یاد رکھنے کو تو خدا جانے کیا کیا ہے مگر جوکچھ یاد رہنا چاہیے تھا وہ ہم بھلا بیٹھے ہیں۔ چار دن کی زندگی میں ایسے ایسے جھمیلے ہیں کہ اُن کا ''حق‘‘ ادا کرنے کا سوچئے تو ہزار سال کی عمر بھی ناکافی لگے۔ مقدر میں کیا کیا لکھا ہے یہ تو کوئی بھی نہیں جانتا مگر ہاں! جو کچھ ہوچکا ہے اور ہو رہا ہے اُس کی بنیاد پر تھوڑا بہت اندازہ ضرور لگایا جاسکتا ہے کہ مزید جو کچھ ہونا ہے وہ بھی کئی جاں گسل مراحل سے گزارے گا۔ بات ہو رہی ہے آج کے انسان کی۔ جاں گُسل مراحل سے گزرنا گزرے ہوئے ادوار کے انسانوں کا بھی نصیب تھا مگر اب تو معاملہ یہ ہے کہ مشکلات قدم قدم پر للکارتی ہیں، دل و دماغ کو یوں جھنجھوڑتی ہیں جیسے اُنہیں اور کوئی کام ہی نہ ہو اور ہمیں بھی اِسی کام کے لیے خلق کیا گیا ہو۔
حالات موافق ہوں تو بوڑھے کو بھی جوان بنادیتے ہیں‘ ناموافق حالات کے ہاتھوں جوان بھی عمر بھر کی تھکن محسوس کرنے لگتے ہیں، قویٰ مضمحل سے ہو جاتے ہیں اور جینے کو جی نہیں چاہتا۔ آج کا انسان بھی بہت عجیب موڑ پر کھڑا ہے۔ اُس کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا کہ مزید سفر کے لیے کون سی سمت اختیار کرے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ذہن کی پیچیدگی کا گراف بلند تر ہوتا جارہا ہے۔ اُدھر حالات ہیں کہ قدم قدم پر حشر سا برپا کرنے کو بے تاب رہتے ہیں اور اِدھر انسان ہے کہ ہر الجھن کو بڑھ کر گلے لگانے کے لیے بے قرار دکھائی دیتا ہے۔ یہ مقابلہ دم بہ دم جاری ہے۔ جس نکتے پر آج کے انسان کو بہت زیادہ غور کرنا ہے وہ ہے وقت سے مطابقت پیدا کرنا۔ وقت سے مراد صرف زمانۂ حاضر نہیں بلکہ گزرے ہوئے زمانے کو بھی قدم قدم پر ذہنی ساخت کا حصہ بنائے رہنا ہے۔ کم و بیش ہر انسان کسی نہ کسی حوالے سے ماضی کا اسیر رہتا ہی ہے۔ یادیں پیچھا نہیں چھوڑتیں۔ تلخ یا ناگوار یادیں تو تکلیف دیتی ہی ہیں، خوشگوار یادیں بھی کم قیامت نہیں ڈھاتیں۔ بہت کچھ ہے جس سے انسان محروم ہوچکا ہے اور اب اُس کے بارے میں سوچ سوچ کر کسی حد تک رنجیدہ بھی رہتا ہے۔ جو کچھ جاچکا ہے اُس کے بارے میں سوچ کر کڑھنے سے تو کچھ بھی نہ ہوگا۔ ہاں! وقت نے جو کچھ ہم سے، ناگزیر فطری عمل کے نتیجے میں چھین لیا ہے، اُسے دوبارہ کسی حد تک زندگی کا حصہ بنانے پر مائل ہونے سے آج کے انسان کی تھوڑی بہت تشفّی ضرور ہوسکتی ہے۔ عقل کی مدد سے جو ترقی ممکن بنائی جاچکی ہے وہ اب عقل ہی کو دنگ کرنے پر تُلی ہوئی ہے۔ ہر دور کا انسان کچھ نہ کچھ ایسا کرنے کا خواب دیکھتا رہا ہے جو زندگی کو آسانیوں سے ہم کنار کرے۔ آج ہم جس فقید المثال مادّی ترقی کو محض دیکھ ہی نہیں رہے بلکہ بروئے کار بھی لارہے ہیں وہ ہزاروں سال سے محض خواب کی شکل میں انسان کی پلکوں پر سجی تھی۔ اِس خواب نے شرمندۂ تعبیر ہوکر آسانیوں کے پہلو بہ پہلو مزید الجھن کا بھی سامان کیا ہے۔ یہ الجھن نفسی ہے۔ ذہن کی الجھن یوں بڑھ رہی ہے کہ انسان کے لیے سنبھلنا مشکل ہوگیا ہے۔ لغزشیں ہمارے اذہان سے چمٹ کر رہ گئی ہیں۔ بہت کچھ ہے جو راستے میں کہیں رہ گیا ہے۔ مصیبت یہ ہے کہ ہم پیچھے جاکر اُس میں کچھ دوبارہ اٹھانے اور اپنے ساتھ رکھنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کر رہے۔ جو کچھ ہزاروں سال سے ہمارے ساتھ تھا اُس سے ہم نے اچانک پیچھا چھڑانے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی ہے۔ اور طُرفہ تماشا ہے کہ اب ملول بھی ہیں۔
آج کا انسان ہزاروں سال کے ثقافتی و تمدنی ورثے کو راستے میں کہیں چھوڑ دینے کے بعد کی الجھن سے دوچار ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ جو کچھ دانستہ چھوڑا گیا ہے وہ اب ذہن و دل میں ارتعاش برپا کیے ہوئے ہے مگر تدارک کے حوالے سے کچھ خاص نہیں سوچا جارہا۔ غیر متعلق معاملات کو زندگی کا جز بنانے پر توجہ دی جارہی ہے اور جن معاملات سے ہمارے وجود کی معنویت میں اضافہ ہوسکتا ہے اُن کے بارے میں سوچنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی جارہی۔ آج کا انسان زندگی کو اوّل تا آخر صرف معاش کے چاک پر گھماکر پتا نہیں کیا چیز بنانا چاہتا ہے۔ دور و نزدیک کے رشتوں کی رگوں سے اخلاص اور بے غرضی نچوڑ لی گئی ہے۔ پھوس باقی رہ گیا ہے۔ کم و بیش تمام معاملات مفاد سے شروع ہوکر مفاد پر ختم ہو رہے ہیں۔ آج کا انسان بہت کچھ حاصل کرنا چاہتا ہے، زندگی بھر تگ و دَو بھی کرتا ہے مگر جب بہت کچھ حاصل ہوجاتا ہے تو اُس سے مستفید ہونے کے بجائے مزید کے حصول کے لیے سرگرداں رہنے کو ترجیح دیتا ہے۔ عام آدمی کو کچھ معاشی تگ و دَو کے نتیجے میں جو کچھ ملتا ہے اُس سے سو گنا پانے والوں کو بھی رنجیدہ دیکھا گیا ہے۔ آسانیاں تلاش کرتے رہنے کی عادت نے بڑی مشکل پیدا کردی ہے۔ آج کی سب سے تلخ اور افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ زندگی کو آسان بنانے والی ہر چیز سے ہم نے مشکلات کشید کرنے کا ہُنر سیکھ لیا ہے۔ ''اپنی دنیا آپ پیدا کر‘‘ کے مصداق اگر الجھنیں کم محسوس ہوں تو ہم اُن کی تعداد بڑھانے یا پیچیدگی کا گراف بلند کرنے میں تساہل سے کام لیتے ہیں نہ بخل سے۔
ابھی کل تک سُکھ سے ہم کنار کرنے والے بہت سے معمولات ہماری انفرادی و اجتماعی زندگی کا حصہ تھے۔ سب کچھ معاش کی چوکھٹ پر قربان کرنے کا رواج پروان نہ چڑھا تھا۔ تب ہم معاشرت کو مساوی اہمیت دیتے تھے اور بعض معاملات میں تو معاش کا معاملہ ایک طرف رہ جاتا تھا اور معاشرت میدان مار لیتی تھی۔ بھوک اور پیاس سے بڑھ کر احساس اہم تھا اور اپنے آپ کو ہم سے اِس طور منواتا تھا کہ اپنی فکری ساخت پر فخر کرنے کو جی چاہتا تھا۔ مادّی ترقی کے ثمرات سے بہرہ مند ہونے کی دُھن میں ہم بہت کچھ داؤ پر لگا بیٹھے ہیں۔ گیا تو اور بھی بہت کچھ ہے مگر سب سے بڑا نقصان ذاتی سطح پر ہوا ہے۔ دوسروں کی بہبود کو فرسودہ سمجھتے سمجھتے انسان اپنے وجود سے بھی غداری پر تُل گیا ہے! المیہ یہ ہے کہ جو کچھ ہمیں خود غرضی جیسا دکھائی دے رہا ہے اُس میں بھی خود غرضی کم اور بے عقلی کا تناسب زیادہ ہے۔ آج کا انسان ماضی میں انتہائی وقیع سمجھے جانے والے اخلاص اور مروت پر مشتمل اعمال کو لاحاصل مشق ٹھہراکر ترک کرنے کے باوجود ایسا کچھ کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں رہا جو اُس کے وجود کی تشفی کرے، اخلاقی و روحانی سطح بلند کرنے کی راہ ہموار کرے۔ ہزاروں سال کے تہذیبی و ثقافتی ورثے اور اقدار کو لایعنی اموال سمجھ کر ترک کرنے پر بضد انسان کے پاس ایسا کچھ بھی نہیں جو زندگی کو نیا مفہوم، نئی مقصدیت عطا کرے۔ اُس نے مادّی ترقی ہی کو سب کچھ گردانتے ہوئے زندگی کے خالص روحانی اور اخلاقی پہلو کو نظر انداز کرتے چلے جانے پر کمر کَس لی ہے۔ اگر مڑ کر نہ دیکھا جائے یعنی اپنی کارکردگی کا جائزہ لے کر خامیوں اور کوتاہیوں کا اندازہ لگانے کی کوشش نہ کی جائے تو بسا اوقات معاملات کا سِرا بہت مشکل سے ہاتھ آتا ہے ؎
وہ موڑ کیا تھا، ہمیں یاد بھی نہیں اب تو
جہاں ہم اپنی ہر امید چھوڑ آئے ہیں
دورِ جدید کے تقاضے نبھانے کی دُھن میں دورِ قدیم کا پورا معاشرتی، ثقافتی، اخلاقی اور علمی ورثہ ترک یا تلف کردینا کسی بھی درجے میں دانش کا مظہر نہیں۔ ذہنی یا فکری استحکام یقینی بنائے رکھنے کے لیے لازم ہے کہ انسان ہر نئی چیز کو ناگزیر طور پر اپنانے اور ماضی کی ہر چیز کو ناگزیر طور پر مسترد کرکے ردی کی ٹوکری میں ڈالنے سے اجتناب برتے۔ انفرادی سطح پر بھی ماضی کو بالکل مسترد کردینا باطن میں خلا پیدا کرتا ہے۔ سوچا جاسکتا ہے کہ یہی روش معاشروں میں یعنی اجتماعی سطح پر اپنانے کی صورت میں کس نوعیت کی جان لیوا پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔ اپنی روایات کو بالکل ناکارہ قرار دے کر اُن سے گلو خلاصی روحانی خلا پیدا کرتی ہے۔ اس حوالے سے آج عام آدمی کی خصوصی نفسی و روحانی تربیت لازم ہے۔