"MIK" (space) message & send to 7575

بیچ کے بے چارے

''بات تو تمہاری ٹھیک ہے مگر ...‘‘ ،''بازار میں کام کی بہت اشیا تھیں‘ لیکن ...‘‘ ،''میں نے ارادہ تو کرلیا ہے مگر ...‘‘ ،''آپ کا مشورہ اگرچہ صائب اور قابلِ عمل ہے مگر جہاں تک عمل کا تعلق ہے ...‘‘
یہ اور اسی قبیل کے دوسرے بہت سے ''مگریہ‘‘ جملے آپ کو یومیہ بنیاد پر سُننے کو ملتے ہیں اور آپ خود بھی کبھی کبھی ایسے ہی جملے ادا کرتے ہیں۔ کیوں؟ کیا محض تحت الشعوری یا لاشعوری طور پر؟ یقیناً نہیں۔ کوئی بات کبھی کبھار بے دھیانی میں کہی جاسکتی ہے۔ باقاعدگی سے کہی جانے والی بات ہمارے شعور کا حصہ ہوتی ہے۔ جن کی گفتگو کی راہ میں ہر دو چار قدم کے بعد مگر یا لیکن کی منزل آجائے وہ اٹکے ہوئے کہلاتے ہیں۔ یہ ہیں بیچ کے بے چارے یعنی فیصلہ ہی نہیں کر پاتے کہ جائیں تو جائیں کہاں۔ جون ایلیا نے ایسی ہی کسی کیفیت کے لیے کہا تھا ع
آپ‘ تم‘ وہ‘ مگر ... یہ سب کیا ہے؟
تم مِرا نام کیوں نہیں لیتیں!
انسان جب تک روئے ارض پر رہتا ہے اُسے مستقل بنیاد پر المیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک بڑا المیہ ہے ذہن کا کچھ طے نہ کر پانا‘ کسی نتیجے یا فیصلے تک نہ پہنچ پانا۔ یہ ایسا مرحلہ ہے جس سے پھنسنے والے سب کچھ ہار بیٹھتے ہیں۔ پھر اگر وہ زندہ بھی رہیں تو نیم مُردہ کے مساوی ہوتے ہیں۔ مرزا تنقید بیگ کا شمار بھی بیچ کے بے چاروں میں ہوتا ہے۔ پہلے آپ بیچ کے بے چاروں کا حقیقی مطلب سمجھ لیں۔ کسی بھی گھرانے میں سب سے چھوٹابیٹا لاڈلا ہوتا ہے۔ سب اُسے چاہتے ہیں اور ناز برداری کرتے ہیں۔ سب سے بڑا بیٹا احترام کا حامل ہوتا ہے۔ سب کا بھائی جان ہونے کی مناسبت سے وہ لاڈلا تو بہرحال نہیں ہوسکتا مگر ہاں اُسے غیر معمولی احترام ضرور ملتا ہے۔ منجھلی اولاد کا عجیب ہی معاملہ ہوتا ہے۔ وہ لاڈ پیار چاہے تو خاطر خواہ حد تک نہیں ملتا کیونکہ سارا لاڈ تو چھوٹا لے اُڑتا ہے اور اگر احترام چاہے تو اُس میں بھی لوگ ڈنڈی مارتے ہیں کہ بڑا پہلے سے موجود ہوتا ہے محترم قرار پانے کے لیے!
مرزا کا معاملہ یہ ہے کہ وہ کسی بھی معاملے میں کوئی حتمی رائے قائم کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ سوچنا تو خیر اُن کے ذہن کے بس کی بات نہیں۔ ہاں‘ مختلف حوالوں سے ابھرنے والے ہر گمان‘ تشویش اور خدشے کو وہ سوچ کا درجہ دے کر ہلکان ہوتے رہتے ہیں۔ اگر وہ خود ہلکان ہوں تو خیر کوئی بات نہیں بلکہ یہ تو بہت سوں کے لیے طمانیت کا ذریعہ ہوسکتا ہے! مسئلہ یہ ہے کہ وہ دوسروں کو بھی ہلکان کرتے رہنے پر یقین رکھتے ہیں۔ اُنہوں نے چونکہ کسی بھی معاملے میں حتمی نتیجے تک پہنچنا سیکھا ہی نہیں اور سیکھنا چاہتے بھی نہیں‘ لہٰذا جو کچھ بھی کرتے ہیں اُس سے ادھورا پن صاف جھلکتا ہے۔ اُن کے گھر کی حالت دیکھ کر بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جن کے دماغ اٹک گئے ہوں اُن کے گھروں کی کیفیت کیا ہوتی ہے۔ مرزا کا عمومی رویہ ایسا ہے کہ انسان اُن کے پاس کچھ دیر بیٹھ کر ایک زمانے کی ذہنی تھکن لے کر اٹھتا ہے۔ وہ جن باتوں کو خیالات و نظریات کہتے ہوئے دوسروں کی سماعتوں کو امتحان میں ڈالتے ہیں اُن میں اٹکاؤ صاف محسوس ہوتا ہے۔
مرزا ریٹائرڈ ''پبلک سرونٹ‘‘ ہیں اس لیے اپنے وجود سمیت کسی کی بھی خدمت پر کبھی زیادہ یقین نہیں رکھا! کچھ کرنے کے حوالے سے وہ ہمیشہ شش و پنج ہی کا شکار رہے ہیں۔ جب کبھی زندگی کے کسی دو راہے پر پہنچ کر اُنہیں کوئی راستا چُننا پڑا ہے‘ اُنہوں نے بے عملی کی سمت جانے کو ترجیح دی ہے۔ آج بھی اگر اُن کے سامنے کوئی ایسا معاملہ آجائے جو اُن سے کچھ عمل طلب کرے تو وہ بے فکر ہوکر ایک طرف ہٹ جاتے ہیں تاکہ عمل کا مرحلہ سُکون سے گزر جائے۔ مرزا کا بھی کیا قصور ہے؟ اس وقت تو پورے معاشرے کی عمومی روش یہی ہے کہ باقی تمام معاملات میں تو لوگ ''شرحِ صدر‘‘ کے مقام پر ہیں مگر جب بات فکر اور عمل میں سے کسی ایک کو چُننے کی آ جائے تو عمل کو ترک کرنے میں عافیت محسوس کی جاتی ہے۔ نفسی امور کے کسی ماہر سے بات کیجیے تو وہ کہے گا کہ لوگ اٹک کر رہ گئے ہیں۔ کیا واقعی؟ لگتا تو نہیں اس لیے کہ وہ تو بہت واضح طور پر بے عملی کو اپنائے ہوئے ہیں! عمل پسندی اور بے عملی کے حوالے سے بھی معاشرے کی تقسیم بہت واضح اور قابلِ فہم ہے۔ جنہیں موافق حالات میں زندگی بسر کرنے کا موقع ملا ہے وہ عمل کی طرف جانے میں کچھ خاص دلچسپی نہیں لیتے۔ اُن کے نزدیک ''مستحسن‘‘ یہ ہے کہ انسان کچھ کرنے سے گریز کرے اور محض پریشان ہو رہنے کو زندگی کا حق ادا کرنے کا مصداق سمجھ کر اپنا دل بہلائے۔
بیچ کے بے چارے تو ہیں عوام اور اُن میں بھی وہ غریب الغرباء جنہیں حالات کی چَکّی نے پیس کر رکھ دیا ہے۔ علامہ اقبالؔ نے کہا تھا تِرے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا نہ وہ دنیا ‘حالات کا جبر سہنے والے غریبوں کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔ اُن کے پاس اب صرف شش و پنج میں مبتلا رہنے کا آپشن رہ گیا ہے۔ بے چارے قدم قدم پر اپنے آپ سے الجھتے ہیں۔ کسی معاملے میں بہتری بھی دکھائی دیتی ہو تو یہ ستم زدگان سوچتے ہی رہ جاتے ہیں کہ کہیں اُنہیں مزید تو گھیرا نہیں جارہا۔ ایسے میں کوئی سنہرا موقع ہاتھ آبھی جائے تو اُس سے استفادہ کرنے کے معاملے میں الجھن کا شکار ہوکر یہ اپنے لیے کوئی بہتری پیدا نہیں کر پاتے۔ جو ہمیں نصیب ہوا ہے وہ زمانہ ہے ہی کچھ ایسا کہ ذہن قدم قدم پر الجھنے سے بچنے کی کوشش میں مزید الجھتا جاتا ہے۔ انسان پر ایسا وقت پہلے کبھی نہیں آیا کہ جب جینا بھی سیکھنے کا معاملہ ٹھہرا ہو۔ ہر شعبے کی فقید المثال پیش رفت نے زندگی بسر کرنے کو بھی فن میں تبدیل کردیا ہے۔ اب اگر متوازن زندگی بسر کرنا ہو تو ماہرین موجود ہیں‘ اُن کی آراء سے استفادہ کیجیے‘ دن رات ایک کرکے کسی منطقی نتیجے تک پہنچنے کی کوشش کیجیے تاکہ زندگی کے سَر سے ہر غیر ضروری بوجھ اُتارا جاسکے۔
ہزاروں سال کا سرمایۂ دانش اپنے تمام ممکنہ منطقی نتائج کا پوٹلا ہمارے سامنے کھول بیٹھا ہے۔ تجسّس کی بھوک مٹانے کے لیے دستر خوان پر اتنے ''کھابے‘‘ چُن دیئے گئے ہیں کہ ہر بھوکا پریشان ہے کہ کھاکر بھوک مٹائے یا رنگ و خوشبو ہی میں گم ہوکر رہ جائے ؎
دعا بہار کی مانگی تو اتنے پھول کھلے
کہیں جگہ نہ رہی میرے آشیانے کو
اندھیرے پریشانی سے دوچار کیے رہتے تھے۔ خواہش تھی کہ روشنی ہو مگر اتنی روشنی کب چاہی گئی تھی کہ آنکھیں خیرہ ہوئی جاتی ہیں اور سُلجھن تو رہی ایک طرف‘ الٹی الجھن ہی بڑھتی جاتی ہے ؎
یہ میرے ساتھ کیسی روشنی ہے؟
کہ مجھ سے راستہ دیکھا نہ جائے!
یہ سب اتنا حیران کن ہے کہ انسان بہت کچھ سمجھنے کے بعد بھی ایسا محسوس کرتا ہے جیسے کوئی بھی بات سمجھ میں نہیں آئی۔ وقت نے بیچ کے بے چاروں کی تعداد خطرناک حد تک بڑھادی ہے۔ ایک دنیا ہے کہ الجھ کر رہ گئی ہے۔ ماحول میں متضاد معاملات اتنے زیادہ ہیں کہ ذہن کا بار بار‘ قدم قدم پر الجھ جانا افسوس ناک ضرور ہے‘ حیرت انگیز ہرگز نہیں۔
مرزا کا ہمیشہ یہ مشورہ رہا ہے کہ سوچنے کی بیماری کا علاج کرائیے تو زندگی سکون سے گزرے گی۔ کبھی کبھی ہمیں بھی شش و پنج کی کیفیت سے نجات کے لیے بے فِکری کی راہ ہی درست محسوس ہوتی ہے مگر جب مرزا کے ستائے ہوؤں کو دیکھتے ہیں تو کچھ اور سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ راستے میں اٹکنے سے بچنے کے لیے مرزا فکر و عمل کی راہ سے گزرتے ہی نہیں۔ مانا کہ ایسا کرنے سے اُن کی جان تو الجھنوں سے چھوٹ جاتی ہے مگر اُن کا ''نہ کِیا‘‘ دوسروں کو تو بھگتنا ہی پڑتا ہے! جو بھی بیچ کا بے چارہ بننے سے بچنے کی کوشش میں اپنے حصے کے فکر و عمل کی سوغات دوسروں کے کھاتے میں ڈالتا ہے وہ اسی طور دوسروں کیلئے پریشانی کا سامان کرتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں