جوزف بائیڈن کو دُہرے چیلنج کا سامنا ہے۔ ایک طرف تو عمر ہے یعنی وہ 78 سال کے ہیں۔ اِتنی بڑی عمر میں دنیا کی واحد سپر پاور کا صدر منتخب ہونا اعزاز کی بات تو ہے ہی مگر ساتھ ہی ساتھ کڑی آزمائش بھی ہے۔ یہ منصب تو بھری جوانی میں بھی انسان کو شدید پریشانی سے دوچار کرتا ہے۔ ولیم جیفرسن کلنٹن اور جارج واکر بش کو بھری جوانی میں امریکی صدر کے منصب پر فائز ہونے کا موقع ملا تھا اور اُنہوں نے بعد میں بتایا کہ یہ ذمہ داری ایسی کڑی آزمائش ہے کہ انسان کو نچوڑ لیتی ہے۔ بارک اوباما بھی ڈھلتے عہدِ شباب ہی میں امریکا کے صدر بنے اور دو بار صدر کی میعاد پوری کی۔ اُن سے پوچھئے تو وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ امریکی صدر بننا پورے وجود کی آزمائش سے مربوط و مشروط ہے۔ دوسری طرف صدر جو بائیڈن کو ڈونلڈ ٹرمپ کا پھیلایا ہوا کچرا سمیٹ کر ٹھکانے لگانا ہے۔ ٹرمپ کا دور ایک بھیانک خواب تھا۔ امریکیوں کی واضح اکثریت وہی فرحت محسوس کر رہی ہے جو کسی بھیانک خواب کے دیکھنے کے بعد آنکھیں کھلنے پر محسوس ہوا کرتی ہے۔ ٹرمپ نے سبھی کچھ الٹ، پلٹ دیا۔ جوبائیڈن اب سپر پاور کے صدر ہیں اور ایک دنیا اُن کی طرف کسی اور خواہش کے ساتھ دیکھ رہی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا کو کسی اور ہی راستے پر ڈال دیا تھا۔ ریپبلکن پارٹی انتہائی دائیں بازو کے نظریات کی حامل ہے۔ آج کی سیاسی زبان میں اِسے رجعت پسندی کہیے۔ ڈیموکریٹس روایتی طور پر لبرل ہیں۔ ٹرمپ نے سب سے پہلے ''سب سے پہلے امریکا‘‘ کا نعرہ بلند کیا۔ مقصود یہ تھا کہ امریکا کو ہر حال میں اپنے مفادات سے غرض رکھنی چاہیے۔ ٹرمپ دراصل دنیا بھر میں امریکی عسکری مہم جُوئی کا گراف نیچے لانا چاہتے تھے۔ اس کا سبب یہ تھا کہ ضمیر جاگ اٹھا تھا! امریکا مشکلات سے دوچار ہونے کے باوجود اب تک سپر پاور ہے۔ ایسے میں اُس سے یہ توقع رکھنا عبث ہے کہ ضمیر جاگے گا اور دنیا کی بھلائی کا کچھ خیال آئے گا۔ اور وہ بھی انتہا پسند قیادت سے؟ دنیا بھر میں امریکا کی عسکری مہم جُوئی نے جو کچھ کیا اُس کا تقاضا ہے کہ اب برباد خطوں کی بھلائی پر بھی توجہ دی جائے۔ ٹرمپ اس کے لیے تو تیار نہ ہوئے، ہاں! امریکی فوج پر سے دباؤ کم کرنے کا خیال انہیں ضرور آیا۔ بات کچھ یوں ہے کہ اس وقت امریکی فوج over-stretched ہے۔ جہاں کچھ خاص ضرورت نہیں تھی وہاں بھی امریکا نے محاذ کھڑا کر رکھا ہے۔ یہ سب کچھ ترک کرنے کی ضرورت ہے۔ دنیا کا شکوہ یہ ہے کہ امریکا نے عسکری مہم جُوئی کے ذریعے جو خرابیاں پیدا کیں اُنہیں دور کرنے پر توجہ دینے کے بجائے بھاگ نکلنے کو ترجیح دی جارہی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے نسل پرستی کو بھی ہوا دی۔ سفید فام امریکی محسوس کر رہے تھے کہ اُن کی پوزیشن کمزور پڑتی جارہی ہے۔ ایسا ہے بھی۔ دیگر نسلوں کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ امریکا میں غلامی کی بھی خاصی بھیانک اور شرم ناک تاریخ رہی ہے۔ سفید فام امریکیوں نے سیاہ فام نسل کے لوگوں پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے اور یہ کوئی پُرانی بات نہیں کہ حافظے کی دیوار سے مٹ جائے۔ سفید فام امریکی اس بات کا برملا اعتراف کریں یا نہ کریں‘ حقیقت یہ ہے کہ وہ اُس دن سے ڈرتے ہیں جب دیگر نسلوں کے لوگ سیاہ فام امریکیوں سے مل کر اُنہیں شدید مشکلات سے دوچار کریں! سفید فام امریکیوں کے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے نام پر ٹرمپ نے جو اقدامات کیے وہ بہت حد تک بے ذہنی اور بے عقلی کا مظہر تھے۔ گویا ع
پاؤں رکھتا ہوں اور کہیں پڑتا ہے
والی کیفیت تھی۔ ٹرمپ نے سفید فام امریکیوں کی برتری یقینی بنائے رکھنے کے نام پر جو کچھ کیا اُس نے امریکا میں سماجی تانے بانے کو داؤ پر لگادیا۔ امریکا بھر میں سیاہ فام بپھرے ہوئے ہیں۔ نسلی منافرت پر مبنی واقعات کی تعداد اور ''فریکوئنسی‘‘ میں تیزی سے اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ کسی معمولی سے واقعے کو بھی زور پکڑتے، بڑی خرابی میں تبدیل ہوتے دیر نہیں لگتی۔ چین اور چند دوسری ابھرتی ہوئی قوتوں کے ہاتھوں امریکا کو خاصی توانا مسابقت کا سامنا ہے۔ چند ایک شعبوں میں امریکا کی برتری سلامت ہے مگر اس کے باوجود یہ نہیں کہا جاسکتا کہ امریکا ہر اعتبار سے اتنا طاقتور ہے کہ پوری دنیا کو اپنی مرضی کے مطابق چلاسکے۔ تاریخ کا ہر سنجیدہ طالبعلم اچھی طرح جانتا ہے کہ مختلف ادوار کی سپر پاورز اپنے نقطۂ عروج کو چھونے کے بعد جب نیچے آتی ہیں تو کچھ مدت تک تو کسی کو کچھ اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ کوئی خرابی ہے۔ پھر سب کچھ اچانک ڈھے جاتا ہے۔ جب مسلمانوں نے قوت پکڑی تھی تب روم اور فارس (ایران) کو سپر پاور کا درجہ حاصل تھا۔ اِن کے سامنے کوئی ٹک نہیں پاتا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ صدیوں تک کوئی بڑی اور فیصلہ کن نوعیت کی تبدیلی رونما نہ ہوگی۔ مگر پھر کیا ہوا؟ صحرائے عرب کے بوریا نشینوں نے اُس وقت کی دونوں سپر پاورز کو پچھاڑ دیا۔ اطلاعات کی بروقت رسائی کا معقول نظام نہ ہونے کے باعث باقی دنیا کو تو بہت بعد میں معلوم ہو پایا کہ ہوا کیا ہے۔ کوئی سوچ بھی سکتا تھا کہ 313 کے عدد سے شروع ہونے والا لشکر محض اٹھارہ بیس سال کی مدت میں روم اور فارس کی سلطنتوں کو پچھاڑ دے گا؟ جب نبی کریمﷺ نے عہدِ اول کے مظلوم، ستم رسیدہ مسلمانوں کو روم اور فارس فتح کرنے کی خوشخبری دی تھی تب مکہ مکرمہ کے مشرکین نے جی بھرکے قہقہے لگائے تھے اور کمزور بے بس مسلمانوں کو خوب ہدفِ استہزا بنایا تھا۔ جو کچھ اللہ کے رسولﷺ نے کہا تھا‘ وہ ہوکر رہا۔ دنیا نے عددی اعتبار سے کمزور مسلم لشکروں کے ہاتھوں روم اور فارس کی افواج کو خاک چاٹتے دیکھا۔ محسوس ہوتا ہے کہ امریکا کے لیے بھی فیصلے کی گھڑی آن پہنچی ہے۔ جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں وہ بہت خوش نما ہے مگر قالین کی نیچے جو کچرا دبا ہوا ہے اُس تک کم ہی لوگوں کی نظر پہنچ رہی ہے۔ واشنگٹن کے پالیسی میکرز کو تمام معاملات کا بخوبی اندازہ ہے۔ امریکی عوام بہت کچھ نہیں جانتے اور اِسی لیے اُن کی طرزِ فکر و عمل میں اب تک پیچیدگیاں پائی جاتی ہیں۔
امریکا کے لیے عالمی سطح پر معاملات پہلے جیسے نہیں رہے۔ کمزوریاں نمایاں ہوتی جارہی ہیں اور نمایان ہوتی ہوئی کمزوریاں مزید الجھنیں پیدا کر رہی ہیں۔ معاشی اور مالیاتی شعبے میں مسابقت بڑھ رہی ہے۔ عسکری سطح پر بھی مسابقت کم نہیں۔ افرادی قوت کا مسئلہ بھی اپنی جگہ ہے۔ جدید علوم و فنون میں پیش رفت کا معاملہ بھی محض امریکی برتری سے عبارت نہیں رہا۔ جوزف بائیڈن کے سامنے سب سے بڑا چیلنج امریکا کو حالات کی نزاکت کے سمجھنے اور اُس سے مطابقت رکھنے والی طرزِ فکر و عمل اپنانے کے قابل بنانے کا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے جو کچھ الٹا، پلٹا ہے اُسے سیدھا کرنے میں اُن کا بیشتر وقت لگ جائے گا۔ سوال باقی دنیا پر گرفت مضبوط بنانے سے کہیں بڑھ کر اب اپنے ہی معاشرے میں رونما ہونے والی تقسیم کا دائرہ محدود رکھنے کا ہے۔ کل تک کہا جاسکتا تھا کہ ایشیا ابھر رہا ہے۔ اب ایشیا ابھر چکا ہے۔ روس بھی اب ایشیا ہی کی طرف جھکے رہنے کو ترجیح دے رہا ہے۔ ترکی، ملائیشیا، انڈونیشیا اور پاکستان بھی کچھ کرنے کے موڈ میں دکھائی دیتے ہیں۔ بھارت، غیر منطقی طور پر، امریکا اور یورپ کی طرف جھکے رہنے سے بہت حد تک مجتنب ہو جائے تو رہی سہی کسر پوری ہو جائے۔
صدر بائیڈن کے کاندھوں پر بوجھ کا بڑھنا انوکھی بات نہیں۔ انہیں کامیاب بیلنسنگ ایکٹ کا مظاہرہ کرنا ہے۔ اچھا ہے کہ اب دو یا تین ادوار تک امریکی نظم و نسق ڈیموکریٹس کے ہاتھ میں رہے۔ نیو کانز یعنی انتہائی دائیں بازو کی سوچ رکھنے والے رجعت پسند ریپبلکنز نے ریاست کو داؤ پر لگادیا ہے۔ یہ عمل سست پڑنا ہی چاہیے۔ امریکا نے دور تک پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔ اُس کا اچانک کمزور پڑنا پوری دنیا کو شدید عدم توازن سے دوچار کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔