"MIK" (space) message & send to 7575

سادہ کاغذ پر ’’اصلاح‘‘

لکھنے کا شعبہ بھی خوب ہے۔ یہ واحد شعبہ ہے جس میں ''بھوت‘‘ پائے جاتے ہیں یعنی لکھے کوئی اور شائع کسی کے نام سے ہو۔ ایسے لکھاری ''گھوسٹ رائٹر‘‘ کہلاتے ہیں۔ کبھی کبھی ہم سوچتے ہیں یہ بھی اچھا سلسلہ ہے‘ کچھ لوگوں کا روزگار تو لگا ہوا ہے۔ یوں بھی انسان جو کچھ لکھتا ہے وہ سب کا سب کہاں شائع ہو پاتا ہے۔ لکھنے والوں کے پاس تو بہت کچھ ہوتا ہے جو ذہن سے قرطاس پر منتقل ہونے کو بے تاب رہتا ہے۔ اگر یہ مرحلہ طے نہ ہو تو ذہن میں پنپنے والے خیالات رفتہ رفتہ دم توڑتے جاتے ہیں۔ معاملہ یہیں پر ختم نہیں ہوتا‘ جو کچھ ذہن سے باہر نہیں آ پاتا وہ اچھا خاصا خلفشار پیدا کرتا ہے۔ 
نظرؔ فاطمی ہمارے اُن احباب میں سے ہیں جن سے ملاقاتیں باقاعدگی سے ہوتی رہتی ہیں۔ نظرؔ فاطمی خیر سے شاعر ہیں اور شاعر بھی ایسے پُرعزم کہ اُن کا وجود محض شعر کہنے تک محدود نہیں۔ جب بھی کچھ کہتے ہیں‘ چَین سے نہیں بیٹھتے یعنی ہمارے گوش گزار کرنے کے بعد ہی سُکون کا سانس لیتے ہیں۔ جو کچھ نظرؔ فاطمی عطا کرتے ہیں ہم خلوص اور توجہ کے ساتھ سُن لیتے ہیں۔ فی زمانہ یہ بھی دوستی کے پُرخلوص اظہار کا ایک مستحسن طریقہ ہے۔ نظرؔ فاطمی کے نصیب کی بلندی دیکھیے کہ ہم محض سامع نہیں‘ سُخن فہم بھی ہیں۔ نظرؔ فاطمی کی طبع کے نتائج جب بھی سامنے آتے ہیں ہم احترام و ادب کے ساتھ سَر جھکاکر ہمہ تن گوش ہو جاتے ہیں۔ شاید ایسے ہی موقع کے لیے نواب علی اصغر نے کہا ہے ع
سرِ تسلیم خم ہے‘ جو مزاجِ یار میں آئے 
ڈیڑھ دو سال پہلے تک ہم نظرؔ فاطمی کی غزلیں اور نظمیں بہت شوق سے سُنتے تھے اور اُن کی توقع کے مطابق داد بھی دیتے تھے۔ اس کا ایک سبب تو یہ تھا کہ وہ ہمارے دوست ہیں اور دوست اگر چند اشعار بھی نہ سُنے تو کیسی دوستی کہاں کی دوستی۔ دوسرا اور خاصا معقول سبب یہ تھا کہ نظمیں یا غزلیں سُناتے وقت نظرؔ فاطمی کھلائے پلائے بغیر نہیں رہتے تھے۔ بات یہ تھی کہ وہ ایک شادی ہال کے منیجرتھے۔ رات کو ہال سے واپسی پر حلقۂ اربابِ سُخن میں کچھ دیر بیٹھنا اُن کی عادت تھی۔ وہ عام طور پر شادی ہال سے ''کھابے‘‘ لے کر آتے تھے۔ ان ''کھابوں‘‘ سے سبھی مستفید ہوتے تھے۔ نظرؔ فاطمی کا ''طریقِ واردات‘‘ اُن کی ذہانت پر دال تھا۔ وہ عام طور پر کھلاتے پہلے تھے اور سُناتے بعد میں تھے! ہم تو خیر ''ڈائی ہارڈ‘‘ قسم کے دوست ہیں اس لیے اُن کا کلام دوستی کی مد میں سُنتے تھے جبکہ دیگر احباب اِس لیے سُنتے تھے کہ نظرؔ فاطمی کا دیا ہوا کھانے کے بعد بے سُنے محفل برخاست کرتے شرم دامن گیر ہوتی تھی! اب اگر نظرؔ فاطمی کچھ سُنائیں تو ہم نے بہت سوں کے چہرے پر خاصا تکدّر دیکھا ہے! 
شعرا کی بھی عجیب ہی دنیا ہے۔ یہ ایک خیالی جنت بناکر اُس میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ ذہن سے باہر کی یعنی حقیقی دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہوتا ہے اُس سے انہیں بظاہر کچھ خاص غرض نہیں ہوتی۔ شعرا جو کچھ کہتے ہیں اُس پر عمل نہیں کرتے اور جو کچھ کرتے ہیں اُسے ضبطِ سُخن میں لانے سے گریزاں رہتے ہیں۔ فکر و عمل کا یہی وہ تضاد ہے جو کائنات کے خالق و مالک نے بھی اپنے کلام میں بیان کی ہے۔ ارشاد ہوا کہ شعرا عام طور پر ایسی باتیں کہتے ہیں جن پر وہ خود عمل نہیں کرتے۔ ہر دور میں شعرا باقی معاشرے سے الگ تھلگ رہے ہیں۔ ہماری اس بات سے نظرؔ فاطمی کسی حد تک اتفاق کرتے ہیں۔ ہاں‘ بعض دوسرے معاملات میں ہم جو کچھ کہتے ہیں وہ اُن کی طبعِ نازک پر گراں گزرتا ہے۔ گزرنا چاہیے کیونکہ سچ آسانی سے ہضم نہیں ہو پاتا! مثلاً وہ ہماری اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ شاعری کی دنیا کے بہت سے اساتذہ سادہ کاغذ پر اصلاح دیتے ہیں۔ سادہ کاغذ پر اصلاح دینے کا مطلب ہے تلامذہ یعنی شاگردوں کا بے سَر و پا ''کلام‘‘ ردّی کی ٹوکری میں ڈال دینا اور اپنی کہی ہوئی غزل یا نظم عنایت کرنا تاکہ وہ مشاعرہ پڑھیں تو استاد کی کچھ لاج رہے! اس بات پر ہمیں اسُتاد مہدی حسن یاد آگئے۔ ایک بار کسی نے اُن سے کہا کہ جناب‘ میں آپ کو کچھ سنانا چاہتا ہوں۔ شہنشاہِ غزل نے حیران ہوکر کہا :لوگ تو مجھ سے کچھ سُنانے کی فرمائش کرتے ہیں اور آپ مجھے کچھ سُنانا چاہتے ہیں۔ حیرت کا مقام ہے مگر چلیے‘ سُنائیے۔ اُن صاحب نے ''مست و بے خود‘‘ ہوکر خاں صاحب کو اُنہی کا ایک گانا سُنایا تو اُنہوں نے (اپنے) دل پر پتھر رکھ کر سُنا۔ گانا ختم ہوا تو چند لمحوں تک کچھ سوچا اور جو کچھ دل و دماغ پر گزری تھی اُسے خاصی تحمل آمیز مہارت سے چھپاکر جیب میں ہاتھ ڈالا‘ کچھ رقم نکالی اور خاصی معصومیت کے ساتھ اُن صاحب سے کہا: یہ لو‘ کوئی چھوٹا موٹا کام کرلو۔ گانا تمہارے بس کی بات نہیں! 
دنیائے سُخن سے ہماری وابستگی بھی کم و بیش 38 سال کی ہے اِس لیے ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ بہت سوں کو اگر کوئی ڈھنگ کا استاد میسّر نہ ہو تو اُن کا کلام رفتہ رفتہ دَھکّا سٹارٹ گاڑی جیسی حیثیت اختیار کرتا جاتا ہے! جو لوگ ڈھائی تین عشروں کی مشقِ سخن کے بعد بھی ڈھنگ سے کچھ نہ کہہ پائیں اُن کی حالت پر ترس ضرور آتا ہے تاہم اس بات سے طمانیت بھی محسوس ہوتی ہے کہ وہ باضمیر ہیں‘ (جیسا تیسا ہی سہی) اپنا کہا ہوا پڑھتے ہیں‘ کسی کی عطا کے محتاج اور احسان مند نہیں ہوتے! ہم نے اپنی گناہ گار آنکھوں سے ایسے ''شعرا‘‘ بھی دیکھے ہیں جن سے اُن کے اساتذہ ناراض ہو جائیں تو اُن کے ذہن کا ''دریائے سُخن‘‘ خشک ہو جاتا ہے! اور پھر اُن بے چاروں کا کئی مشاعروں کا ناغہ ہو جاتا ہے! 
نظرؔ فاطمی کا شمار اعجاز رحمانی مرحوم کے جاں نثار قسم کے تلامذہ میں ہوتا ہے۔ جہاں تک کلام کی زبان اور نزاکت کا تعلق ہے‘ ہم نظرؔ فاطمی کے بارے میں یہ سُوئے ظنّ نہیں رکھتے کہ وہ بھی سادہ کاغذ پر اصلاح لیتے رہے ہوں گے۔ حق تو یہ ہے کہ ہم نے کبھی اُن کے پاس کوئی سادہ کاغذ نہیں دیکھا! ہم اُن کے اور اعجاز رحمانی مرحوم کے کلام سے بخوبی واقف ہیں اس لیے پورے یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ بھائی عدیل‘ بھائی حسیب‘ عامر شیخ اور حسن علی امام کی طرح وہ بھی اپنا ہی کہا ہوا پڑھتے ہیں۔ ایک خاصی مضبوط زمینی حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے کسی کے کلام کے لیے کسی اور کو داد دی جاسکتی ہے نہ لتاڑا جاسکتا ہے! 
دوسروں کو تو ہم ناراض کرسکتے ہیں‘ نظرؔ فاطمی کو ناراض کرنا ہمارے بس کی بات نہیں۔ اور سوال معاملہ فہمی کا بھی تو ہے۔ ''پریکٹیکل وِزڈم‘‘ کہتی ہے حالات کا کیا پتا کب بدل جائیں‘ پلٹ جائیں۔ معیشت آج مشکل میں ہے تو کل کو آسانیوں سے بھی ہم کنار ہوگی۔ نظرؔ فاطمی کل کو پھر کسی شادی ہال کے منیجر بن سکتے ہیں اور تب ایک بار پھر ''سلسلۂ طعامِ ِنیم شب‘‘ شروع ہوسکتا ہے! ہم چاہیں گے کہ اُن کے کلامِ بلاغت نظام کی خصوصیات کے حوالے سے اُسی طرح خاموش رہیں جس طرح دیگر احباب نے مصلحتاً چُپ سادھ رکھی ہے۔ ہم بھی اُن کی گڈ بک میں رہنا چاہیں گے تاکہ جب ''کھابے‘‘ بحال ہوں تو ہمیں حلقۂ احباب میں نہ ہونے کا دُکھ نہ ستائے! 
ویسے بھی کورونا کی وبا کے دوران احد یار خان‘ حسن علی امام اور بھائی شعیب کی طرح نظرؔ فاطمی کا دم غنیمت ہے کہ اُن سے دو تین ہفتوں میں ملاقات ہو تو جاتی ہے۔ ایک سہیل جمالی ہیں جنہیں دیکھنے کو آنکھیں ترس گئی ہیں۔ کورونا کے معاملے میں حد سے گزری ہوئی یعنی پرلے درجے کی احتیاط پسندی نے اُنہیں ہم سے چھین لیا ہے۔ ایسی احتیاط پسندی کو ہماری طرف سے سات سلام ؎ 
حبابؔ! ایسی بھی کیا بے اعتمادی 
ڈبو دے گی ہمیں موجِ نَفَس کیا! 
دعا کیجیے کہ سہیل جمالی بھی ہم سے آملیں اور نظرؔ فاطمی بھی کبھی ناراض نہ ہوں۔ تھوڑی بہت بے تکلفی کے اجازت یافتہ ہونے کے باوجود ہم اُن کی شاعری کے بارے میں بالمشافہ کچھ کہنے سے گریز کرتے ہیں کہ کہیں ع
... ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں