"MIK" (space) message & send to 7575

معیار سے بھی ایک قدم آگے

ہم جس عہد میں جی رہے ہیں وہ کئی نمایاں خصوصیات سے عبارت ہے۔ ایسا بہت کچھ ہے جس پر ہمیں متوجہ رہنا ہے؛ تاہم حقیقت یہ ہے کہ مسابقت ایک ایسی حقیقت ہے جسے ہم کسی بھی طور نظر انداز نہیں کرسکتے۔ مسابقت کا معاملہ یہ ہے کہ زندگی کا کوئی بھی شعبہ اِس کی دست بُرد سے محفوظ نہیں۔ جو ڈھنگ سے جینا چاہتا ہے اُس کے لیے لازم ہے کہ خود کو حقیقت کی دنیا میں مسابقت کے لیے ہر وقت تیار رکھے۔ اگر کوئی پست ترین درجے کی زندگی پر اکتفا کرکے جیے جانے کو ترجیح دے تو اور بات ہے، وگرنہ کچھ پانے کے لیے اچھی خاصی تیاری کرنا پڑتی ہے۔ ایک دور تھا کہ صلاحیت کے اظہار کا موقع نہیں مل پاتا تھا۔ اب وہ مشکل تو خیر نہیں رہی مگر فن کے حوالے سے خود کو منوانا البتہ بہت بڑا دردِ سر بن چکا ہے۔ آج ڈھنگ سے جینے کا حقدار صرف وہ ہے جو عصری تقاضوں کے مطابق خود کو بدلنے اور مسابقت کا چیلنج قبول کرنے کے لیے تیار ہو۔
مسابقتی فضا کے ہاتھوں کاروباری دنیا کے لیے مشکلات بڑھتی جارہی ہیں۔ ایک سبب تو یہ ہے کہ بازار میں برانڈز کی بھرمار ہے۔ ایسے میں کامیابی اُسی کا مقدر بنے گی جو ٹھنڈے دل و دماغ سے کچھ سوچے گا اور سوچ سمجھ کر کچھ کرے گا۔ ہر شعبے کا یہی حال ہے۔ وہی لکھاری کامیاب ہوگا جو اوروں سے کچھ ہٹ کر لکھے گا، پڑھنے والوں کو کچھ نیا دے گا۔ وہی درزی کامیاب کہلائے گا جو لباس سیتے وقت ڈیزائننگ پر غیر معمولی توجہ دے گا۔ اُسی کی دکان زیادہ چلے گی جو اپنے کرم فرماؤں پر زیادہ توجہ دے گا، اُن کی خدمت بطریقِ احسن انجام دے گا۔ کھانے پینے کی اشیا ہوں یا ملبوسات، گھریلو استعمال کے آلات ہوں یا دوسری مصنوعات ... ہر شعبے میں صرف اور صرف مسابقت کا بازار گرم ہے۔ یہ سب کچھ فطری و منطقی ہے جسے آپ بلا جواز قرار دے کر نظر انداز کرسکتے ہیں نہ اِس کے خلاف صف آرا ہوسکتے ہیں۔ مسابقت اِس لیے بھی پیچیدہ تر ہوتی جارہی ہے کہ کسٹمرز یا کنزیومرز کی پسند کا دائرہ وسعت اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ ''وکھرا‘‘ بھی ہوتا جارہا ہے۔ لوگ کچھ کہے بغیر بہت کچھ مانگنے لگے ہیں۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ اول تو وہ اچھے خاصے ''باخبر‘‘ ہوچکے ہیں اور دوم اُن کے پاس آپشنز بھی بہت ہیں۔ ہر آجر خود بھی کسٹمر یا کنزیومر ہے۔ وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ جب اُسے بہت کچھ چاہیے تو دوسروں کو بھی تو بہت کچھ چاہیے۔ معاملات سمٹتے جارہے ہیں۔ لوگ ایک ہی چوکھٹ سے بہت کچھ پانا چاہتے ہیں۔ اُنہیں زیادہ متحرک ہوئے بغیر اپنی دہلیز پر اشیا و خدمات درکار ہیں۔ وقت کی کمی کا احساس زور پکڑتا جارہا ہے۔ ''ون ونڈو آپریشن‘‘ کی ذہنیت تیزی سے پروان چڑھتی جارہی ہے۔ اور یہ سب کچھ بلا جواز ہے نہ حیرت انگیز۔ جب مسابقت کا بازار واقعی گرم ہو تو ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔ کچھ بننا اور کر دکھانا ہے تو زیادہ سے زیادہ سہولتیں ممکن بنائیے اور بڑی کامیابی کی طرف تیزی سے بڑھتے جائیے۔ سیدھی سی بات ہے، لوگ وہیں جاتے ہیں جہاں اُنہیں زیادہ سہولتیں ملتی ہیں۔
آج کرم فرماؤں کا اعتماد پانا مشکل اور اُس اعتماد کو برقرار رکھنا مشکل تر ہے۔ لوگ جو کچھ خرچ کرتے ہیں اُس کا بہترین نعم البدل چاہتے ہیں۔ اُن کی توقعات پر پورے اترنے والے ہی کامیاب رہ پاتے ہیں۔ کسی بھی کرم فرما کو تادیر اپنے ساتھ رکھنا روز بروز مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔ ایسا اصلاً اس لیے ہے کہ ہر شخص اپنی تمام توقعات کو بارآور ہوتا ہوا دیکھنا چاہتا ہے۔ لوگ بہت کچھ چاہتے ہیں۔ اُن کی خواہش ہے کہ اُن کی ضرورت اِس طور پوری ہو کہ باطن بھی مسرت پائے۔ آج کل مطلوب معیار کی چیز بھی اِس طرح طلب کی جارہی ہے کہ اُس سے وابستہ تمام تصورات پورے ہوں، مکمل تشفی ہو۔ معاشرتی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیاں کرم فرماؤں کے مزاج میں بھی غیر معمولی تبدیلیوں کی راہ ہموار کر رہی ہیں۔ ماحول کو پہنچنے والے نقصان کے بارے میں جو لوگ زیادہ حساس ہیں اور اس حوالے سے بہت کچھ پڑھتے ہیں‘ وہ چاہتے ہیں کہ جو کچھ بھی وہ استعمال کریں اُس میں ماحول کو نقصان پہنچانے والے عناصر یا تو بالکل نہ ہوں یا پھر برائے نام ہوں۔ منظّم ادارے اس حوالے سے شعور پیدا بھی کر رہے ہیں۔ لوگ چاہتے ہیں کہ کچھ خرچ کرکے وہ جو کچھ پائیں وہ محض اپنی اصل کے اعتبار ہی سے معیاری نہ ہو بلکہ سماجی اور ماحولیاتی ضرورتیں بھی پوری کرتا ہو۔ زمانہ برانڈنگ کا ہے۔ لوگ کسی بھی چیز کا ایک خاص معیار ذہن نشین رکھتے ہیں اور اِس حوالے سے سمجھوتا نہیں کرتے۔ کھانے پینے کی اشیا کا معاملہ یہ ہے کہ لوگ محض معیاری اجزا نہیں چاہتے بلکہ لذت کے معاملے میں بھی حساس ہوتے ہیں۔ مزا بدل جائے تو گاہک بدک جاتا ہے۔ اِسی کا نام برانڈنگ ہے۔ جو کچھ گاہک کے ذہن میں ہو وہ اُسے دستیاب ہونا چاہیے۔ مگر معاملہ یہیں پر رُک نہیں جاتا۔ لوگ اب اشیا وخدمات سے معاشرت اور تہذیب و ثقافت کو بھی جوڑ کر دیکھتے ہیں، تناظر کی بہت اہمیت ہے۔
اینا اینڈجیلک (Ana Andjelic)نے اپنی کتاب ''دی بزنس آف ایسپیریشن‘‘ (The Business of Aspiration)میں اس نکتے پر بحث کی ہے کہ آج کا کسٹمر یا کنزیومر آسانی سے مانتا نہیں۔ اُسے ایسا کرنے سے باز رکھنے والے عوامل بہت سے ہیں۔ اُسے اپنی طرف متوجہ کرنا اور متوجہ رکھنا انتہائی دشوار گزار مرحلہ ہے۔ معیار کو بلند کرتے رہنے ہی سے بات نہیں بنتی، معاشرتی ذمہ داریوں کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے۔ آج لوگ میڈیا سے متعلق ٹیکنالوجی میں پیش رفت کی بدولت خاصی نمایاں حد تک باخبر ہیں اور اِس کے نتیجے میں اُن میں حساسیت بھی بڑھتی جارہی ہے۔ وہ جو کچھ استعمال کرتے ہیں اُس کے اثرات کے بارے میں بھی جاننا چاہتے ہیں۔ وہ اشیاوخدمات سے محض سطحی تشفّی نہیں چاہتے بلکہ معاشرت اور تہذیب سے متعلق اپنی ذمہ داری کے نبھائے جانے کا احساس بھی چاہتے ہیں۔ اینا اینڈجیلک کہتی ہیں کہ سوشل میڈیا نے عام آدمی کو بہت سے معاملات میں صرف باخبر نہیں کیا، شعور بھی بخشا ہے۔ وہ بعض امور میں اپنی بات منوانا چاہتا ہے۔ اُس کی خواہش ہے کہ اُس کے حصے میں جتنی بھی اشیا و خدمات آئیں اُن میں ماحول اور معاشرت پر منفی اثرات مرتب کرنے والے اجزایا تو بالکل نہ ہوں یا زیادہ نہ ہوں۔
ماحول کا تحفظ یقینی بنانے میں فعال کردار ادا کرنے والوں نے عام آدمی کو تحریک دی ہے کہ وہ ماحول کو بچانے میں اپنا کردار آگے بڑھ کر ادا کرے۔ یہ کردار ادا کرنے کی صورت میں اُس کی غیر معمولی تشفّی ممکن ہو پاتی ہے۔ قلب و جاں کو جن باتوں سے سُرور ملتا ہو وہ سب کچھ لوگ اب عمومی سی اشیا و خدمات میں بھی چاہتے ہیں۔ معاشرے کے حوالے سے اپنے کردار کے بارے میں حساس افراد چاہتے ہیں کہ ہر اُس چیز کا استعمال ترک کردیا جائے جس سے ماحول کو نقصان پہنچ سکتا ہو۔ یہ آجروں کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس حوالے سے پنپتا اور پختہ ہوتا ہوا شعور مسابقت میں بھی شدت پیدا کر رہا ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں اس حوالے سے آجروں پر غیر معمولی دباؤ ہے۔ وہاں آجر من مانی نہیں کرسکتے کیونکہ لوگ آنکھیں بند کرکے اشیا و خدمات وصول اور قبول نہیں کرتے۔ وہ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ جو مال وہ خرید رہے ہیں اُسے تیار کرنے والا کارخانہ ماحول کو نقصان تو نہیں پہنچا رہا۔ اس حوالے سے سرکاری اور غیر سرکاری تنظیمیں بھی متحرک ہیں۔ یہی سبب ہے کہ ترقی یافتہ معاشروں میں اب آجروں کو معاشرتی اعتبار سے اپنے کردار کے بارے میں غیر معمولی حد تک احساسِ ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔ دنیا تب بہتر ہوسکتی ہے جب سب اپنے حصے کا کام کریں یعنی سب کی بہبود کے لیے اپنی اپنی ذمہ داری محسوس کریں، اپنے افکار و اعمال کا معیار بلند کریں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں