"MIK" (space) message & send to 7575

دم توڑتی جمہوریت؟

ہر عہد میں اقتدار تمام مسائل کی جڑ یا بنیاد رہا ہے۔ جو لوگ اقتدار کے مآخذ پر قابض و متصرف ہوتے ہیں وہ معاشرتی معاملات سمیت پورے نظام کو اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھالنے کیلئے بیتاب رہتے ہیں۔ جب کوئی باضابطہ نظام نہیں تھا تب بھی ایسا ہی ہوتا تھا۔ پھر بادشاہت آئی تو اقتدار کی لڑائی نے ایسی شدت اختیار کی کہ لوگ تحمل اور شائستگی کو ترس گئے۔ بادشاہت کے جبر سے بچنے کے لیے سوچنے کا سلسلہ شروع ہوا تو ایسے ایسے متبادل اختیار کیے گئے کہ آج اُن کے بارے میں سُن اور سوچ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ بادشاہت کے انتہائی جبر نے جمہوریت اور اشتراکیت کو راہ دی مگر پھر معاملہ فسطائیت تک جا پہنچا۔ جب جمہوریت نے جڑ پکڑی تب ہی اشتراکیت اور مطلق العنانیت نے بھی شکل بدلی۔
بیسویں صدی کے دوران جمہوریت کے نام پر جو کچھ بھی کیا گیا اُس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اقتدار کی لڑائی نے صرف شکل بدلی ہے، تباہ کاری کی عادت ترک نہیں کی۔ گزشتہ صدی میں نو آبادیاتی دور کا خاتمہ ہوا۔ یورپ کی بیشتر طاقتوں نے اپنے زیرِ نگیں ممالک یا خطوں کو آزاد کیا۔ یہ آزادی محض نظر کا دھوکا تھی۔ جبر و استبداد نے صرف شکل بدلی تھی۔ جن ممالک کو آزادی دی گئی وہاں یورپی طاقتوں نے جمہوریت نافذ کرنے کے نام پر اپنی مرضی کا حکومتی نظام قائم کیا۔ یہ نظام اشرافیہ کی برتری کو یقینی بنانے کی خاطر تھا۔کم و بیش ایک صدی کے دوران یورپ نے ترقی یافتہ معاشروں کے غیر معمولی نمونے پیش کیے ہیں۔ سکینڈے نیوین ممالک کو آج فلاحی ریاست کے نقطۂ نظر سے بہترین نمونہ قرار دیا جاتا ہے۔ ان ممالک نے دنیا کو دکھایا ہے کہ ایسا نظام بھی لایا جاسکتا ہے جس میں سب کچھ ریاست کے ذمہ ہو۔ ناروے، ڈنمارک، فن لینڈ، سویڈن وغیرہ میں ریاست انفرادی آمدنی پر غیر معمولی ٹیکس لگاکر تمام بنیادی اور دیگر سہولتیں فراہم کرنے کی پابند ہے۔ ان معاشروں میں لوگ بظاہر خاصی پُرسکون زندگی بسر کر رہے ہیں مگر ہم یہ حقیقت فراموش نہیں کرسکتے کہ یہ یورپ ہی تھا جس نے کم و بیش چار صدیوں تک اپنی طاقت کے ذریعے کئی خطوں کو تاراج کیا، ان کے وسائل سے اپنا دامن بھرلیا اور زیرِ نگیں علاقوں کے لوگوں کو انتہائی پست درجے کی زندگی بسر کرنے پر مجبور کیا۔ آج ہمیں یورپ میں ترقی اور خوش حالی کی جو چکاچوند دکھائی دے رہی ہے وہ صدیوں کی محنت ہی نہیں، صدیوں کے جبر اور استبداد کا بھی نتیجہ ہے۔ کئی خطوں کے وسائل کی بندر بانٹ کے ذریعے یورپ نے خود کو توانائی بخشی۔ دور کیوں جائیے، افریقہ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اس براعظم کو آج تک ابھرنے اور پنپنے کا موقع نہیں مل سکا ہے۔ افریقہ کے باشندوں کو یورپی اقوام نے غلام بناکر اُن کی خرید و فروخت کی۔ امریکا جیسا جمہوریت اور بنیادی حقوق کا علمبردار ملک بھی کم و بیش دو صدیوں تک غلاموں کا انتہائی شرمناک حد تک استحصال کرتا رہا۔ کیا ہم بھول جائیں کہ جمہوریت کا راگ الاپتے نہ تھکنے والے امریکا میں 1960 کے عشرے تک نسل پرستی اور امتیازی سلوک کا یہ عالم تھا کہ ایک ریسٹورنٹ کے دروازے پر ''سیاہ فام افراد کا داخلہ ممنوع ہے‘‘ کا بورڈ دیکھ کر باکسنگ کے اولمپک چیمپئن کیسیئس کلے (محمد علی) نے اپنا تمغہ دریا میں پھینک دیا تھا؟
یورپ اور امریکا نے مل کر پوری دنیا کو جمہوریت کے سانچے میں ڈھالنے کی ٹھانی تھی۔ امریکا کو اپنی لبرل ڈیموکریسی پر ناز رہا ہے۔ لبرل ڈیموکریسی کے ہوتے ہوئے امریکا ہی میں نیو کانز (انتہائی رجعت پسند) ابھرے اور ایسے مضبوط ہوئے کہ اب امریکا کے گلے کی ہڈی بن چکے ہیں۔ باقی دنیا کو جمہوریت سکھانے والا اب خود جمہوریت کی ایسی کمزوری سے دوچار ہے جس نے پس ماندہ معاشروں کو خرابیوں سے دوچار رکھا ہے۔ جی ہاں! پس ماندہ معاشروں میں اختلافِ رائے برداشت کرنے کی روایت خاصی کمزور رہی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے عہدِ صدارت کی ''برکت‘‘ سے اب امریکا میں بھی اس روایت کی نئے سِرے سے بنیاد پڑچکی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابی عمل کے دوران اور اس کے بعد جو طرزِ فکر و عمل اختیار کی اُس سے باقی دنیا کو بھی اندازہ ہوچکا ہے کہ امریکا جمہوریت کے نام پر جو جال دوسروں کے لیے بچھایا کرتا تھا اب خود بھی اُس میں پھنس چکا ہے۔ امریکا میں بھی اب سیاسی میدان میں عدم برداشت عام ہوتا جارہا ہے۔ حالیہ صدارتی انتخاب کے دوران جو کچھ ہوا، صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جس طور حتمی نتائج کو قبول کرنے سے انکار کیا، ایک ہنگامہ برپا کیا اور پھر اُن کے حامیوں نے جس طرح کانگریس کی عمارت پر دھاوا بولا اُسے دیکھ کر تیسری دنیا کے ممالک میں اِس نوعیت کے مناظر یاد آگئے۔ سیاست سمیت تمام شعبوں میں عدم برداشت اب تک پس ماندہ دنیا کی نمایاں خصوصیت رہی ہے۔ اب امریکا جیسے ملک میں بھی اس خصوصیت کی ''نشاۃِ ثانیہ‘‘ کا دور شروع ہو رہا ہے!ترقی پذیر دنیا میں جمہوریت کے نام پر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کا سلسلہ جاری رکھا گیا ہے۔ جمہوریت کی آڑ میں صریح مطلق العنانیت کو پروان چڑھانے پر توجہ دی جاتی رہی ہے۔ ریاستی اداروں پر قابض قوتیں بہبودِ عامہ کی برائے نام گنجائش بھی نہیں رہنے دیتیں۔ ترقی یافتہ دنیا میں بھی عوام کا یہی گلہ ہے کہ اُنہیں کچھ خاص نہیں مل رہا۔ وہاں بھی اشرافیہ سب کچھ اپنے ہاتھ میں رکھتی ہے اور عوام کے لیے زیادہ گنجائش نہیں چھوڑتی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اب سلامتی و صحتِ عامہ کے نام پر لوگوں کے بنیادی حقوق پر بھی ڈاکا مارا جارہا ہے۔ امریکا سمیت بعض ممالک میں تو یہ عمل شب خون سے ملتا جلتا ہے۔نائن الیون کے بعد سے مغربی معاشروں کو نمایاں حد تک بدلنے کا عمل شروع ہوا۔ امریکا نے قومی سلامتی یقینی بنانے کے نام پر شہری آزادیوں پر قدغن لگانے کا سلسلہ شروع کیا۔ آج امریکا میں عام آدمی پر گہری نظر رکھی جارہی ہے۔ شہری آزادیوں اور جمہوریت کے علمبردار بھی ڈٹے ہوئے ہیں مگر ایسا لگتا ہے کہ اعلیٰ ترین سطح پر جو فیصلے کرلیے گئے ہیں اُن پر ہر حال میں عمل کیا جائے گا۔
جس مغرب نے ہمیں لبرل اِزم اور شخصی آزادی کا درس دیتے ہوئے جمہوریت یعنی سب کی رائے کے احترام کا تصور دینے کی کوشش کی تھی وہ آج خود اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مار رہا ہے۔ جمہوریت کو پس ماندہ معاشروں پر مسلط کرنے کے لیے کوشاں یورپ اور امریکا کے لیے جمہوریت اب پورس کا ہاتھی بن چکی ہے۔ امریکا میں اس وقت جو سیاسی فضا پائی جاتی ہے وہ کسی بھی وقت نسلی بنیاد پر ہونے والے وسیع البنیاد خونیں فسادات میں تبدیل ہوسکتی ہے۔ ایک طرف تو جمہوریت کے نام پر سب کو ایک صف میں کھڑا کرنے اور مساوی مواقع دیے جانے کی بات کی جارہی ہے اور دوسری طرف قدرے تلخ حقیقت یہ ہے کہ سفید فام امریکیوں کو دیگر نسلوں کے امریکیوں پر واضح فوقیت دی جاتی ہے۔ ایسے میں کون سی جمہوریت اور کہاں کی جمہوریت؟آج دنیا بھر میں جمہوریت کا عَلم مجموعی اعتبار سے سر نگوں ہے تو یہ بھی امریکا اور یورپ ہی کا کیا دھرا ہے۔ امریکا اور یورپ کی کوشش رہی ہے کہ پس ماندہ معاشروں میں نام نہاد جمہوریت ہو تاکہ قومی مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے لازم سمجھے جانے والے اقدامات نہ کیے جاسکیں۔ افریقہ، ایشیا اور مشرقِ بعید کے بیشتر ممالک میں جمہوریت محض برائے نام ہے۔ مطلق العنانیت نے پورے پورے معاشروں پر پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ جن اقوام کو دباکر رکھنا مقصود تھا وہاں حقیقی جمہوریت کو پنپنے سے روکنا بھی لازم تھا۔ مغربی طاقتوں نے اس حوالے سے انتہائے سفاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مطلق العنان حکمرانوں کے ہاتھ مضبوط کیے ہیں۔ پس ماندہ ممالک میں مغرب کے حمایت یافتہ غیر جمہوری حکمرانوں نے اپنے آقاؤں کی خوشنودی یقینی بنائے رکھنے کے لیے اپنے ہی لوگوں پر جو انسانیت سوز مظالم ڈھائے ہیں اُن سے مغرب بری الذمہ نہیں ہوسکتا۔ دنیا بھر میں جموریت کو فروغ دینے کے نام پر مغربی طاقتوں نے دراصل مطلق العنانیت کو فروغ دے کر اپنے مفادات کا تحفظ یقینی بنایا۔ اس قبیح پالیسی ہی کا یہ نتیجہ برآمد ہوا ہے کہ اب مغربی معاشرے میں بھی جمہوریت کی جڑیں کمزور پڑتی جارہی ہیں اور اس معاملے میں امریکا کا کیس بہت نمایاں ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں