آج صبح کی بات ہے۔ ناشتے کا سامان لینے کے لیے ہم بیکری پہنچے تو وہاں سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب پر بحث ہو رہی تھی! جب ''اہلِ فکر و نظر‘‘ سرِ راہ ''دانش‘‘ کے موتی بکھیر رہے ہوں تو ہمہ تن گوش ہوکر سُنتے رہنے کے سوا چارہ نہیں ہوتا۔ ہم پانچ منٹ تک ع
وہ کہیں اور سُنا کرے کوئی
کی تصویر بنے کھڑے رہے کہ بحث ختم ہو تو کچھ خریدا جائے۔ یہ پانچ منٹ تو قیامت خیز ثابت ہوئے۔ اِس دوران سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب سے متعلق ایسے ایسے نکات سُننے کو ملے کہ کچھ کھائے پیے بغیر ناشتہ ہی نہیں ہوگیا‘ دل و دماغ کے چودہ طبق بھی روشن ہوگئے۔ کیوں نہ ہوتے بھلا؟ دو عام آدمی اپنی روزمرہ مشکلات ''بالائے طاق کے اوپر‘‘ رکھ کر پارلیمانی سیاست پر بتیارہے تھے اور ذہن و نُطق کی جولانیاں دکھانے پر تُلے تھے۔
بیکری کے پلیٹ فارم پر جب تک سینیٹ سمیت پوری پارلیمنٹ کے بارے میں بحث ہوتی رہی اور جمہوری نظام کا تجزیہ کیا جاتا رہا‘ ہم خاموش کھڑے یہ سوچتے رہے کہ اس قوم کے پاس کتنا وقت ہے! سیاست پر بحث و تمحیص کی ''عیّاشی تو اُن کا معاملہ ہے جو اپنے بنیادی مسائل حل کرچکے ہوں اور اب فراغت کی زندگی بسر کر رہے ہوں۔ کسی بڑے عہدے سے ریٹائر ہونے کے بعد بھرپور پنشن سے مستفید ہونے والے اگر روزانہ مل بیٹھیں اور ملک کے ہر طرح کے حالات پر دو تین گھنٹے بحث کریں تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ جن کے سروں پر ذمہ داریوں کے پوٹلے نہ ہوں وہ اگر دنیا بھر کی باتیں کریں تو کوئی بات نہیں۔ اُن کے پاس فرصت بھی ہے اور آسودگی بھی۔ عام آدمی کا بہت ہی عجیب کیس ہے۔ اُس کے سامنے مسائل جبڑے کھولے کھڑے رہتے ہیں۔ ذرا سی غلطی سرزد ہوئی اور سب کچھ داؤ پر لگا۔ عام آدمی اس حقیقت کو یکسر نظر انداز کیے بیٹھا ہے کہ بہت کچھ ہے جو اُس کے لیے ہے نہ اُس کے بارے میں فکر مند ہونا ہے۔ ملک کے حالات جیسے بھی ہیں سب کے سامنے ہیں۔ ان کی درستی کے لیے درکار سکت تو اُن میں بھی نہیں جن کی بات سُنی جاتی ہے اور جن کی طرف پُرامید نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ عام آدمی کی زندگی میں سو طرح کے جھنجھٹ ہیں۔ ایک مشکل دور ہوتی ہے تو دوسری سامنے آ کھڑی ہوتی ہے۔ گویا ع
اُڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے
والی کیفیت برقرار رہتی ہے۔ ایسے میں غیر متعلق باتوں پر توجہ دینے کی گنجائش ہے ہی کہاں؟ عام آدمی کو تو قدم قدم پر صرف یہ سوچنا ہے کہ اُس کے مسائل کیسے حل ہوں گے‘ مشکلات کیسے دور ہوں گی۔ حالات میں بہتری کی کوئی اُمّید نہیں۔ اگر کوئی اس حوالے سے کوئی حوصلہ افزا بات کہے تو اُسے اللہ کی طرف سے جزا ملے گی مگر یہ حقیقت ذہن نشین رہنی چاہیے کہ اگر ہم کچھ کرنے کے معاملے میں سنجیدہ نہ ہوں‘ اپنے مسائل حل کرنے پر متوجہ ہونے کا ذہن نہ بنائیں تو دلاسے کا معاملہ دلاسے تک ہی محدود رہتا ہے۔
ہمارا نصیب کہ ہم اب تک اپنے مسائل کو کماحقہ سمجھ بھی نہیں پائے۔ سمجھ پائیں تو معاملات کے درست کرنے کا سوچیں‘ لائحۂ عمل مرتب کریں۔ معاملات ایسے الجھے ہوئے ہیں کہ قدم قدم پر ہم سے بھرپور توجہ کے طالب رہتے ہیں۔ اور ہم؟ ہم نے ایسی طرزِ فکر و عمل اپنا رکھی ہے کہ حالات ہم سے مطالبہ ہی کرتے رہ جاتے ہیں کہ ؎
تم آسماں کی بلندی سے جلد لوٹ آنا
مجھے زمیں کے مسائل پہ بات کرنی ہے!
''غیر متعلّقات‘‘ کا ایک سمندر ہے جس میں پاکستان کا عام آدمی غوطے کھارہا ہے۔ کسی بھی معاشرے میں سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا عام آدمی ہی کو کرنا پڑتا ہے۔ عمومی سطح پر زندہ رہنے رہنا کسی بھی حالت میں کوئی اچھا آپشن نہیں۔ دل چاہے کہ نہ چاہے‘ اس سطح سے بلند ہونے کی تگ و دَو ہی ہمیں بامقصد زندگی کی طرف لے جاتی ہے۔ جنہیں حالات نے دبوچ رکھا ہو‘ اُن سے کِھلواڑ کر رہے ہوں اُن پر واجب ہے کہ اپنے معاملات درست کرنے‘ مسائل حل کرنے کا سوچیں اور عمل پسند رویہ اپنائیں۔ مگر کیا کیجیے کہ بس یہی نہیں ہو رہا‘ باقی سب کچھ ہو رہا ہے۔ زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے والوں کے پاس تازہ دَم ہوکر دوڑنے کے سوا کوئی آپشن نہیں رہتا۔ کوئی اگر ایک بار حالات کے شکنجے میں پھنس جائے تو بے ہاتھ پیر ہلائے نکل نہیں سکتا۔ خود کو ڈھیلا چھوڑنے کی صورت میں حالات کی طاقت بڑھتی ہی جاتی ہے۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ بُرے حالات ہماری کمزوری اور بے دِلی یا نیم دِلی کے باعث مزید بُرے ہوتے جاتے ہیں اور مثبت طرزِ فکر و عمل نہ اپنانے کی صورت میں الجھنیں بڑھتی ہی چلی جاتی ہیں۔ پاکستان کے عام آدمی کو بھی اپنے حالات درست کرنے پر متوجہ ہونا ہے۔ جب وہ ایسا کرے گا تب ہی کچھ کرنے کی راہ ہموار ہوگی۔ جن معاملات سے عام آدمی کا برائے نام بھی کوئی تعلق نہیں اُن کے بارے میں سوچنا اور گفتگو کرنا وقت اور صلاحیت کے ضیاع کے سوا کچھ نہیں کہلائے گا۔ اقتدار کے ایوانوں میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ عام آدمی کا دردِ سر نہیں۔ پارلیمنٹ میں کھیلے جانے والے کھیل کو سمجھنا اور اُس کے بارے میں یومیہ بنیاد پر بحث و تمحیص میں مشغول رہنا بھی اُس کی ذمہ داری نہیں۔ عام آدمی کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے اپنے حالات درست کرنے کا ذہن بناکر منصوبہ سازی کے مرحلے سے گزرتے ہوئے عمل کی دہلیز تک آنا اور اپنے آپ کو سُپردِ عمل کرنا۔ اگر وہ پوری توجہ کے ساتھ ایسا کرتا ہے تو اپنے آپ سے انصاف کرتا ہے۔ بصورتِ دیگر اُس کی طرزِ فکر و عمل کو لاحاصل ہی تصور کیا جائے گا۔
غیر متعلق معاملات کا پایا جانا کسی بھی درجے میں غیر فطری ہے نہ حیرت انگیز۔ ماحول میں ایسا بہت کچھ ہوتا ہے جو سب کے لیے نہیں ہوتا۔ جس طور ہم کسی شاپنگ مال میں اپنے لیے کام کی چیزیں منتخب کرتے ہیں بالکل اُسی طرح ماحول کی سپر مارکیٹ میں بھی ایسا بہت کچھ ہوتا ہے تو سب کے لیے کام کا نہیں ہوتا۔ کوئی چیز کسی کے لیے کام کی ہوسکتی ہے مگر دوسروں کے لیے اُس میں ذرا بھی کشش نہیں ہوتی۔ شاپنگ مال میں اگر انتخاب سوچ سمجھ کر نہ کیا جائے تو گھر پہنچنے پر معلوم ہوتا ہے کہ ایسی کئی چیزیں خرید لی گئی ہیں جو یا تو بالکل کام نہیں یا پھر شاید ہی کبھی کام آئیں۔ عام آدمی کو صرف اس بات پر توجہ دینی ہے کہ اُس کے حالات کیونکر بدل سکتے ہیں۔ ہر گزرتا ہوا دن اُس کی مشکلات میں اضافہ کر رہا ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ پوری سنجیدگی کے ساتھ مثبت طرزِ فکر و عمل نہ اپناکر بھی اپنا نقصان کرتا رہتا ہے‘ مشکلات دوچند کرنے میں مصروف رہتا ہے۔ یہ سب کچھ بہت عجیب بھی ہے اور انتہائی افسوسناک بھی۔ پاکستانی معاشرے کی عمومی طرزِ فکر و عمل یہ ہے کہ زندگی کی پیچیدگیاں دور کرنے کے لیے درکار فکر و عمل کو گلے لگانے کے بجائے غیر متعلق معاملات میں الجھا جائے۔ اس روش پر گامزن رہنے کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ آج پاکستان کا عام آدمی اپنے معاملات درست کرنے سے زیادہ معاشرے اور سیاسی و معاشی نظام کی اصلاح کے بارے میں سوچتا رہتا ہے! گویا ؎
یوں سمجھنے کو تو سب کچھ این و آن سمجھا تھا میں
جو سمجھنا چاہیے تھا وہ کہاں سمجھا تھا میں!
غیر متعلق باتوں اور معاملات کا دریا تو بہتا ہی رہے گا۔ کوئی کب تک اس میں ڈبکیاں لگاتا رہے؟ دانش کا تقاضا یہ ہے کہ انسان ع
نہ غرض کسی سے نہ واسطہ‘ مجھے کام اپنے ہی کام سے
کی تصویر بن جائے یعنی دوسروں کے جھمیلوں اور بکھیڑوں میں پڑنے کے بجائے اپنے معاملات درست کرنے پر متوجہ رہے۔ یہی وہ راہ ہے جس پر گامزن رہنے کی صورت میں زندگی کو بامقصد بنایا جاسکتا ہے۔ حقیقت پسندی اور خود غرضی میں بہت واضح فرق ہے جو کوئی بھی محسوس کرسکتا ہے۔ اپنے معاملات درست کرنے پر متوجہ رہنا کسی میں درجے میں خود غرضی نہیں‘ محض حقیقت پسندی ہے۔ غیر متعلق معاملات کی حیثیت طلسمات کی سی ہے اور جس نے اس طلسمات میں مُڑ کر دیکھا وہ پتّھر کا ہوگیا!