہ زیادہ جاں گُسل ثابت ہوا یعنی اُنہوں نے اپنے ''فن‘‘ کی گہرائی و گیرائی پر رائے طلب کی۔ ہم نے دست بستہ عرض کیا کہ ہم تو آپ کے چاہنے والوں میں سے ہیں۔ چاہت میں جنون بھی چلتا ہے اور منافقت بھی۔ دوست کے ''فن‘‘ سے متعلق کچھ کہنے کا وقت آگیا ہے تو ہم حقیقت پسندی پر دو حرف بھیج کر دوستی کا حق ادا کرتے ہوئے صریح منافقت سے کام لیں گے۔ قصہ مختصر! جو کچھ آپ کر رہے ہیں اُسے ہم ''سنگیت سیوا‘‘ سمجھ کر سراہنے کے سوا کچھ نہ کریں گے۔ کہتے ہیں سُروں میں جادو کا سا اثر ہوتا ہے، یہ جانوروں پر بھی اثر کرتے ہیں۔ مقصود کے سُروں نے ہم پر بھی اثر کیا ہے مگر کوئی یہ نہ سمجھے کہ دوست کا دل رکھنے کی خاطر ہم خود کو جانوروں کی صف میں شامل کر رہے ہیں! 
مقصود کے گائے ہوئے آئٹم سن کر ہمیں ماننا ہی پڑا کہ انسان واقعی سرکش ہے، کچھ کرنے کی ٹھان لے تو کرکے دم لیتا ہے۔ ساتھ ہی اُنہیں ذہانت یا چالاکی کی داد بھی دینا ہی پڑے گی کہ اُنہوں نے ایک ہم دمِ دیرینہ کے خلوص سے خوب استفادہ کیا یعنی اپنے گلے کی چُھری ہمارے حلقومِ سماعت پر پھیر کر ہی دم لیا۔ مقصود کو سُن کر اندازہ ہوا کہ الیاس نے یہ آگ نہ بھڑکائی ہوتی تو آج کتنے ہی نوجوان اپنے گلے کی آگ میں جل کر خاکستر نہ ہوئے ہوتے! 
مقصود سے ہم نے عرض کیا کہ ہم تو احباب میں سے ہیں اور احباب بھی کالج کے حسین و رنگین زمانے کے۔ ہم تو کچھ بھی جھیل سکتے ہیں مگر اپنے سنگیت کا ڈنڈا اہلِ خانہ پر نہ برسائیے گا یعنی اُنہیں اپنے آئٹم سننے پر مجبور مت کیجیے گا۔ اہلِ خانہ کے بہت سے حقوق ہوتے ہیں۔ اُن کا ایک حق یہ بھی ہے کہ بے جا تکلیف نہ دی جائے! حاصلِ کلام یہ کہ مقصود کو جھیلنے کیلئے ہم بصد شوق حاضر ہیں۔ وہ اپنے آئٹم سُننے کی فرمائش کرکے اہلِ خانہ کو تاریک سرنگ سے گزرنے پر مجبور نہ کریں کہ ایسی صورت میں گھر کا ماحول مکدر ہوسکتا ہے! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں