ڈونلڈ ٹرمپ کے عہد کا امریکا تمام معاملات سے لاتعلق سا ہوگیا تھا۔ دنیا بھر میں بہت کچھ ہو رہا تھا مگر اُس کے بارے میں جو رویہ اپنایا جانا چاہیے تھا وہ دور تک دکھائی نہ دیا۔ ریپبلکنز نے دنیا بھر میں معاملات کو صرف بگاڑنے پر توجہ دی۔ ساتھ ہی ساتھ یہ تاثر دینے کی کوشش بھی کی گئی کہ امریکا کو اب صرف اپنی پڑی ہے اس لیے دوسروں میں زیادہ دلچسپی لینے کی گنجائش نہیں۔ ٹرمپ دور میں کہیں بھی ایسا کچھ نہیں کیا گیا جس سے یہ امید کی جاسکے کہ شاید اب کچھ بہتری آئے گی۔ امریکی ایوانِ صدر میں ٹرمپ نے جو وقت گزارا وہ کسی بھی اعتبار سے ایسا نہیں کہ اچھے الفاظ میں یاد رکھا جاسکے۔
چین کے معاملے میں کشیدگی برقرار رہی، بلکہ اُس کا گراف بلند تر کرنے پر توجہ دی گئی۔ ایسے میں بھارت جیسے ممالک کو بھی کھل کر کھیلنے کا موقع مل گیا۔ نریندر مودی نے اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دوسرے دور میں صرف خرابیاں بڑھانے پر توجہ دی۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرکے اُسے بھارت کا حصہ بنانے کی سمت واضح قدم اٹھاکر مودی نے خطے میں نئی طرز کی کشیدگی بڑھانے کا سوچا۔ مقبوضہ وادی کو باقی دنیا سے کاٹ کر اہلِ کشمیر کا جینا دشوار تر کردیا گیا۔ یہ سب کچھ عالمی برادری نے، خاصے شرم ناک انداز سے، خاموش تماشائی کی طرح دیکھا۔ دنیا بھر میں جمہوری حکومتیں شدید ناکامی سے دوچار دکھائی دے رہی ہیں۔ آمریت کسی نہ کسی بھیس میں نمایاں ہے۔ دنیا بھر میں حکمراں طبقہ جمہوریت کا قد کاٹھ گھٹانے کے حوالے سے کوئی بھی کسر اٹھا رکھنے کے موڈ میں نہیں۔ بھارتی قیادت کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا زعم ہے۔ یہ جمہوریت کون سے تیر مار رہی ہے یہ بھی باقی دنیا سے ڈھکا چھپا نہیں۔ نریندر مودی نے وزیر اعظم کی حیثیت سے ملک کو آگے لے جانے اور تمام باشندوں کا جینا آسان بنانے پر محض کشیدگی بڑھانے، معاشرتی تقسیم وسیع کرنے اور اپنے مفادات کو تقویت فراہم کرنے کو ترجیح دی۔ اُن کے دور میں مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں کے لیے مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ جب امریکی صدر تھے تب بھارت اور میانمار سمیت کئی ممالک کو فری ہینڈ ملا ہوا تھا۔ یہ ممالک اپنی مرضی کے مطابق کچھ بھی کرتے تھے اور کوئی کچھ کہنے والا نہ تھا۔ اب جوزف بائیڈن نے امریکی صدر کا منصب سنبھالا ہے تو کچھ بہتری کے آثار ہیں۔ ڈیموکریٹس چونکہ لبرل نظریات کے حامل ہیں اِس لیے اُن سے کسی بھی نوع کی اقلیت کے خلاف ڈٹ جانے اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزیاں روکنے سے متعلق کوششوں کی امید وابستہ کی جاتی ہے۔ امریکا میں اب تک قائم ہونے والی ڈیموکریٹ حکومتوں نے اس حوالے سے کچھ نہ کچھ ضرور کیا ہے۔ رونلڈ ریگن کے دو اور جارج بش (سینئر) کے ایک دور کے بعد ڈیموکریٹ بل کلنٹن کے دونوں ادوار قدرے پُرسکون رہے۔ اُن کے بعد جارج بش (جونیئر) نے خرابیوں کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا۔ اُن کے بعد ڈیموکریٹ بارک اوباما آئے اور جنگوں کا سلسلہ تھمتا دکھائی دیا۔ انہوں نے کوئی نئی جنگ شروع کرنے کو ترجیح نہ دی۔ اُن کے بعد ریپبلکن ڈونلڈ ٹرمپ نے ملک کی کمان سنبھالی تو خرابیاں پھر شروع ہوگئیں۔ اب جوزف بائیڈن آئے ہیں تو دنیا بھر کے پریشان حال انسان کسی حد تک پُرامید نظروں سے امریکا کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ کیا کچھ بہتر ہوسکے گا؟ یہ سوال بہت سوں کے ذہنوں میں گردش کر رہا ہے۔
صدر بائیڈن نے 19 فروری کو ورچوئل میونخ سکیورٹی کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ جمہوریتوں کو آمریت کے خلاف صف آرا ہونا ہے۔ آمریت کو بہتر قرار دینے والوں کی آرا کے سامنے بند باندھنے کی ضرورت ہے۔ جمہوریت کے نام پر من مانی کرنے والے حکمرانوں کا انہوں نے نام تو نہیں لیا مگر اشارا واضح طور پر بھارت کی طرف تھا۔ مغرب میں انسانی حقوق کی پاسداری کے داعی ادارے بھارت میں اقلیتوں سے ناروا سلوک اور بنیادی حقوق کی پامالی کے حوالے سے شاکی ہیں۔ بھارت کی کڑی نگرانی پر زور دیا جاتا رہا مگر ٹرمپ انتظامیہ اور اُس کے یورپی حلیفوں نے اس کی ضرورت محسوس نہ کی۔ نریندر مودی کو بہت حد تک فری ہینڈ دیا گیا تاکہ وہ بے فکر ہوکر اقلیتوں کا ناطقہ بند رکھیں اور ہندو انتہا پسندی کو جی بھر کے فروغ دیں۔ مودی اگر یہ سمجھ رہے ہیں کہ اہلِ مغرب اُن سے خوش ہیں تو یہ اُن کی خوش فہمی ہے۔ جو کچھ مودی کرتے آئے ہیں اُس سے بھارتی معاشرے میں تقسیم بڑھی ہے اور بھارت کے نمائشی مغربی حلیف یہی چاہتے ہیں! بھارت کا اندرونی استحکام اُن کے لیے مزید مسابقت پیدا کرے گا۔ مودی یہ سمجھنے سے بھی قاصر ہیں کہ پاکستان کے علاوہ چین کا ڈٹ کر سامنا کرنے کے لیے بھی اندرونی استحکام لازم ہے۔ انتہا پسندوں کو خوش کرنے کے نام پر وہ باقی آبادی کو ناراض کر رہے ہیں۔
نریندر مودی اپنی خود پسندی کے ہاتھوں میں کھلونا بنے ہوئے ہیں۔ کسانوں کے احتجاج کو سمجھنے میں انہوں نے خاصے بُودے پن کا مظاہرہ کیا ہے۔ انتہائی ناموافق قوانین کے خلاف بھارتی کسانوں کا احتجاج اب تک جاری ہے۔ کئی ماہ سے جاری احتجاج کے دوران پنجاب، ہریانہ، مدھیہ پردیش اور دیگر ریاستوں سے تعلق رکھنے والے کسانوں نے دہلی پر دھاوا بول کر اپنی بات منوانے کی بھرپور کوشش کی۔ مودی سرکار اگر اب تک اُن کی بات نہیں سُن رہی تو اِس میں نقصان کسانوں کا نہیں، ملک کا ہے۔ کسانوں کے احتجاج کا دائرہ وسیع ہوتے جانے سے دنیا بھر میں بھارت کی ساکھ شدید متاثر ہوئی ہے۔ بیرونی سرمایہ کاروں نے بھی احتیاط سے کام لینا شروع کردیا ہے۔ کسانوں کی بات سمجھنے کی کوشش کرنے کے بجائے نریندر مودی نے پارلیمنٹ میں اُن کے اور اُن کے حامیوں کے خلاف گندی زبان استعمال کی ہے۔ حقوق کی بات کرنے والوں کو اُنہوں نے احتجاج پسند اور طفیلیے قرار دیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اُن پر بیرونی قوتوں کے ہاتھ میں کھیلنے کا الزام بھی عائد کیا ہے۔ کسانوں نے اب تک ہمت نہیں ہاری‘ وہ ڈٹے ہوئے ہیں۔ ایسے میں مودی سرکار پر دباؤ بھی برقرار ہے۔ بیرونی ہاتھ؟ غیر ملکی سازش؟ یہی تو اس خطے کی سیاست کا مسئلہ ہے۔ اپنے گریبان میں جھانکنے کے بجائے دوسروں کو موردِ الزام ٹھہراکر سر سے بلا ٹالتے رہنے کو اب بھی ترجیح دی جارہی ہے۔ نریندر مودی اور وہ کر بھی کیا سکتے ہیں؟ مقبوضہ کشمیر کے معاملے میں جو کچھ کرنا تھا وہ انہوں نے کرلیا۔ مسلمانوں سمیت اقلیتوں کو جس قدر تکلیف پہنچانا تھی، پہنچا چکے۔ ایودھیا میں نام نہاد رام جنم بھومی مندر کی تعمیر انتہا پسندوں کا نمایاں ترین ایجنڈا تھا۔ یہ ایجنڈا بھی پورا ہوا‘ اب کرنے کو کیا رہ گیا ہے؟ شاید کچھ بھی نہیں۔ ایسے میں حکومت کی باقی ماندہ میعاد پوری کرنے کے لیے کچھ تو چاہیے۔ اب وہی پرانا فارمولا اپنانا پڑے گا یعنی بیرونی ہاتھ اور غیر ملکی سازش کا راگ الاپتے رہنا پڑے گا۔
امریکا اور یورپ میں مودی سرکار کی اقلیت دشمن پالیسیوں کے حوالے سے تشویش کا ابھرنا نریندر مودی کے لیے انتہائی پریشان کن امر ہے۔ ملک میں بھی افتراق و انتشار پایا جاتا ہے اور بیرونِ ملک بھی مودی سرکار کے بارے میں اچھی رائے نہیں پائی جاتی۔ بارک اوباما کے دور میں نریندر مودی کو امریکا کا ویزا دینے سے انکار کردیا گیا تھا۔ اوباما ڈیموکریٹ تھے۔ امریکا میں اب پھر ڈیموکریٹس کی حکومت ہے۔ نریندر مودی تذلیل بھولے نہیں ہیں۔ وہ بظاہر ڈیموکریٹس کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اُن کی باقی ماندہ میعاد کے دوران امریکا بھارت تعلقات معمول پر نہیں آسکیں گے، وہ پہلی سی گرم جوشی پیدا نہیں ہوسکے گی۔
اکیسویں صدی کے تیسرے عشرے کی ابتدا ہے۔ بہت کچھ بدل چکا ہے۔ ایسے میں بھارت کے پالیسی میکرز کو بھی اپنی سوچ بدلنا ہوگی۔ انتہا پسندوں کو خوش کرنے والی پالیسیاں بھارت کی نَیّا ڈبودیں گی۔ نریندر مودی حقیقت پسندی سے کام لینے کو تیار نہیں۔ وہ اب تک شمالی بھارت ہی کو مکمل بھارت سمجھ رہے ہیں۔ جنوبی بھارت کو نظر انداز کرتے رہنا انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ مودی کے پاس اب صرف حقیقت پسندی کا آپشن رہ گیا ہے۔ اِس بار اُنہیں حقیقی سیاسی بصیرت ثابت کرنا ہوگی۔