مزمل فیروزی نے ایک مدت کے بعد یاد کیا۔ اینکرناجیہ اشعر کی ''میڈیا بیٹھک‘‘ میں صنفی تفاوت و امتیاز اور تشدد آمیز شدت پسندی کو برداشت کرنے سے متعلق ورکشاپ رکھی گئی تھی۔ یہ ایک روزہ ورکشاپ ''گلوبل نیبر ہُڈ فار میڈیا انوویشن‘‘ کے بینر تلے منعقد کی گئی۔ مزمل فیروزی نے اس کا دعوت نامہ دیا تو دل خوش ہوا کہ اظہارِ خیال اور تبادلۂ خیالات کے بہانے میڈیا کے اُن دوستوں سے ملاقات بھی ہوجائے گی جن سے کم کم ملنا ہوتا ہے۔ میڈیا سے تعلق رکھنے والے احباب کو مزمل اِسی طور ایک پلیٹ فارم پر لایا کرتے ہیں۔ اللہ جزا عطا فرمائے۔ ورکشاپ کی اینکرنگ معروف سینئر صحافی عافیہ سلام نے کی۔ مختلف حوالوں سے خواتین کو درپیش مسائل بالخصوص فکری کجی اور رویّوں کے حوالے سے انہوں نے مرکزی موضوع اور ذیلی موضوعات پر سیر حاصل اظہارِ خیال کیا۔ سچ تو یہ ہے کہ اُنہوں نے موضوع کا حق ادا کیا۔ بھائی اظہر عزمی نے بتایا کہ عافیہ سلام نے ذرا بھی پژمردگی کو راہ دیے بغیر اور بھرپور قوتِ ارادی کو بروئے کارلاتے ہوئے ایک جان لیوا مرض کو شاندار انداز سے شکست دی اور زندگی کا سفر یوں جاری رکھا ہے گویا کچھ ہوا ہی نہ تھا۔
صنفی بنیاد پر امتیاز ایک زمانے سے پاکستانی معاشرے کے زندہ موضوعات میں سے ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اِس کی ''گہرائی و گیرائی‘‘ بڑھتی ہی جارہی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اس حوالے سے جس قدر توجہ درکار ہے ہمارا رویّہ اُس کے برعکس رہا ہے۔ ہم ایک ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جس میں آج بھی خواتین کے حوالے سے مخصوص تنگ نظری پر قابو نہیں پایا جاسکا۔ خاندان، محلے یا مجموعی طور پر پورے سماج کا نمبر تو بعد میں آئے گا، صنفِ نازک کو تو گھر کی چار دیواری ہی میں مساوات کے زرّیں اصول پر مبنی سلوک میسّر نہیں! ہمارے ہاں ایسے گھرانے نمایاں اکثریت میں ہیں جن میں آج بھی لڑکیوں پر لڑکوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔ سوال کھانے پینے کا ہو تعلیم کا، معاشرتی سرگرمیوں کا ہو یا کیریئر کے انتخاب کا ... لڑکیاں بہتر سلوک کی حقدار کم ہی ٹھہرتی ہیں۔ کیوں؟ اس سوال کا جواب یا تو سب کے پاس ہے یا پھر کسی کے پاس نہیں۔ ہمارے ہاں والدین اور گھر کے دیگر افراد لڑکیوں کے حوالے سے مخصوص روایتی سوچ رکھتے ہیں کہ وہ کمزور ہوتی ہیں، زیادہ عقل کی حامل نہیں ہوتیں، ذہنی و جسمانی اعتبار سے زیادہ چیلنجنگ نوعیت کے کام نہیں کرسکتیں، معاشی سرگرمیوں کے حوالے اُن کے لیے موزوں شعبے بھی چند ہی ہیں، اور یہ کہ گھر سے باہر کی سرگرمیوں کے حوالے سے اُن سے غیر معمولی مشقّت اور اطمینان بخش نتائج کی توقع نہیں کی جاسکتی۔
کراچی میں لیاری ایسی بستی ہے جس نے انتہائی نامساعد حالات کے باوجود اپنے وجود کو منوایا ہے اور خوب منوایا ہے۔ منشیات فروشی، سمگلنگ، اغوا برائے تاوان، قتل و غارت اور دیگر جرائم کے حوالے سے لیاری ایک زمانے تک خبروں میں رہا ہے۔ ایک وقت تھا کہ شہر کے دیگر علاقوں کے لوگ لیاری کا نام سنتے ہی کانپنے لگتے تھے۔ جرائم پیشہ افراد کے گروہوں کے درمیان ہونے والی لڑائی (گینگ وار) نے لیاری کا چہرہ بُری طرح مسخ کیا۔ لیاری کے باعزم نوجوانوں نے دوبارہ زندگی کی طرف آنے اور اپنی بستی کا وجود منوانے کے لیے بھرپور جدوجہد کی ہے۔ لیاری کی لڑکیاں بھی کسی سے پیچھے نہیں رہیں۔ لیاری ہی کے علاقے چاکی واڑہ سے تعلق رکھنے والی زرمینہ زر نے قدرے تفصیل کے ساتھ اور خاصے موثر انداز سے بتایا کہ باقی شہر سے عملاً بے رابطہ رہنے کے باوجود لیاری کے نوجوانوں بالخصوص لڑکیوں نے ہمت نہیں ہاری اور مختلف شعبوں میں اپنے آپ کو خوب منوایا ہے۔ کھیل ہو یا تعلیم، عمومی ہنر ہوں یا فنونِ لطیفہ ،لیاری کی لڑکیاں بھی کسی سے کم نہیں۔
دنیا اکیسویں صدی میں جی رہی ہے اور ہم فکر و نظر کے اعتبار سے اب تک باقی دنیا سے صدیوں پیچھے ہیں۔ بہت کوشش کرنے پر بھی کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ فرق کس طور ختم کیا جاسکے گا۔ باقی معاملات تو کیا درست ہوں گے، ہم اب تک صنف کی بنیاد پر امتیازی فکر و رویّے ہی سے نجات نہیں پاسکے ہیں۔ اس حوالے سے شعوری سطح پر کی جانے والی کوششیں بھی برائے نام ہیں۔ معاشرے میں انتہا پسندی عام ہے۔ اپنی رائے کا اظہار کرنے والے چاہتے ہیں کہ فریقین اُن کی ہر بات کو حرفِ آخر سمجھ کر مطمئن ہو رہیں اور مزید کچھ سوچنے اور بولنے کی زحمت سے چھوٹ جائیں! اس میں کچھ شک نہیں کہ معاشرتی سطح پر بعض معاملات میں خواتین کا رویّہ غیر متوازن ہوتا ہے؛ تاہم زیادہ بڑی اور ناقابلِ تردید حقیقت یہی ہے معاشرہ مردوں کا ہے جو کم و بیش ہر معاملے میں، اعلانیہ یا غیر اعلانیہ طور پر، اپنی بالا دستی قائم کرنے اور برقرار رکھنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ اس مقصد کا حصول یقینی بنانے کے لیے وہ خواتین کو ہر سطح پر، ہر معاملے میں نچلے درجے کی ثابت کرنا اور اُسی درجے میں رکھنا چاہتے ہیں۔
خواتین سے امتیازی سلوک بالخصوص گھریلو تشدد سے نجات پانے کے لیے بہت بڑے پیمانے پر فکری نوعیت کی جدوجہد لازم ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ میڈیا پر چند باتیں بیان کی جائیں اور لوگ اپنے گریبان میں جھانک کر اصلاحِ نفس پر مائل ہوں۔ کسی بھی معاشرے کے پختہ نظریات اور رویوں کو بدلنے کے لیے ایک عمر درکار ہوتی ہے۔ آج مین سٹریم میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا بھی ہماری معاونت کے لیے موجود ہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ ان دونوں میڈیا پر خواتین کے حوالے سے جو کچھ پیش کیا جارہا ہے وہ معاملات کو بگاڑنے میں خطرناک کردار ادا کر رہا ہے۔ ہمارے ہاں بیشتر ٹی وی ڈراموں اور اشتہارات میں آج بھی خواتین کو خاصی تنگ نظری کے ساتھ اور commodity کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ خواتین سے محض چمک دمک اور ایسے ہی دوسرے معاملات کو جوڑ دیا گیا ہے۔ تصور کرلیا گیا ہے کہ عورت تعلیم و تربیت کے مرحلے سے گزر کر بہتر معاشی سرگرمی یا پھر گھر بسانے اور نئی نسل کی موثر تربیت کا فریضہ ادا کرنے سے کہیں ہٹ کر محض ماحول کی رنگینی بڑھانے والی چیز ہے۔ یہ فکری کجی دور کیے بغیر بات بن نہیں سکتی۔
جن کے ہاتھ میں قلم ہیں اُن کے کاندھوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ صنفی بنیاد پر برتے جانے والے امتیاز کے سدباب کے لیے اپنا کردار پوری دیانت کے ساتھ اور موثر طریقے سے ادا کریں۔ خواتین کو جہاں جہاں ترجیح دی جانی چاہیے وہاں ایسا کیے بغیر چارہ نہیں۔ ہم ایسے ماحول میں جی رہے ہیں جس میں دستر خوان لگنے پر آج بھی گھر کے مرد پہلے کھاتے ہیں اور خواتین آخر میں۔ غذائیت کا گراف بلند کرنے کے معاملے میں بھی لڑکوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔ لڑکیاں عمومی سطح پر غذائیت کی کمی کا شکار رہتی ہیں اور اِس کا نتیجہ آنے والی نسل کو بھگتنا پڑتا ہے۔ ضلع تھر پارکر کی مثال بہت روشن ہے۔ وہاں غذائیت کی کمی سے نو زائیدہ بچوں کے مرنے کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ ایسی خبریں پڑھ یا سُن کر افسوس تو بہت سے لوگ کرتے ہیں مگر اس حقیقت پر کم ہی لوگ غور کرتے ہیں کہ تھر میں نو زائیدہ بچوں میں بلند شرحِ اموات دراصل اس حقیقت کا مظہر ہے کہ اُن کی ماؤں کے جسم میں غذائیت کی کمی پائی جاتی ہے۔ اُنہیں یا تو پیٹ بھر کھانے کو نہیں ملتا یا پھر جو کچھ وہ کھاتی ہیں وہ معیاری نہیں ہوتا۔ ایک طرف تو خواتین کے حوالے سے سوچ بدلنے کی ضرورت ہے اور دوسری طرف یہ بھی لازم ہے کہ ہم گھر اور معاشرے کے حوالے سے خواتین کے کردار کو زیادہ وسیع النظری کے ساتھ دیکھیں اور بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اُن کی وہ تمام ضرورتیں پوری کریں جنہیں پورا کیے بغیر ہماری متعلقہ جدوجہد کے معنی خیز نتائج برآمد ہو ہی نہیں سکتے۔