قناعت ان گنت نعمتوں پر بھاری ہے۔ آج ہمارے ہی نہیں‘ دوسرے بہت سے معاشروں میں بھی قناعت پسند انسان خال خال ہیں۔ ہوس نے دلوں میں یوں گھر کرلیا ہے کہ نکلنے کا نام نہیں لے رہی۔ ویسے تو خیر ہر دور کا انسان کسی نہ کسی حوالے سے طمع کا شکار رہا ہے مگر آج کے انسان نے تو حد ہی کردی ہے۔ زندگی کے ہر پہلو کو گھما پھراکر معاشی مفادات کی چوکھٹ پر ذبح کرڈالا ہے۔ اور ذبیحہ بھی کیوں کہیے‘ جھٹکا کہیے جھٹکا! اس روش پر گامزن رہنے کا وہی نتیجہ برآمد ہوا ہے تو بالعموم برآمد ہوا کرتا ہے ... یعنی یہ کہ اب تمام ہی معاملات صرف اور صرف مفاد پرستی کے محور پر گھوم رہے ہیں۔
کیا واقعی آج کے انسان نے طمع کی حدیں پار کرلی ہیں؟ یہ سوال بھی اہم ہے مگر اہم تر سوال یہ ہے کہ کیا طمع کی بھی کوئی حد ہوا کرتی ہے؟ اہلِ نظر کہتے ہیں کہ انسان سوچنے والا حیوان ہے اس لیے کسی بھی معاملے میں حد سے گزرنے سے گریزاں رہتا ہے۔ اتنی عقل تو حیوان میں بھی پائی جاتی ہے کہ اُس مقام تک پہنچنے سے گریز کیا جائے جہاں بقا کا مسئلہ اٹھ کھڑا ہو۔ پھر انسان؟ انسان تو خالقِ کائنات کا شاہکار ہے۔ انسان ہر اعتبار سے جامع ہے۔ عقل کے اعتبار سے بھی۔ ایسے میں یہ بات بہت عجیب لگتی ہے کہ عقل سے کام لینے کی دل آویز روایت ترک کرتے ہوئے ایسی زندگی بسر کی جائے جس میں ہر طرف الجھنیں ہی الجھنیں ہوں۔
تبدیلی کے بارے میں سوچتے رہنا اور تبدیلیوں کو گلے لگانا بھی انسانی فطرت کا اہم جُز ہے۔ سوچے سمجھے بغیر ہر تبدیلی کو قبولیت کے شرف سے ہم کنار کرنے کا یہ نتیجہ برآمد ہوا ہے کہ آج کا انسان سو طرح کی پیچدگیوں سے اَٹ گیا ہے۔ قدم قدم پر الجھنیں ہیں۔ ذہن سوچتا کم اور الجھتا زیادہ ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ ذہن کو سوچنے کی عادت سے دور کرکے صرف گم تاڑے میں گم رہنے کی عادت کا اسیر بنادیا گیا ہے۔
ہمارے ماحول میں‘ معمولات میں ایسا بہت کچھ تھا جو قدم قدم پر آسانیاں پیدا کرنے کا ذریعہ تھا مگر ٹیکنالوجی کو اپنانے کی دُھن میں ہم نے ہر اُس چیز کو ترک کرنے کی ٹھان لی جو ہمیں آسانیوں سے ہم کنار رکھتی تھی۔ یوں ''در اندازی‘‘ کا سلسلہ شروع ہوا۔ جو کچھ بھی ایجاد اور دریافت ہوتا گیا وہ ہماری زندگی کا حصہ بنتا گیا۔ ایجادات کا سلسلہ ختم پر آیا تو اختراع کا بازار گرم ہوا۔ اب معاملہ یہ ہے کہ جدت و ندرت کے نام پر ستم ڈھانے کا سلسلہ جاری ہے۔ اِدھر ہم ہیں کہ زندگی کو آسان تر بنانے کے فراق میں رہتے ہیں۔ آسانیاں تو خیر کیا پیدا ہوں گی‘ الٹی مشکلات ہی بڑھتی جارہی ہیں۔ ہر شعبے میں جدت و ندرت کا بازار بے نظیر نوعیت کے جوش و خروش کے ساتھ گرم ہے۔ اچھے خاصے معاملات کو عدمِ معقولیت سے دوچار کرنے کی روش عام ہے۔ لتا منگیشکر کے گائے ہوئے ایک گانے میں یہ شعر بھی شامل تھا ؎
ابھی کل تلک تو محبت جواں تھی
ملن ہی ملن تھا‘ جدائی کہاں تھی
ہمارا بھی اب کچھ ایسا ہی حال ہے۔ معاملات جدت و ندرت کے موڑ سے ہوتے ہوئے زبردستی کی یعنی بے عقلی پر مبنی تیزی کی منزل تک آگئے ہیں۔ جو کچھ بھی بازار میں آتا ہے اُسے ہم زندگی میں لے آتے ہیں‘ معقولات و معمولات کا حصہ بنالیتے ہیں۔ بہت کچھ ہے جو ہمارے مطلب کا ہے نہ کام کا مگر پھر بھی ہمارے وجود سے چمٹ کر رہ گیا ہے۔ اب معاملہ یہ ہے ہم تو کمبل کو چھوڑنا چاہتے ہیں مگر کمبل ہمیں نہیں چھوڑ رہا!
بہت کچھ ایسا ہے جسے یاد کرکے ہم ایک گزری ہوئی دنیا کو رو سکتے ہیں اور رونا شروع بھی کردیا ہے۔ اُسے دورِ جدید کی ایجادات و اختراعات بالخصوص سیل فون سے پہلے کی دنیا کہا جاسکتا ہے۔ اور کہہ کیا سکتے ہیں‘ وہ تھی ہی سیل فون سے پہلے کی دنیا۔ ہمارے اور اُس دنیا کے درمیان یہ ' Gadget‘ ہی تو حائل ہوا جس نے ہر معاملے کو سینگوں سے پکڑ کر پلٹ اور پٹخ دیا۔ تب کم و بیش ہر معاملہ نارمل تھا۔ اُس دور میں جو لوگ انبارمل تھے وہ بھی کچھ ایسے خاص انبارمل نہ تھے۔ خیر‘ یہ احساس ہمیں اب ہو رہا ہے۔ جب سیل فون نہیں تھا تب حواس باختہ رہنے کا چلن بھی عام نہ تھا۔ ہر وقت بہت کچھ‘ بلکہ سب کچھ جاننے کا ہَوکا بھی نہ تھا۔ جو کچھ معلوم ہو پاتا تھا بس اُسی کو کافی گردانتے ہوئے سکون سے زندگی بسر کی جاتی تھی۔ سیل فون کو نیٹ ورکنگ اور کنیکٹیوٹی کا شاہکار گردانا جاتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ تب دل آپس میں یوں جُڑے رہتے تھے کہ آج تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ہر وقت کچھ نہ کچھ جانتے رہنے اور ذہن و حافظے کو مطلوب و نامطلوب ہر طرح کی معلومات کے ملغوبے میں ڈھیر میں بدلتے رہنے کا چلن عام نہ تھا بلکہ اور بھی بہت سے ہَوکے دل و جاں کو لاحق نہ تھے۔ جو کچھ میسّر تھا اُسی کو اپنی دنیا گردانتے ہوئے پورے سکون کے ساتھ جینے ہی کو سب کچھ سمجھا جاتا تھا۔ زندگی میں سادگی اور برجستگی کا پہلو ایسا نمایاں تھا کہ کسی بھی فضول رجحان کو سَر اُٹھانے کا موقع آسانی سے نہیں مل پاتا تھا۔ یہ سب کچھ زندگی کے اصل حُسن کے ذیل میں تھا۔ اب سادگی ایسا وصف ہوکر رہ گئی ہے جس کا یا تو صرف خواب دیکھا جاسکتا ہے یا پھر گزرے ہوئے ادوار میں اس وصف کا چلن یاد کرکے دل ہی دل میں رویا جاسکتا ہے۔
آج ہم نے دنیا بھر میں تیزی سے پنپنے والے بہت سے ایسے رجحانات کو اپنالیا ہے جن کی ہمیں ضرورت تھی نہ طلب۔ اب یہی دیکھیے کہ ترقی یافتہ معاشروں میں تمام معاملات کو خالص مادّہ پرستانہ میلانات کی عینک سے دیکھنے کی روش نے رشتوں کا تقدس بھی دُھندلادیا ہے۔ کوئی 500 گز کے مکان میں بھی رہتا ہے تو ماں باپ کو ''اولڈ ہاؤس‘‘ میں رکھنے کو ترجیح دیتا ہے۔ سبب اس کا یہ ہے کہ زندگی کو آزادی چاہیے اور بزرگ‘ نہ چاہتے ہوئے بھی‘ بیشتر معاملات میں ''دخل در معقولات‘‘ کے مرتکب دکھائی دیتے ہیں! نیا زمانہ ہے‘ نئی سوچ پروان چڑھی ہے تو گھر بھی پرانا نہیں رہا۔ نیو ہاؤس میں ''اولڈ پیپل‘‘ کہاں سے سماسکتے ہیں؟ سو اُن کے لیے ''اولڈ ہاؤس‘‘ ہی موزوں ٹھہرا!
جہاں طرزِ فکر و عمل مادّہ پرستی کی چوکھٹ پر قربان کی جاچکی ہے وہاں گھر کے بزرگوں کو کہیں اور رکھنے کی بات افسوس ناک ہی سہی‘ سمجھ میں آتی ہے۔ ہمارے ہاں تو ابھی دل و نظر میں بہت کچھ باقی ہے‘ پھر ہم نے بزرگوں کو بوجھ سمجھنا کیوں شروع کردیا! بزرگوں کو اہمیت دینے سے گریز کی روش یوں عام ہوئی ہے کہ کسی جواز کے بغیر اُنہیں ہم نے اپنے بیشتر معاملات سے ''دیس نکالا‘‘ دے دیا ہے۔ اُس دور کو گزرے ہوئے ابھی زیادہ مدت نہیں گزری کہ جب کسی بچے کو بھونڈی حرکت کرتا ہوا پاتے تو محلے یا علاقے کے بزرگ بھی محض ڈانٹنے تک محدود نہ رہتے تھے بلکہ ایک دو ہاتھ بھی جڑ دیتے تھے۔ آج اخلاقی پستی کا یہ حال ہے کہ باہر والے تو باہر والے ٹھہرے‘ گھر کے بزرگ بھی بچے کو ہاتھ نہیں لگاسکتے! نئی زندگی کے نام پر ہر بے ڈھنگے رجحان کو گلے لگانے کے ایسے ہی نتائج برآمد ہوا کرتے ہیں۔
بچوں کو مل کر کھیلنا کودنا اچھا لگتا ہے۔ ہم نے اُنہیں کھلونوں کی نذر کردیا ہے۔ بچوں کو چاہے جتنے کھلونے مل جائیں‘ وہ اپنے ایج گروپ والوں سے میل ملاپ کے بغیر ادھورا پن ہی محسوس کرتے ہیں۔ یہ جبلّت کا معاملہ ہے۔ کچھ بھی سیکھا اور سکھایا جاسکتا ہے مگر جبلّت کو ''اَن سیکھا‘‘ نہیں کیا جاسکتا۔
نئی زندگی کے نام پر ہم نے اپنے انفرادی و اجتماعی وجود کے روحانی و اخلاقی پہلوؤں کو یکسر نظر انداز کردیا ہے۔ یہ کمبل ہم نے اپنی مرضی سے اوڑھا ہے۔ اگر اسے اتار پھینکنا ہے تو ہمیں فیصلہ کن انداز اختیار کرنا ہوگا۔ زندگی کے ہر اہم معاملے کو مادّہ پرستی کی چوکھٹ پر قربان کرنے کی دُھن میں آج ہم صرف مال بنانے کی مشین اور ''حیوانِ صارف‘‘ کی شکل و حیثیت اختیار کرچکے ہیں۔ اچھا ہے کہ نئی زندگی کے نام پر اوڑھا ہوا تصنع اور عدمِ اخلاص کا کمبل ہم اُتار پھینکیں۔ اور اس نیک کام میں زیادہ تاخیر تباہ کن ثابت ہوگی۔