بھائی شاہد ماننے کو تیار نہیں کہ ہر معاملے میں انصاف کا خون نہیں ہوتا۔ اگر ایسا ہو تو معاشرے ختم ہوجائیں، تنکوں کی طرح بکھر جائیں۔ اُن کے ذہن میں یہ نکتہ تقریباً یقین کا مقام حاصل کرچکا ہے کہ غریب کے بچے کو کچھ بھی نہیں مل سکتا۔ معاملہ یہ ہے کہ اُنہیں لڑکپن سے عہدِ شباب کی آمد تک کے درمیانی عرصے میں کرکٹ کھیلنے کا شوق تھا۔ کلب لیول کی کرکٹ تو انہوں نے خوب کھیلی مگر کوشش کے باوجود آگے نہ بڑھ سکے۔ ایک بار انڈر 19 کے لیے ٹرائل دیا مگر منتخب نہ ہوسکے۔ کیوں؟ اِس لیے کہ اُن کے بقول‘ وہ غریب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ تب سے اب تک یہ بات اُن کی نفسی یا فکری ساخت کی زمین میں کھونٹے کی طرح گڑی ہوئی ہے کہ غریب کے لیے اس معاشرے بلکہ اس دنیا میں کچھ بھی نہیں۔ وہ ہمہ وقت اپنی یہ بات منوانے کے لیے بضد رہتے ہیں کہ کسی بھی شعبے میں میرٹ نام کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی یعنی اگر آگے بڑھنا ہے تو کسی نہ کسی مرحلے میں کوئی ''جیک‘‘ تلاش کرنا پڑے گا۔ جیک گاڑی کو بلند کرنے کے کام آتا ہے۔ بالکل اِسی طور کسی کو نوکری کے حصول یا کیریئر میں پیش رفت کے حوالے سے جیک کی ضرورت پڑتی ہے یعنی کوئی بڑی اور اثر و رسوخ والی شخصیت ساتھ ہو تو کام ہو پاتا ہے۔ہم نے بھائی شاہد کی رائے سے کبھی اتفاق نہیں کیا‘ کر بھی نہیں سکتے کیونکہ ہمارا اس بات پر یقین ہے کہ اگر کوئی خلوصِ نیت اور جاں فشانی کے ساتھ محنت کرتا ہے تو اللہ کی طرف سے کچھ نہ کچھ مل کر ہی رہتا ہے۔ یہ بات تسلیم ہی نہیں کی جاسکتی کہ معاشرے کے کسی بھی شعبے میں میرٹ نہیں چلتا۔ اگر ایسا ہو تو معاشرے کا پورا ڈھانچا تتر بتر ہوکر رہ جائے، کسی بھی سطح پر معقولیت باقی نہ رہے۔
اٹھتی جوانی میں ہم بھی کچھ نہ کچھ کرنے کے حوالے سے جوش و خروش کے حامل تھے۔ ایک وقت وہ تھا جب ہم معلوماتِ عامہ کے پروگرامز میں حصہ لینے کے شوقین تھے۔ پھر شعر گوئی کا سلسلہ شروع ہوا تو ہماری توجہ کوئز پروگرامز پر زیادہ نہ رہی۔ پھر اخبارات کے لیے لکھنے لکھانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ مضامین اور فیچرز کی راہ سے ہوتے ہوئے ہم خبروں کی ادارت تک پہنچے یعنی سب ایڈیٹر ہوگئے۔ اس کوچے میں آوارہ خرامی کرتے کرتے ہم پہلے تراجم اور پھر کالم نگاری تک آگئے۔ اِن تمام کاموں سے پہلے ہم بھی کرکٹ کے شوقین تھے۔ اب اگر کوئی کہے کہ ایمانداری سے بتائیے جو کچھ چاہا وہ ملا یا نہیں تو ہم بلا خوفِ تردید کہیں گے کہ ہم نے وہی پایا جس کی حقیقی آرزو کی۔ اگر کرکٹ کو چاہا ہوتا تو آج کرکٹر ہوتے۔ اگر کسی اور شعبے کو اپنانے کی شدید خواہش کو عملی جامہ پہنایا ہوتا تو آج اُس شعبے میں ڈھنگ سے کچھ کر رہے ہوتے۔ پڑھنے اور لکھنے کا شوق بہت چھوٹی عمر سے تھا۔ میٹرک کی سطح پر شعر گوئی کا سلسلہ شروع ہوا تو اصلاح کے لیے رئیسؔ امروہوی مرحوم کے در سے وابستہ ہوئے۔ اخبارات و جرائد کے لیے لکھنے میں ہم نے زیادہ دلچسپی لی اور اِس روش پر گامزن رہنے ہی کا فیضان ہے کہ آج ہم جیسے تیسے کچھ ایسا لکھ لیتے ہیں جو لوگوں کو پسند آجاتا ہے۔ ہم نے کسی بھی مرحلے پر یہ محسوس نہیں کیا کہ معاشرے نے ہمارے معاملے میں انصاف سے کام نہیں لیا۔ جہاں بہت سی خرابیاں ہیں وہاں چند ایک اچھائیاں بھی تو اب تک زندہ ہیں۔ تین‘ ساڑھے تین عشروں میں معاشرہ شدید گراوٹ سے دوچار ہوا ہے اور ہم نے اس پورے دور میں کئی زمانے گزارے ہیں، بہت کچھ الٹتے پلٹتے دیکھا ہے۔ ایک طرف تو یہ حقیقت ہے کہ ہمیں بہت کچھ نہیں مل سکا اور دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ زندگی نے ہماری جھولی میں بہت کچھ ڈالا ہے۔ سوال صرف چاہت کا نہیں‘ عمل کا بھی تھا۔ ہم نے عملی سطح پر جو کچھ چاہا وہ ملا۔ بعض معاملات میں یوں ہوا کہ ہم شوق کے مرحلے میں اٹک کر رہ گئے۔ معاملہ نیم دِلانہ رویے کا تھا۔ شعر گوئی اور لکھنے کو ہم نے حرزِ جاں بنانے کی ٹھانی تو اللہ نے نوازا۔ اور کچھ ہوا ہو یا نہ ہوا ہو، اِتنا ضرور ہوا ہے کہ ہم اپنے کام سے خوش ہیں۔ اس سے زیادہ کیا چاہیے؟
شاہد بھائی اور ایسے دوسرے بہت سے لوگوں کے لیے یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ملتا اُنہی کو ہے جو پانا چاہتے ہیں۔ ہر انسان زندگی بھر بہت کچھ بننے کا خواہش مند رہتا ہے۔ خاص طور پر عہدِ شباب کا آغاز عملی زندگی کے نام پر صرف خواہشات لے کر آتا ہے۔ ہم جسے بھی کامیاب دیکھتے ہیں اُس جیسا ہونے کا سوچنے لگتے ہیں۔ کرکٹرز کی غیر معمولی شہرت، دولت اور توقیر دیکھ کر محض وقت گزاری کے لیے شوقیہ سطح پر کرکٹ کھیلنے والے لاکھوں نوجوان کرکٹر بننے کا خواب دیکھنے لگتے ہیں۔ یہی معاملہ اداکاری، گلوکاری اور شوبز کے دوسرے شعبوں کا ہے۔ اکیسویں صدی کے آغاز پر جب ملک نے ''میڈیا بُوم‘‘ کا آغاز دیکھا تو ہزاروں نوجوانوں نے زیادہ کمانے اور شہرت سے ہم کنار ہونے کی خاطر میڈیا کا رخ کیا۔ وہ پانا تو بہت کچھ چاہتے تھے مگر اِس حوالے سے عمل کا حق ادا کرنے کو تیار نہ تھے۔ اِس کیفیت کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ وہ لوگ اب بیچ کے بے چارے ہوکر رہ گئے ہیں! اُن سے سمجھوتا نہیں ہو پارہا۔ میڈیا میں بھی وہی لوگ میڈیا بُوم کے ختم ہونے کے بعد سنبھل پائے ہیں جنہوں نے اِس دن کے لیے خود کو تیار کیا تھا۔ اخبارات اور چینلز میں کام کرنے کے ڈھنگ بالکل الگ ہیں۔ چینلز میں ہر معاملہ تیزی کا حامل ہے۔ اخبارات و جرائد میں ایسا نہیں ہوتا۔ میڈیا میں اُنہی لوگوں کے قدم نہیں اکھڑتے جو اپنے کام سے عشق کرتے ہیں اور اپنے پورے وجود کو اپنے عشق کے عملی پہلو کے حوالے کرتے ہیں ۔
آج پاکستانی معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ، مخمصہ یا المیہ یہ ہے کہ لوگ بہت کچھ پانا تو چاہتے ہیں مگر عمل کا حق ادا کرنے سے کتراتے ہیں۔ شاہد بھائی جیسے لاکھوں افراد نوجوانی میں بڑے خواب دیکھتے ہیں مگر یہ نہیں سوچتے کہ محض خواب دیکھنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ لکھنے کے شعبے میں بھی بہت سے ایسے ہیں جو بڑی باتیں سوچ تو لیتے ہیں مگر قلم تھام کر اُن باتوں کا حق اد اکرنے کا مرحلہ آتا ہے تو اُن کے حوصلے اور حواس جواب دے جاتے ہیں، عزم سمندر کے جھاگ کی طرح بیٹھ جاتا ہے۔ ہم نے اپنے شعبے کے ساتھ ساتھ دوسرے شعبوں میں بھی ایسے بہت سے نوجوان دیکھے ہیں جو بہت کچھ بننے کی خواہش تو رکھتے ہیں مگر اپنے پورے وجود کو اُس خواہش کے حوالے نہیں کرتے۔ جب سوال اپنے وجود کو کھپانے کا آتا ہے تو وہ پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ اس کا ایک بنیادی سبب یہ بھی ہے کہ وہ کسی سے مشورہ کرتے ہیں نہ کوئی اُنہیں سمجھاتا ہے۔ مغرب میں یہ سب کچھ منظم طریق سے ہوتا ہے۔ کیریئر کاؤنسلنگ اِسی کا تو نام ہے۔
نئی نسل کو بہتر زندگی کے لیے تیار کرنے کی خاطر اُسے بہت کچھ بتانا اور سمجھانا پڑتا ہے۔ محض باصلاحیت ہونے سے کچھ زیادہ نہیں مل پاتا۔ جو نوجوان اپنی پسند کے شعبے سے وابستہ شخصیات سے کچھ سیکھنے پر مائل ہوتے ہیں وہی کچھ بن پاتے ہیں۔ شرط یہی تو ہے کہ اگر کچھ پانا ہے تو اپنے آپ کو کھونا سیکھئے۔ اپنے وجود کو شوق کے حوالے کیجیے۔
جو اِس مرحلے سے نہیں گزرتا وہ محض خواب دیکھنے اور شوق کا حامل ہونے کے مرحلے میں اٹک کر رہ جاتا ہے۔ اگر کچھ کرنا ہے تو یہ تصور ذہن سے کھرچ کر پھینک دیجیے کہ معاشرے میں ہر طرف میرٹ کا خون ہو رہا ہے اور کوئی کچھ پا ہی نہیں سکتا۔ معاشرہ برائیوں کے ساتھ ساتھ اچھائیوں کا بھی مجموعہ ہے۔ اور یہ سب کچھ ہمارا ہی تو کیا دھرا ہے۔ جیسے ہم ہیں ویسا یہ معاشرہ ہے۔ پاتے وہی ہیں جو دنیا وما فیھا سے بے نیاز ہوکر خود کو اپنے شوق کے حوالے کرتے ہیں۔