سیاست کا اب تک وہی حال ہے جو باقی ملک کا ہے۔ دعوے ہیں یا پھر وعدے۔ ملک و قوم کے لیے کچھ کرنے کے عزم کا معاملہ بڑھک سے شروع ہوکر بڑھک ہی پر ختم ہو جاتا ہے۔ اہلِ سیاست کی بڑھکوں پر جس نے یقین کیا وہ بالآخر مایوسی کے گڑھے میں گرا۔ جمہوریت بہت سے معاشروں کو اب تک راس نہیں آئی۔ پاکستان بھی اُنہی میں سے ہے۔ حکومتی نظام کے حوالے سے عمومی طرزِ فکر میں جو کجی پائی جاتی ہے اُسے دیکھ کر ہر اُس آدمی کا دل بیٹھ بیٹھ جاتا ہے جو ملک و قوم کی سلامتی و ترقی کے حوالے سے تھوڑا بہت پُرامید رہنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ قصہ اُن کا ہے جو حالات کے جبر کا سامنا کرتے ہوئے کسی نہ کسی حد تک اُمید کا دامن تھامے رہنے کو غنیمت جانتے ہیں۔ عام آدمی کا تو یہ حال ہے کہ کب کا وحشت و مایوسی کی چادر تان کر خراٹے لے رہا ہے۔ ؎
جب توقع ہی اٹھ گئی غالبؔ
کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی
ہم بھی بہت عجیب ہیں۔ جن سے بار بار دھوکا کھایا ہے اُنہی کے ہاتھوں مزید دھوکا کھانے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ اور سچ تو یہ ہے کہ ایک دوسرے کو دھوکا دیتے دیتے ہم اپنے آپ کو چھلنے کے فن میں بھی طاق ہوچکے ہیں۔ ملک کو چلانے سے متعلق معاملات جن کے ہاتھوں میں ہیں وہ ہمارے لیے چاہے کچھ بھی سوچیں، مسئلہ یہ ہے کہ ہم خود بھی تو ''ہر گھڑی تیار کامران ہیں ہم‘‘ کی عملی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ پی ٹی آئی کی حکومت کو ڈھائی سال ہونے کو آئے ہیں مگر اب تک ایسا لگ رہا ہے جیسے عام انتخابات کل ہی ہوئے ہیں اور ہارنے والے دھاندلی کا الزام عائد کرکے اپنے لیے کوئی گنجائش پیدا کرنے کے فراق میں ہیں۔ عمران خان کے حصے میں بھی وہی حالات آئے ہیں جو عام انتخابات کے نتیجے میں تشکیل پانے والی حکومتوں کے مقدر میں لکھے جاتے رہے ہیں۔ اپوزیشن نے روزِ اول سے طے کر رکھا تھا کہ چاہے کچھ ہو جائے، مان کر نہیں دینا۔ ایسا ہو بھی کیسے سکتا ہے جب ایجنڈا ہی یہ ہو کہ کسی کو اپنی کوتاہی تسلیم نہیں کرنی؟ معاملات انکار سے شروع ہوکر انکار پر ختم ہوتے ہیں۔ قومی اسمبلی یا کسی صوبائی اسمبلی کے کسی حلقے میں ضمنی انتخاب ہو تو میڈیا کے ذریعے اُسے قومی سطح کا ریفرنڈم قرار دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اپوزیشن اس وقت پوری طرح میدان میں ہے۔ کسی حد تک کہا جاسکتا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت اپنی بوئی ہوئی فصل ہی کاٹ رہی ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ ایوانِ حکومت کے مکینوں کا حافظہ بھی اِتنا کمزور تو نہ ہوگا کہ انہیں چار پانچ سال پہلے کی باتیں یاد نہ ہوں۔ 2013 کے عام انتخابات کے بعد پاکستان تحریک انصاف نے بھی وہی روش اختیار کی تھی جس پر اِس وقت اپوزیشن گامزن ہے۔
قوم حیران و پریشان یہ کھیل دیکھ رہی ہے۔ عام آدمی کے مسائل حل ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ مسائل برقرار کیوں نہ رہیں؟ وہ خود بخود حل ہوتے کب ہیں؟ کیے جاتے ہیں۔ یہ کوئی خود کار عمل تھوڑی ہے۔ جنہیں ملک و قوم کے مسائل حل کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے وہ سنجیدہ ہوں تو بات بنے۔ اُنہیں اب تک اپنی پوزیشن برقرار رکھنے کی جدوجہد سے نجات نہیں مل سکی۔ جنہیں مسندِ اقتدار پر بٹھایا گیا کہ کچھ کریں گے، قوم کو سکون کا سانس لینے کا موقع فراہم کریں گے وہ اقتدار کے سنگھاسن پر اپنا وجود برقرار رکھنے کی تگ و دو سے پنڈ چھڑانے میں ہی کامیاب نہیں ہو پارہے۔تحریک انصاف کی حکومت کو بعض معاملات میں تھوڑے سے گریس مارکس بھی دیے جاسکتے ہیں مگر وہ کسی بھی حوالے سے کلین چٹ آسانی سے نہیں پاسکتی۔ عمران خان کو سبھی کچھ تو معلوم تھا پھر بھی انہوں نے دعوے کیے کہ ملک و قوم کی تقدیر بدل دیں گے۔ اقتدار سے قبل اُن کا بیانیہ وعدوں اور دعووں سے مزین تھا۔ وہ غالباً اس گمان میں مبتلا تھے کہ قوم کے دیرینہ مسائل راتوں حل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ یہ تو نہیں ہوسکا، ہاں اتنا ضرور ہوا ہے کہ بیک وقت کئی ٹوکرے الٹنے سے بہت سا گند حکومت پر آ گرا!
اگر ہم کرپشن کے خاتمے کے حوالے سے حکومت کی نیت کو نمایاں حد تک درست مان بھی لیں اور یہ تسلیم کرلیں کہ وہ ملک و قوم کا بھلا چاہتی ہے تب بھی یہ حقیقت تو نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ نہایت تیزی سے بہت کچھ درست کرنے کی کوشش میں وہ کام کو مزید بگاڑ بیٹھی ہے۔ بلا خوفِ تردید کہا جاسکتا ہے کہ موجودہ حکومت قیادت اور نظم و نسق کا فرق نہیں جانتی! زمینی حقیقتوں کو ذہن نشین رکھے بغیر زبان سے کچھ نکالا جائے تو اُس پر مکمل عمل کیا ہی نہیں جاسکتا۔
ہر صورتِ حال ہم سے دانش کا تقاضا کرتی ہے۔ حکومت کے لیے تو یہ معاملہ اور بھی سنگین ہو جاتا ہے۔ سنجیدگی بھی شرط ہے اور بُرد باری بھی۔ قیادت کا فریضہ ادا کرنے کے نام پر فضا میں تیز نہیں چلائے جاسکتے۔ جو ایسا کرتا ہے وہ بالعموم ناکامی سے دوچار ہوتا ہے۔ موجودہ معاملے میں بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔ پی ٹی آئی حکومت کو اقتدار کے ایوان میں اپنی باقی میعاد کے دوران جو کچھ کرنا ہے اُس کے لیے زمینی حقیقتوں کو ذہن نشین رکھنا لازم ہے۔ جو کچھ سامنے ہے اُسے نظر انداز کرکے اپنی مرضی یا خواہش کے مطابق فیصلے کرنے سے کوئی ایک مسئلہ بھی ڈھنگ سے حل نہیں کیا جاسکے گا۔ اہلِ وطن منتظر ہیں۔ حزبِ اقتدار کے لوگ ہوں یا حزبِ اختلاف کے، دونوں ہی فضا میں تیر چلا رہے ہیں اور زمین سے بہت بلند ہوکر وہ باتیں کر رہے ہیں جن کا اہلِ زمین سے کوئی تعلق نہیں۔ فریقین وہ تمام مسائل حل کرنے میں مصروف ہیں جن کے حل کا عوام سے کوئی بنیادی تعلق نہیں۔ عوام کہاں بہت کچھ مانگ رہے ہیں؟ اُنہیں تو پینے کا صاف پانی درکار ہے، کھانے پینے کی اشیا صاف ستھری اور سستی ہونی چاہئیں، صحت کی بنیادی سہولتیں مل جائیں، تعلیم عامہ کے حوالے سے ابتدائی سطح کے انتظامات درست ہوں، بس! اگر بنیادی مسائل حل ہوجائیں تو لوگ باقی کام خود کرلیں گے۔ معاش کے ذرائع لوگ خود تلاش کرلیں گے، ریاستی مشینری صرف اتنا کرے کہ معاشی سرگرمیاں بطریقِ احسن جاری رکھنا ممکن ہو۔
حزبِ اختلاف نچلی بیٹھنے کو تیار نہیں، حکومت مخالف تحریک کے نام پر اکھاڑ پچھاڑ کے لیے کوشاں ہے۔ سینیٹ الیکشن بھی خوب وقت پر آئے ہیں گویا شکر خوروں کو شکر مل گئی۔ فریقین اب نیا ملاکھڑا منعقد کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ ایک بار پھر ''گھوڑوں‘‘ کی خرید و فروخت کا بازار گرم ہے۔ عوام دم بخود ہوکر یہ تماشا دیکھ رہے ہیں۔ سوشل میڈیا کا دور ہے۔ بہت کچھ بہت تیزی سے عام ہو جاتا ہے۔ اعلیٰ ترین سطح پر برملا اعتراف کیا جاچکا ہے کہ ووٹ خریدے اور بیچے جارہے ہیں۔ عوام کی بہبود سے جن باتوں کا کوئی تعلق نہیں وہ اب ترک کی جانی چاہئیں۔ لوگ اپنے بنیادی مسائل کا حل چاہتے ہیں تاکہ سب سے نچلی سطح ہی پر سہی، جسم و جاں کا رشتہ ڈھنگ سے برقرار تو رکھ سکیں۔ کیا عوام کا اِتنا بھی حق نہیں؟ جنہیں اللہ نے قوم کے وسائل پر متصرف بناکر ریاستی نظم و نسق کی ذمہ داری سونپی ہے اُن کا معیار کچھ تو بلند ہونا چاہیے۔ لایعنی باتوں سے کیا حاصل؟ بات وہ کی جائے جو قوم کے مزاج سے میل کھائے، اُن کے لیے سکون کا سامان کرے۔ قوم کی استدعا ہے ؎
تم آسماں کی بلندی سے جلد لوٹ آنا
ہمیں زمیں کے مسائل پہ بات کرنی ہے
دیکھیں، قوم کی یہ استدعا کب تک شرفِ قبول و احترام پانے میں کامیاب ہو پاتی ہے۔