جدید ترین ٹیکنالوجی کے کسی بھی مظہر کو لیجیے، ہم شدید بدہضمی کے مرحلے میں اٹک کر رہ گئے ہیں۔ جو کچھ بھی آرہا ہے، سوچے سمجھے اور ضرورت محسوس کیے بغیر ہڑپ کیا جارہا ہے۔ جن معاملات کا ہماری زندگی سے بہت دور کا بھی کوئی تعلق نہ بنتا ہو وہ اب ہمارے معمولات کا حصہ ہوکر رہ گئے ہیں۔ بعض غیر متعلق معاملات ہماری زندگی کا اِس طور حصہ بنے ہوئے ہیں کہ اب اُن سے پنڈ چھڑانا اپنے وجود کے خلاف میدانِ جنگ میں اُترنے جیسا ہوگیا ہے۔ بہت کچھ تھا جو کجی کی نذر ہوچلا تھا اور معاملہ ہاتھوں سے نکلتا ہی جارہا تھا مگر سوشل میڈیا کے پھیلائونے تو آن کی آن میں سبھی کچھ پلٹ کر رکھ دیا، ہر کسر پوری کردی۔ سمارٹ فون کے ذریعے دوسروں کے بھیجے ہوئے آئٹم وصول کرنا اور اپنے آئٹم بھیجنا ایسا آسان ہوا ہے کہ اب کسی کا اپنے آپ پر کچھ زیادہ اختیار نہیں رہا۔ لوگ ہر چیز میں‘ ہر بات میں صرف اور صرف تماشا تلاش کر رہے ہیں۔ دل بستگی کا سامان کرنے کو ہر معاملے پر فوقیت حاصل ہے۔ حد یہ ہے کہ خالص سنجیدگی کی حامل دینی و اخلاقی معلومات اور اقوال کو بھی لوگ تفنّنِ طبع کے لیے استعمال کرنے لگے ہیں۔ مقصود صرف یہ ہے کہ کچھ ایسا پڑھنے، پڑھانے کو مل جائے جو گھڑی بھر کے لیے ہنسنے بلکہ ''کھی کھی‘‘ کرنے کا موقع فراہم کردے۔ گویا ''ہاہا ہی ہی‘‘ وہ چوکھٹ ہے جس پر ہم قربان ہوئے جارہے ہیں۔
سوشل میڈیا کی پوسٹنگز نے زندگی کے ہر اہم اور سنجیدہ معاملے کو تفنّنِ طبع کا ذریعہ بنا ڈالا ہے۔ جو چیز جتنی بے ڈھنگی ہو وہ اُتنی ہی تیزی سے وائرل ہوتی ہے۔ جو کچھ آتا ہے اُسے آگے بڑھاتے وقت سوچا بھی نہیں جاتا کہ ایسا کرنے سے ہمارے اعمال میں کھاتے میں کیا لکھا جائے گا۔ غرض صرف اس بات سے ہے کہ کسی کو ہنسایا جائے، قہقہہ لگانے کا موقع فراہم کیا جائے۔ سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ موصول ہوئی کہ لوگ گفتگو کو طُول دے کر ہمارے دکھ تلاش نہیں کرتے بلکہ اُنہیں اُس تماشے کی تلاش ہوتی ہے جو ہمارے ساتھ ہوا ہو! غور کیجیے تو بہت حد تک کیس یہی ہے۔ بہت سے جرائم کی وڈیوز دیکھ کر لوگ عبرت نہیں پکڑتے بلکہ محض دل کے بہلانے کا سامان کرتے ہیں۔ اگر کسی ظالم عورت نے کسی خطا کی پاداش میں اپنی بارہ تیرہ سال کی نوکرانی کے جسم کاکوئی حصہ گرم استری سے داغ دیا ہو تو لوگ ایسی وڈیوز کو بھی درجن بار دیکھتے ہیں، گویا دل بہلارہے ہوں۔ سڑک پر موٹر سائیکل کے پھسلنے، کسی کے ہاتھ سے سامان گرنے، کسی تیز رفتار گاڑی کے کسی اور گاڑی میں جا گھسنے کی وڈیوز بھی بار بار ایسی دلچسپی سے دیکھی جاتی ہیں کہ دیکھ کر صاف اندازہ ہوتا ہے کہ عبرت نہیں پکڑی جارہی بلکہ صرف لذت حاصل کی جا رہی ہے، حِظ اٹھایا جارہا ہے۔
سوشل میڈیا ہر اُس انسان کے لیے ایک عظیم نعمت ہے جو کچھ سیکھنا چاہتا ہے، انفرادی سطح پر علم و عمل کا درجہ بلند کرنا چاہتا ہے۔ انٹرنیٹ نے ہمارے تصرف و اختیار کے لیے ایک بڑا چیلنج کھڑا کردیا ہے۔ اِس سمندر میں ہمارے مطلب کے موتی بھی ہیں، اگر ہم تلاش کریں۔ لوگ اس سمندر کی سیر بھی کرتے ہیں، اس میں پائی جانے والی شدید مُضر اشیا سے استفادے کے نام پر اپنے وقت کے ساتھ ساتھ صلاحیت و سکت کو بھی ضائع کرتے ہیں۔ اور بالآخر اِس کی نذر ہوکر رہ جاتے ہیں۔ جو پوری شعوری کوشش کے ساتھ حواس قابو میں رکھتے ہیں وہ سوشل میڈیا کی مدد سے اپنے وجود کا درجہ بلند کرتے ہیں، انفرادی سطح پر علم و فن کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کے لیے بھی آسانی یقینی بناتے ہیں۔
سوشل میڈیا سے حِظ اٹھانے کی عادت ایسی پختہ ہوچلی ہے کہ اب کسی بھی بے ڈھنگی اور لاحاصل سی وڈیو کو وائرل ہوتے دیر نہیں لگتی۔ پچیس تیس سیکنڈز کے نامعقول سے وڈیو کلپ کو ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک قبول و عرفِ عام کی سند پانے کے لیے محض ڈیڑھ‘ دو دن درکار ہوتے ہیں۔ دو تین دن میں لاکھوں افراد وہ وڈیوز دیکھ ہی نہیں لیتے بلکہ انتہا یہ ہے کہ اُسے پسند بھی کرچکے ہوتے ہیں۔ چھچھور پن کے مظاہرے پر مبنی کسی بھی وڈیو کو پسند کرتے وقت ذرا بھی نہیں سوچا جاتا کہ ہم کس چیز کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے گروپ بن چکے ہیں جو باقاعدگی سے لایعنی قسم کے وڈیو کلپس تیار کرکے سوشل میڈیا پر اَپ لوڈ کرکے قوم کو آزماتے ہیں۔ جو جس قدر بے ڈھنگا پن دکھاتا ہے اُسے اُسی قدر ہِٹس ملتے ہیں۔ کوئی بھی سیدھی بات منہ ٹیڑھا کرکے کہی جائے تو راتوں رات لاکھوں افراد کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ کسی بھی بڑے شاعر کے شعر کو بگاڑ کر ہدفِ استہزا بنائیے تو پسند کرنے والے لاکھوں میں دستیاب ہوتے ہیں۔ خالص اخلاقی تعلیمات کو بھی سماجی معاملات بالخصوص میاں بیوی کے عمومی تعلقات اور چپقلش کے تناظر میں بگاڑ کر بہ اندازِ تمسخر پیش کیجیے تو ہاہا ہی ہی کرنے والے فوراً سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے ''لائک‘‘ کرتے ہیں۔ گویا ہر ''نالائق‘‘ چیز کو لائک کرنے والے نالائق خاصی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔
سوشل میڈیا کی طاقت کو مثبت مقاصد کے لیے بروئے کار لانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس حوالے سے بنیادی کردار والدین اور گھر یا خاندان کے دیگر بزرگوں کو ادا کرنا ہے۔ چھوٹی عمر سے سکھایا جائے کہ اچھی بات ہی آگے بڑھانے کے لیے ہوتی ہے تو کوئی سبب نہیں کہ معصوم اذہان پر اثر نہ ہو اور وہ بامقصد زندگی بسر کرنے کی طرف مائل نہ ہوں۔ اس کے لیے لازم ہے کہ پہلے بڑے اپنے اطوار درست کریں۔ اگر بڑوں کی فکری ساخت میں کجی پائی جائے تو چھوٹوں کے اذہان کو ٹیڑھا ہونے سے روکنا ممکن نہیں۔ بچوں کو بتانا ہوگا کہ ہر مثبت قدر ہی اس قابل ہے کہ اُس کا احترام کیا جائے، آگے بڑھایا جائے۔ اب یہی دیکھیے کہ یکسر بے معنی قسم کے وڈیو کلپس بناکر مقبولیت پانے کا بخار تو خوب چڑھا ہوا ہے مگر کبھی اُن لوگوں کے بارے میں کچھ سوچنے اور کرنے کی زحمت گوارا کی جاتی ہے جن کی زندگی دوسروں کے مسائل حل کرتے، معاملات درست کرتے گزرتی ہے؟ کیا ملک بھر میں ایسے اساتذہ نہیں پائے جاتے جو بظاہر ذاتی غرض کو ایک طرف ہٹاکر نئی نسل کی رہنمائی کرتے ہوں، اُنہیں امتحانات کی بہتری تیاری میں مدد فراہم کرتے ہوں؟ کسی بھی نوجوان کو بہتر زندگی کے لیے تیار کرنے میں کلیدی کردار اساتذہ ادا کرتے ہیں۔ اُن کی خدمات کو آگے بڑھ کر، بڑھا چڑھاکر بیان کرنے کی ضرورت ہے تاکہ دوسروں کو بھی قوم کی خدمت کرنے کی تحریک ملے۔
کوئی بھی نعمت اس لیے نہیں ہوتی کہ صرف آپ متمتع ہوں۔ مستفیض ہونے اور حِظ اٹھانے کے ساتھ ساتھ آپ کو ہر نعمت کی مثبت تاثیر کا کچھ حصہ دوسروں تک بھی پہنچانا ہوتا ہے۔ ایسا اُسی وقت ہوسکتا ہے جب ذہن کو تربیت دی گئی ہو، طبیعت کو رام کیا گیا ہو۔ یہ سب کچھ راتوں رات نہیں ہوتا۔ تعمیری انداز سے سوچنا اور دوسروں کے لیے کچھ کرنا اُسی وقت ممکن ہو پاتا ہے جب ہم اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی اہم گردانیں، اُن کے مفاد کو تحفظ فراہم کرنے کے بارے میں بھی سوچیں۔ کسی بھی نعمت کو سہولت کے درجے میں رکھنے سے بات بنتی ہے۔ اگر بے ذہنی کے ساتھ بروئے کار لائی جائے تو نعمت بھی زحمت بنتے دیر نہیں لگاتی۔ ہماری پوری زندگی تفنّنِ طبع کے لیے ہوتی ہے نہ اُس سے عبارت ہونی چاہیے۔ جہاں سنجیدہ ہونا ہو وہاں سنجیدہ ہونے سے بات بنتی ہے۔ خوش مزاج ہونے اور بات بے بات ہنسی ٹھٹھا کرنے میں تو بہت واضح فرق ہے۔ طبیعت کی شائستگی باتوں کے ساتھ ساتھ عمل سے بھی جھلکنی چاہیے۔ ہر بات اس لیے نہیں ہوتی کہ اُسے تماشے میں تبدیل کرکے لطف اٹھایا جائے اور دوسروں کو بھی لطف کشید کرنے پر اکسایا جائے۔ یہ تو پورے وجود کو داؤ پر لگانے والی بات ہوئی۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں، سانسیں اس لیے نہیں بخشی گئیں کہ تمسخرانہ انداز سے ضائع کردی جائیں۔ حیوانات میں بھی کچھ نہ کچھ سنجیدگی اور ٹھہراؤ تو بہرحال پایا جاتا ہے۔ تفنّنِ طبع کی ضرورت تسلیم مگر ہر بات میں تماشا تلاش کرنا مرتبۂ انسان کی صریح توہین ہے۔